صاحب ، صاحبہ اور عوام

حقیقت یہ ہے کہ ملک تیزی سے تنرلی کا شکار ہے ، مہنگائی میں تین گنا تک اضافہ ہو چکا ہے ، افراط زر تین سے 9کی حدیں عبور کر چکا ہے ،تجارتی خسارہ 40ارب ڈالر سے تجاوز کر رہا ہے ، صرف نو ماہ میں تین ہزار ارب روپے سے زائد کا قرض لیا جا چکا ہے، بھوک اور بیروزگار ی سڑکوں پر ننگی نا چ رہی ہے ، عالمی ادارے پاکستانی معیشت بارے خطرے کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں جبکہ حکومت ’سن صاحبہ سن ‘ کے راگ سنا رہی ہے ۔ کسی کو نہیں چھوڑیں گے ، سب کو اندر کریں گے ، لوٹی دولت واپس لائی جا ئے گی ، کسی کو معاف نہیں کیا جائے گا اور حقیقت یہ ہے کہ تمام کرپٹ رہا ہورہے ہیں،ایک روپیہ بھی ریکور نہیں کیا جا سکا اورعوام کی جیب کا آخری سکہ بھی سیخ ہو چکاہے۔

پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ایک بادشاہ اپنے وزیر کی مسلسل نااہلی، نالائقی اور ناکامیوں سے تنگ آیا تو جلاد کو اس کا سر قلم کرنے کا حکم دیدیا۔وزیر باتدبیر تھا،ہاتھ باندھ کر بولا ”ضل الہٰی کا مقام و مرتبہ بلند ہو ،حضورکا ہر حکم سر آنکھوں پر ، میں اپنی ہر نالائقی، کوتاہی ،نااہلی اور ناکامی کا ذمہ دار خود کو سمجھتا ہوں،میری وجہ سے شہنشاہ معظم کے درجات میں فرق آرہا ہے ،میں اسی سزا کا مستحق ہوں لیکن آخری خواہش سمجھ کر دو سال کا عرصہ دے دیں کہ میں نے علم حاصل کیا ہے جو آپ کے بیمار گھوڑے کو نہ صرف صحت یاب کر دے گا بلکہ ہوا میں اُڑنے بھی لگے گا“، بادشاہ کو وزیر کی عجیب و غریب منطق پر تعجب ہوا ، چونکہ بادشاہ کا اپنےگھوڑے سے بہت لگاﺅ تھا اس لیے وزیر کی باتوں میں آگیا اور اسکی آخری خواہش مانتے ہوئے نہ صرف دو سال کا عرصہ دے دیا بلکہ اپنا قیمتی گھوڑا بھی وزیر کے حوالے کر دیا ۔وزیر گھر آیا تواس کے ساتھ بادشاہ کا گھوڑا بھی تھا، بیگم نے کہا کہ یہ تم نے کیا کر دیا ،نہ تو تمہارے پاس کوئی علم ہے اور نہ یہ گھوڑا اڑنے والا ہے “، وزیر نے اطمینان بھرے لہجے میں جواب دیا ”میں جانتا ہوں کہ اس گھوڑے کا اُڑنا تو دور کی بات اس کی صحت یابی بھی محال ہے لیکن مجھے اپنی جان بچانے کے لیے یہی بہانہ موزوں لگا ،میں جانتا تھا کہ بادشاہ کو اپنے گھوڑے سے بے پناہ لگاﺅ ہے اور وہ اسے بچانے کی منطق کے علاوہ میری جان بخشی کرنے والا نہیں،سو مجھے اس تدبیر کے بدلے دو سال زندہ رہنے کی مہلت تو مل گئی،اب ممکن ہے ان دو سالوں میں بادشاہ مر جائے یا مجھے طبعی موت آجائے، ہو سکتا ہے یہ گھوڑا ہی مر جائے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ گھوڑا اُڑنا بھلے نہ سیکھ پائے لیکن صحت یاب ہو جا ئے ، بادشاہ کو دو سال کی امید مل گئی اور مجھے زندگی ۔اس لیے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ، دو سال تک کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا“

گزشتہ دنوں وزیراعظم”صاحب“ نے مسلسل ناکامیوں اورنا قص کارکردگی کی بنا پر 9وزراءکے قلمدان تبدیل کر دیئے جس کے بعد سے آج تک ملکی سیاست بالخصوص پنجابمیں بھونچال کی سی کیفیت برقرار ہے ۔ یوں تو ان تبدیلیوں کا تذکرہ کافی دنوں سے زبان زد عام تھا لیکن اتنے بڑے پیمانے پر وزراءکی تبدیلیوں کا اندازہ کسی کو نہیں تھا،ابتدا میں ان وزراءکو سرے سے فارغ کیے جانے کی اطلاعات تھیں لیکن بعد ازاں فقط قلمدان تبدیل کرنے پر اکتفا کیا گیا ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ کے وزیر باتدبیر کیطرح ان وزراءنے بھی کوئی عجیب و غریب منطق سنا کر کچھ وقت توحاصل کر لیا ہے لیکن پرامید ہیں کہ حکومتی گھوڑا شائد دوڑنے لگے اور اگر ایسا نہ ہوا تو شاید کپتان”صاحب “ خود اس کا گلا دبا دیں، شاید وزیراعظم اسمبلیاں توڑ دیں یا پارلیمانی نظام کی بساط لپیٹ دی جائے یا گھوڑے کو لاحق معاشی بیماری کا خو د بخود کوئی حل نکل آئے اورگھوڑا اڑنے لگے ۔ وزیراعظم کےشاہی حکمنامہ کی نذر ہونے والے ان وزراءمیں سابق وزیر خزانہ اسد عمر سرفہرست جبکہ سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری ، سابق وزیر پٹرولیم غلام سرور خان ، سابق وزیر صحت عا مر کیانی نمایاں ہیں۔فواد چوہدری کی کشتی اندرونی سوراخوں کی وجہ سے ڈوب گئی اور پی ٹی وی کی آڑ میں پارٹی رہنماءنعیم الحق کی محاذ آرائی کے بھینٹ چڑھ گئے ، ان کی جگہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان کو مشیر مقرر کردیا گیا اور فواد چوہدری کو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی خلا میں بھیج دیا گیا ، گیس اور تیل کے نرخوں میں اضافہ کے باعث غلام سرور خان کی جگہ جنرل(ر) ایوب خان کے پوتے عمرایوب خان ، ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ عامر کیانی کی تبدیلی کی وجہ بنا جبکہ روپے کی قدر میں کمی ، ناقص تجارتی پالیسیاں اور مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے ملکی معیشت کی لگامیں اسد عمر سے واپس لے کر پاکستان پیپلزپارٹی کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو تھما دی گئیں ۔

وزیر اعظم کے اس فیصلے کے بعد اپوزیشن (صاحبہ )کی مردہ سیاست میں جیسے جان آگئی ۔بھٹو کا نواسہ اور ایوب کا پوتا قومی اسمبلی میںآمنے سامنے آگئے ۔ بلاول بھٹو نے پیپلزپارٹی اور مشرف کے سابق وزراءکی خدمات لینے پروزیراعظم کو مسلسل نااہل ، نالائق اور سیلیکٹڈ وزیراعظم کی رٹ الاپی تو حکومتی دفاع میں عمر ایوب بھی میدان میں آئے اور ستر سال پرانے مردے اکھاڑنے لگے ۔وزیراعظم کی نااہلیوں اور ناکامیوں کے جواب میں ایک دفعہ پھر ’بھٹو‘ کو ہدف تنقید بناتے ہوئے بولے کہ آپ کے نانا بھی تو ایوب کو ڈیڈی کہتے تھے ۔اس غیرمتعلقہ جواب پر بلاول بھٹو کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ تھی جیسے وہ جان گئے ہو ں کہ وزراءباتدبیر زیر ہو چکے ہیں۔چند دن گزرے تو اس بے ہنگم سیاست میں خود وزیراعظم نے بھی چھلانگ لگا دی اور وزیرستان دورہ میں اپنے گھوڑے کے اڑنے کی پیشن گوئیاں کرتے رہے ۔ جہاں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”جب تک زندہ ہوں ملک لوٹنے والوں کا مقابلہ کروں گا،میرا سیاست میں آنے کا مقصد ہی ملک کا پیسہ چوری کرنیوالوں کو شکست دینا تھا ۔۔بلاول صاحبہ کی طرح پرچی پر نہیں آیا بلکہ 22سالہ جدوجہد کرکے اس مقام تک پہنچا ہوں۔۔وزیرستان کے لیے وہ کروں گا جو کسی نے نہ پہلے کیا اور نہ کر سکتا ہے۔۔تھوڑا صبر کر لیں ، فنڈز آنے کے ساتھ ہی یہاں تبدیلی آنا شروع ہو جائے گی ۔۔۔“گویا وزیر اعظم پر امید ہیں کہ انکے وزرا ءکی ٹیم جلد انکے گھوڑے کو اڑنا سکھا دے گی ۔
صاحب اور صاحبہ کی اس لڑائی میں ایک تیسرا قابل رحم فریق عوام ہے جو سب کچھ جاننے کے باوجود مسلسل اپنے اپنے کپتانوں کے گن گار ہی ہے ، اور وزیر با تدبیر کا چورن خوب بک رہا ہے ۔اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ ملک تیزی سے تنرلی کا شکار ہے ، مہنگائی میں تین گنا تک اضافہ ہو چکا ہے ، افراط زر تین سے 9کی حدیں عبور کر چکا ہے ،تجارتی خسارہ 40ارب ڈالر سے تجاوز کر رہا ہے ، صرف نو ماہ میں تین ہزار ارب روپے سے زائد کا قرض لیا جا چکا ہے، بھوک اور بیروزگار ی سڑکوں پر ننگی نا چ رہی ہے ، عالمی ادارے پاکستانی معیشت بارے خطرے کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں جبکہ حکومت ’سن صاحبہ سن ‘ کے راگ سنا رہی ہے ۔ کسی کو نہیں چھوڑیں گے ، سب کو اندر کریں گے ، لوٹی دولت واپس لائی جا ئے گی ، کسی کو معاف نہیں کیا جائے گا اور حقیقت یہ ہے کہ تمام کرپٹ رہا ہورہے ہیں،ایک روپیہ بھی ریکور نہیں کیا جا سکا اورعوام کی جیب کا آخری سکہ بھی سیخ ہو چکاہے۔ صاحب نے بھی وزیر باتدبیر کی منطق عوام تک منتقل کرنا شروع کر دی ہے اورملکی معیشت کو ڈگر پر لانے کے لیے مزید دو سال صبر کرنے کا کہا ہے جبکہ حقائق بتا رہے ہیں کہ صاحب ، صاحبہ کے اس کھیل میں عوام ملازم بن چکی ہے ۔ماضی میں تو وزراءباتدبیر کی نااہلیوں ، نالائقیوں اور ناکامیوں کا خمیازہ عوام اپنی جیب سے ادا کرتے تھے لیکن صاحب او ر صاحبہ کے اس دور میں یہ خمیازہ اپنے پیٹ سے ادا کرنے پر مجبور ہے ۔
آنسو بھی ہیں آنکھوں میں دعائیں بھی ہیں لب پر
بگڑے ہوئے حالات سنور کیوں نہیں جاتے
(حبیب جالب)

Sheraz Khokhar
About the Author: Sheraz Khokhar Read More Articles by Sheraz Khokhar: 23 Articles with 17011 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.