پاکستان اور ایران کے تاریخی تعلقات

پاکستان اور ایران کے تاریخی تعلقات کا پس منظر

عمران خان امام خمینی سے ملاقات کرتے ہوئے ۔

ایران پہلا ملک ہے جس نے پاکستان کی نئی مملکت کو اُس کے قیام کے ساتھ ہی نہ صرف تسلیم کر لیا بلکہ اسکے قیام پر سچی مسرت اور خوشی کے اظہار کیا۔

چناچہ جب راجہ غضنفر علی خان کو ایران میں پاکستان کے پہلے سفیر مقرر ہو رہے ان سے قائد اعظم نے فرمایا" آپ ایسے ملک کے سفیر بن کر جا رہے ہیں جو پاکستان کا گہرا اور حقیقی دوست ہے" اعلیٰ حضرت آریا مہر شاہنشاہ محمد رضا پہلوی نے مارچ سن ۵۰ عیسوی میں پاکستان کا دورہ کیا اور اسی طرح آپ پاکستان کا دورہ کرنے والے پہلے سر براہ مملکت ہیں ۔

پاکستان ایران کی دوستی تاریخی صدیوں پرانی ہے۔جب ہندوستان کے مغل شہنشاہ ہمایوں کو شیر شاہ سوری کے مقابلے میں شکست ہوئی اور اس آزمائش کے وقت اسکے اپنے بھائیوں نے بیوفائی کی۔تو وہ مدد طلب کرنے ایرا ن پنچا تھا حکمران جہاں ایران کے حکمران سفوی نہیں ان کی مدد کی اور وہ دوبارہ ہندوستان پر قبضہ حاصل کر سکا۔یہاں پر بھی سرکاری دربار کی زبان فارسی تھی مغلوں کے دور میں یہ روابط اور گہرے ہوگئےایران کے نامور شعراء فنکار اور علماء ہر دور میں ہندوستان آتے رہے اور ہر دور میں یہاں ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔انہی کے اثر سے یہاں کی مسلم تہذیب اور معاشرت پر ایران کے بڑے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔جو آج بھی ہماری زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتے ہیں فارسی زبان کو ترقی دینے اس کے دامن کو علوم و فنون اور شعراء ادب کے بیش بہا جوائر سے مالا مال کرنے میں ہندوستان کے اہل علم ادب نے بھی ایرانیوں کے برابر حصہ لیا ۔مغل سلطنت کے خاتمے تک فارسی ہی ہندوستان کی سرکاری زبان رہی،اسی کا نتیجہ ہے کہ نہ صرف اردو بلکہ بنگالی اور پاکستان کی دوسری علاقائی زبانوں میں بھی فارسی کے بے شمار الفاظ شامل ہوگئے۔انگریز کے دور میں بھی اسی زبان سے ہمارا تعلق برابر باقی رہا۔شاعر مشرق علامہ اقبال کی فارسی شاعری اس کی روشن مثال ہے۔

زبان ادب تہذیب اور ثقافت کے ان رشتوں کو مضبوط تر بنانے والا عنصر ہمارا مذہبی رشتہ ہے۔مسلمان ہر کلمہ گو کو اپنا بھائی سمجھتا ہے چاہے وہ کسی علاقے کا بسنے والا ہوں اور مسلمانان ہند کا ایرانی سے جذبہ قوت تو مثالی ہے۔۔

پاکستان اور ایران کے تعلقات کے ساتھ ساتھ قریبی ہمسایہ بھی ہیں۔دونوں ملکوں کے درمیان کوئی چھ سو میل لمبی سرحد ہے۔یہ سرحد مغربی پاکستان کے صوبہ یعنی موجودہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ملک سیاہ (پاکستان ایران اور افغانستان کی سرحدیں ملتی ہیں) سے بحیرہ عرب میں گوادر تک پھیلی ہوئی ہے۔

انگریزوں نے اپنے دور میں دونوں ملکوں کے درمیان واضح سرحد بندی پر زیادہ توجہ نہ دی پاکستان کے قیام کے بعد دونوں ملکوں یعنی پاکستان اور ایران نے اس بات کو محسوس کیا کہ سرحدوں کا تعین دونوں کے باہمی تعلقات کی بہتری کے لیے ضروری ہے۔۔

سر حدی سمجھوتے کے موقع پر ایران میں پاکستان کے سفیر میجر جنرل این اے ایم رضا نے جو بیان دیا اس کا ایک عکس اب درج ذیل ہے۔

پاکستانی سفیر نے کہا"پتھر اور سیمنٹ کے بنائے ہوئے سکون جو دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کی نشاندہی کرتے ہیں امتداد زمانہ کے ساتھ ٹوٹ پھوٹ بھی سکتے ہیں مگر مجھے یقین ہے کہ ہے جس جذبے نے اس سمجھوتے کو ممکن بنایا ہے اس سے زمانہ کبھی کمزور نہ کرسکے گا ہمارے درمیان سرحد محبت کے جذبے سے تیار ہوئی ہے اور یہ ایسی سرحد ہے جو دو ملکوں کو الگ نہیں کرتی انہیں اور قریب سے قریب تر کرتی ہے"

ایران اور پاکستان کی دوستی کی یہ بہترین تفسیر ہے اور پاکستان کی تاریخ نے اس کی حقیقت کو ہر وقت اور ہر لمحے واضح کیا ہے۔

ایران کی عوام اور ایران کی حکمران شروع سے ہی پاکستان کے خیر خواہی۔ہر آزمائش میں انہوں نے ہمارا ساتھ دیا ہے۔پاکستان کی ہر ملک سے دوستی کی پالیسی کو ہمیشہ ایران کی تائید حاصل رہی،ہندوستان سے ہمارے تعلقات کو بہتر بنانے کے سلسلے میں بھی انہوں نے ماضی میں مخلصانہ کوششیں کیمگر ہندوستان کی ہٹ دھرمی ہر وقت ان کی راہ میں رکاوٹ بنی۔سن ساٹھ کی دہائی میں ہماری افغانستان کے اور پاکستان کے درمیان ہندوستان کی سازشوں سے جو کشیدگی پیدا ہوئی اس کو حل کرنے کے لیے معاملات طے کرنے کے لیے ایران کے شہنشاہ نے کابل کا دورہ کیا اور دونوں ملکوں کے تعلقات بحال کرنے کی مخلصانہ کوششیں شروع کی اگرچہ اس دورے کا فوری طور پر کوئی مفید اثر نہ ہوا مگر ایران کے حکمران نے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور بالآخر دو سال کے تعطل کے بعد دونوں ملکوں میں پھر سے سفارتی تعلقات بحال ہوگئے۔

رن کچھ کے تنازع کو جب ثالثی کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ ہوا تو پاکستان نے ایران کے نصراللہ انتظام کو اپنا ثالثی مقرر کرکے ثابت کردیا کہ اسے اپنے دوست ملک پر کتنا اعتماد ہے۔سن پینسٹھ میں جنگ کے دوران ایران نے جس بے باکی سے ہماری تائید کی اور جو عملی مدد کی اس کو پاکستان کے عوام کبھی فراموش نہیں کر پائے گی بغداد پیکٹ اور پھر سیٹو میں بھی ایران ہمارے ساتھ رہا اور جب ایران نے اپنے تیل کی صنعت کو قومی ملکیت میں لینے کا فیصلہ کیا تو پاکستان نے دولت مشترکہ کی رکنیت اور برطانیہ کے مفاد کی پرواہ کیے بغیر ایران کی تائید کی۔

غرض قیام پاکستان کی تاریخ سے ایران اس کا ایک سچا اور مخلص دوست ہے اور وقت کے ساتھ اس کی دوستی میں اضافہ ہورہا ہے خاص طور پر علاقائی تعاون برائے ترقی یعنی آرسی ڈی کے معاہدے کے بعد سے یہ تعلقات اور بھی استوار ہو گئے ہیں۔ اور موجودہ حالات کے پس منظر پاکستان کے ایران کے ساتھ برادرانہ تعلقات مزید بہتر ہو رہے ہیں موجودہ وقت کی حکومت کی ترجیحات میں شامل پہلی ترجیح یہی ہے کہ سفارتی تعلقات میں مسلم امہ اتحاد اتفاق کے ساتھ مخلصانہ اور دوستی کے عظیم رشتے کے طور پر تعلقات استوار کیے جائیں مزید یہ کہ مجودہ ایران کی حکومت یعنی صدر روحانی بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی کو پالیسی کے طور پر دیکھتے ہیں اسی وجہ سے دونوں برادرانہ ملکوں میں ایک ناراضگی کو دور کرنے کے لیے عمران خان کا موجودہ ایران کا دورہ بڑا سودمند ثابت ہوا،پاکستان نے اپنے تحفظات سپریم لیڈر امام خمینی کو پیش کیے تو امام خمینی نے حالات کا جائزہ لے کر ثبوتوں کی موجودگی میں اپنے انقلابی فوج کے کمانڈر سے استعفی لے لیا اور اسی طرح انڈیا کو بھی بری شکست ہوئی سفارتی محاذ پر اب جو بھی پاکستان اور ایران کے درمیان کی کشیدگی پیدا کرنے والے غیر ریاستی عناصر کو ختم کرنے کے لئے پاکستان اور ایران نے ایک جوائن فورس تشکیل دی ہے جو کہ سرحدی علاقوں پر موجود دہشت گردوں کا صفایا اور سرحدی امور موثر بنایا جائے گا۔
طہران ہو گر عالم ِ مشرق کا جنیوا
تو شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے

ایران سے ہمارے صدیوں سے تعلقات قائم ہیں اور یہ برابری کی بنیاد پر مخلصانہ رشتوں پر استوار ہیں علامہ اقبال نے تو سالوں پہلے بھی فرما دیا تھا کہ اگر تہران کو مسلمانوں کا جنیوا یعنی ایک مرکزی طاقت کا شہر بنا دیا جائے تو تمام مسلمانوں کی مشکلات کو حل کیا جا سکتا ہے اور جو کوئی پاکستان ایران کے درمیان تعلقات کو خراب یا ان میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کرے تو سمجھ جائے وہ استان اور ایران کا خیر خواہ نہیں ہے نہ ہی وہ کبھی دوست بن سکتا ہے اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہر سطح پر لسانیت فرقہ واریت سے بالاتر ہوکر مسلمانوں کو متحد کیا جائے اور مسلمان ہونے کے ناطے بھائی چارے کی بنیاد پر ایک دوسرے سے احسان کیا جائے تاکہ سلمان ایک ایک جسم کی مانند ہو کر ایک دوسرے کی تکلیف کو محسوس کرکے ایک دوسرے کی مدد کریں اور اسی طرح سفارتی محاذ پر تمام سفارتی تنظیموں کو ازسرنو تبدیل کرکے ایک منفرد جھنڈے کے ساتھ ان کی جائے اور انشاءاللہ امت مسلمہ کو عروج حاصل ہوگا۔۔

Muhammad Umar Farooq
About the Author: Muhammad Umar Farooq Read More Articles by Muhammad Umar Farooq: 7 Articles with 7507 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.