تخیل کی زرخیز مٹی

تخیل ادبی فورم کے زیر اہتمام ریاض سعودی عرب میں ڈاکٹر جمیل جالبی کے تعزیتی ریفرنس کے بعد ایک غیر رسمی مشاعرے کا اہتمام کیا گیا، یہ کالم اسی مشاعرے میں شریک چند شعراء کے منتخب کلام کا جمالیاتی جائزہ ہے۔

اشرف المخلوقات کی سب سے بڑی خصوصیت ابلاغ ہے اور ابلاغ کا اوج کمال ہے شاعری، انسان کے جذبات، احساسات، تصورات اور افکار اظہار کے متمنی ہیں اور یہ جذبات و احساسات کتنے ہی نازک، حسین یا دلفریب ہوں ان میں جادوئی کیفیت صرف الفاظ کی اس ترتیب سے پیدا ہوتی ہے جس سے شعر کا آہنگ بنتا ہے اور شعری سخن وری ابلاغ کا وہ طلسم ہے جو سماعتوں میں رس گھولتا ہوا دل میں اترتا ہے اور گاہے دھڑکنوں سے اٹکھیلیاں کرتا ہے، شاعری فکری فن کا وہ میزان ہے جس کے ایک پلڑے میں قلبی واردات اور دوسرے میں فلسفہ اور معاشرت، اور جب اس میزان کو عمرانی تجربات یعنی غم جاناں اور غم روزگار کے ساتھ ملا کر تھاما جائے تو ایک ایسا ادبی ماحول وجود میں آتا ہے جو سامع اور قاری دونوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اگرچہ زبان و بیان تو شاعر کا ہے لیکن حالات میرے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورت حال گذشتہ شب پیش آئی جب ڈاکٹر جمیل جالبی کے تعزیتی ریفرنس کے بعد ایک غیر رسمی مشاعرے کا اہتمام ہمارے دوست منصور چوہدردی کے دولت کدے پر کیا گیا جس میں ریاض سعودی عرب میں مقیم معروف شعرا ء نے اپنے کلام سے رونق بخشی جن میں بیشتر صاحب کتاب ہیں۔ اس مشاعرے کا سب سے اچھا نتیجہ یہ نکلا کہ میں جو ایک عرصے سے اردو شاعری کے زوال پر سوگوار تھا اور گذشتہ دو دہائیوں میں ”خودرو قسم“ کے قافیہ سازوں کے کلام پر نوحہ کناں بھی اور اسی کا ماتم میں نے اپنے کالم ”ادبی وحشت“ میں بھی کیا تھا، اس نتیجے پر پہنچا کہ واقعی ”ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی“ میرا حوصلہ بندھا کہ ابھی ادب کو زوال نہیں کہ بڑے شناور اس میدان میں موجود ہیں، سب سے خوبصورت بات کہ کسی بھی شاعر کے کلام میں مجھے لکھنوی اثر نظر نہیں آیا کہ میں اس کا ایک ناقد ہوں اور لکھنوی انداز کو شاعری سے زیادہ قلبی اور ذہنی عیاشی گردانتا ہوں، مجھے تو یوں لگا کہ میں دبستان دہلی میں موجود ہوں جہاں شاعر کے جذبات معاشرتی رویوں اور حالات زندگی سے مکمل ہم آہنگ ہیں۔

گذشتہ دو دہائیوں میں معرض وجود میں آنے والے کئی حضرات جو اپنی ”بدکلامیوں“ اور ”پیشہ وارانہ“ ناکامیوں کو لفظی گٹھ جوڑ کا پیراہین دے کر کچے ذہنوں پر اپنے شاعر ہونے کا اثر ڈالتے رہے اور اب اگرچہ وہ آہستہ آہستہ ناپید ہو رہے ہیں لیکن ان کا اثر مکمل طور پر زائل کرنے کے لئے ابھی وقت لگے گا اور یہ بیڑا اب ریاض میں قائم ہونے والی تنظیم ”تخیل ادبی فورم“ نے اپنے ذمہ لیا ہے جس میں کہنہ مشق شعراء ادیب اور نقاد شامل ہیں جو نہ صرف کلام کے حساسیت بارے حساس ہیں بلکہ عروض اور اصول فن کا مکمل ادراک اور فہم بھی رکھتے ہیں، جس طرح امیر خسرو کی ریختہ میں نواب سعادت یار خان رنگین اور انشاء اللہ خان انشاء کی ریختی نے دراڑیں ڈالنے کی کوشش تو کی لیکن غالب، ذوق، میر اور حالی نے غزل کی روایت کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اس کی ترقی اور ترویج میں اپنا کردار ادا کیا، اسی طرح فی زمانہ محترم فرحت عباس شاہ نے غزل کوآزاد غزل کا پیراہن دینے کی کوشش کی لیکن خود ہی شاعری سے ”آزاد“ ہو گئے کہ اب سوائے سکول کالج کے کم عمر طلباء کے علاوہ ان کے کلام کو یا تو وہ خود پڑھتے ہیں یا وہ جن کو شعر کا فہم نہیں۔ ابھی بہت سے ایسے ”کاریگر“ موجود ہیں جو اردو ادب میں رخنہ انداز ہونے کو کوشاں ہیں اور شاعری کو بطور فیشن اپنا رکھا ہے،گذشتہ شب کے مشاعرے میں موجود شعراء بھی اساتذہ کے نقش پا پر ہیں اور ان کا مقصد بھی اردو ادب کی ترقی اور ترویج ہے، اس مشاعرے میں شریک چند شعراء کے کلام کے کچھ منتخب حصوں کا ایک سرسری جمالیاتی اور فنی جائزہ ہی اس کالم کو ضبط تحریر میں لانے کا موجب ہے۔

آغاز میں نوجوان شاعر اور تقریب کے میزبان منصور چوہدری نے اپنا کلام پیش کیا منصور چوہدر ی ریاض کے معروف شاعر ہیں اور شعراء میں اپنا الگ مقام رکھتے ہیں، فنی اعتبار سے ان کی غزل بحر مسدس خفیف میں کہی گئی اور جمالیاتی اعتبار سے فلسفہ، غالب جیسی انا، قلبی واردات، محبوب کا سراب اور اپنی ہستی کی فنا کا ملاپ ہے، محبت میں غالب کی انا والا رنگ نظر آیا فرماتے ہیں کہ:
کیوں میں دوں واسطہ کہ جب تو نے
پھیر لی ہے نظر خدا ہو کر!!!!!!!

ان کی اس غزل کا حاصل کلام جو مجھے لگا، کہتے ہیں کہ:
جب کبھی ملتا ہے مجھے موقع
عیش کرتا ہوں لاپتہ ہو کر

اسی غزل میں مقطع اپنے اندر تصوف کا ایک پہلو لئے ہوئے ہے، دو مصروں میں حیات جاودانی کا فلسفہ اور تریاق بیان کر دیا ہے اور بہت خوبصورتی سے انسان کی جبلت حیات کا صوفیانہ رنگ پیش کیا ہے کہتے ہیں کہ:
بس وہی پاتا ہے بقا، منصور
تجھ کو ملتا ہے جو بھی ’لا“ ہو کر

اس شعر میں ”لا“ عربی معنوں میں استعمال کیا ہے کہ اگر انسان کو حیات جاودانی چاہئے تو اس کے لئے کسی آب حیات کی ضرورت نہیں نہ اس کے لئے تاروں کے ڈوبنے کے مقام تک کا سفر درکار ہے، اگر عشق حقیقی ہے تو بس معبود کے سامنے اپنی ہستی کو فنا کر دو بقا پا جاؤ گے اور اگر عشق مجاز کا شکار ہے تو محبوب کے سامنے اپنی ہستی مٹا دو منزل بر آئے گی،

ان کے بعد شمع محفل شاہد خیالوی کے سامنے آئی اور ان کے کلام نے تو گویا محفل لوٹ لی، آسان زبان میں معاشرتی روویوں کا ذکر کرتے ہوئے گویا ہوئے کہ:
میں دشمنوں سے یہی سوچ کر تو ہارا ہوں
کہ بچ گیا تو میرا بھائی مار دے گا مجھے

یہ شعر ہمارے معاشرے میں پنپنے والے مادی رویے کا ایک مظہر ہے، مادیت کے پہلو سے شاعر قدرے دلبرداشتہ ہے جو ان کی قلبی حساسیت کاآئینہ دار ہے، اس غزل میں تمام تر دلبرداشتگی کے باوجود خیالوی بھی علامہ اقبال کی طرح اپنی کشت ویراں سے مایوس نہیں اور امید کا ایک پہلو اب بھی قائم ہے کہ اگر حق گوئی اور بیباقی آیئن جوانمردی رہے تو کوئی دور نہیں کہ ساتھ نبھانے والے اپنی آشفتہ سری سے خوف ذدہ نہیں ہوتے اس بات کا ادراک وہ اپنے ایک شعر میں کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
اکیلا مرتے ہوئے دکھ نہیں کہ حق پر ہوں
میری لحد میں کوئی تو اتار دے گا مجھے

اس غزل کا آخری شعر بہت ہی خوبصورت ہے اور اپنے اندر ایک طرح کا روحانی پہلو سمیٹے ہوئے ہے، اگر اس شعر کو عشق مجاز کی طشتری سے اٹھا کر عشق حقیقی کی راہ میں رکھ دیا جائے تو بات رحمت العالمین کی جانب جا نکلتی ہے جس میں شاہد خیالوی نے اپنی بے بسی اور رحمت کی امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ:
اس اک آس پہ بکھرا پڑا ہوں مدت سے
لگا کے ہاتھ وہ یکدم سنوار دے گا مجھے

اس کے بعد تو یوں تھا کہ دل تھام کہ بیٹھو کہ میری باری ہے، یعنی شمع محفل صابر قشنگ کے سامنے، ریاض شہر کے ایک نامور اور کہنہ مشق شاعر، گھاٹ گھاٹ کا پانی پئے ان کے تجربات دینا کے کئی ملکوں پر مشتمل جنہوں نے ان کی شاعری میں ایک نیا رنگ اور جولانی بھر دی ہے۔ صابر نے اپنی ایک غزل میں قدیم اور جدید شاعری کا ایک نیا رنگ جمایا، جیسے غالب نے کہا تھا کہ
وہ دونوں جہاں دے کہ سمجھے یہ خوش رہا
یاں آپڑی ہی شرم کہ تکرار کیا کریں

اسی فلسفے اور بے نیازی کا ذکر اپنے الگ انداز میں کرتے ہوئے صابر نے گویا اپنے صبر کی انتہا بیان کی کہ:
اختیاری ہے میرا جیت کے رسوا ہونا
کوئی مطلب نہ نکالو میری پسپائی کا

اسی غزل میں صابر نے اپنے محبوب کی انگڑائی کی ایک کیفیت بیان کی جس کو دیکھ کہ لگتا ہے کہ صابر کا محبوب تو فراز کے محبوب سے زیادہ تربیت یافتہ ہے، فراز نے تو اپنے محبوب کے بارے کہا تھا کہ:
جسم بلور سا نازک ہے جوانی بھرپور
اب کہ انگڑائی نہ ٹوٹی تو بدن ٹوٹے گا

لیکن صابر نے اپنے محبوب کے قرینے اور سلیقے کو جس انداز سے بیان کیا ہے وہ انتہائی قابل تعریف ہے اور محبوب کی تہذہبی ترقی کا ایک بین ثبوت بھی، کہتے ہیں کہ:
کتنا دلکش ہے تیرا غیر ارادی ہونا
خوب آتا ہے سلیقہ تجھے انگڑائی کا

اس کے بعد ایک اور کلام صابر نے پیش کیا جس کا ایک شعر ہمارے معاشرے میں جا بجا پھیلے ہوئے خودساختہ نیکوکاروں کے اپنے زعم تقویٰ پر ایک طمانچہ ہے وہ جو خود کو مذہب کا علمبردار گردانتے ہیں اور اپنی دانست میں اصلاح کرنے والے بنے پھرتے ہیں، جن کے نزدیک درست وہی جو وہ کریں ایسے ہی رویے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے صابر نے کہا کہ:
دوزخی کو خدا حافظ نہیں کہنا تو نے
اے دوست میرے، داہنے بازو والے

اس کے بعد باری تھی صدف فریدی کی، ایک دھان پان سے شاعر، خاموش طبع اور سنجیدہ مزاج، لیکن کلام میں وہ بے ساختگی اور وسعت کہ گویا وہ بولیں تو باتوں سے خوشبو آئے، غزل اس پیراہن میں ڈھلی کہ جو بھی ہے محبوب ہی ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں، الفاظ میں رنگ ہوں یا جمال خدوخال، زرد رتوں میں بہار ہو، یا بجھی شام کا اختتام، گھر میں بکھری اداسیاں ہوں یا دروبام پہ اجالے سب کا ایک ہی کارن اور وہ، وہ ہستی جس کی محبت، فراق، وصل ہی ان کے کلام کا مرکز اور محور۔ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اپنی قادرالکلامی اپنے محبوب سے چاہتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ:
مرے حرف دل نہیں معتبر، انہیں چھو کہ خواب و خیال دے
میرے آئنے بھی اداس ہیں، انہیں اپنا حسن و جمال دے

ن م راشد کی طرح فریدی بھی اپنے کوزہ گر سے مخاطب ہیں، ن م راشد نے تو نو سال کا عذاب سہا اور کہا کہ، یہ نو سال مجھ پہ یوں گزرے جیسے شہر مدفون پہ وقت گزرے، لیکن صدف فریدی نے اپنی سوختہ تنی کا عذاب صدیوں پر محیط دیکھا اور کہا کہ:
تیرے چاک پر میرے کوزہ گر، میں ہوں کتنی صدیوں سے منتظر
مجھے اپنے لمس جمال سے، کوئی روپ دے، خدوخال دے

اس موقع پرشاعر محسن رضا ثمر نے اپنے کلام سے نوازا، ان کی غزل کا پہلا شعر ہی غالب کی بیٹھک پر لے گیا، مثل غالب ثمر کو بھی اپنے محبوب سے ضد کی خواہش ہے، جیسے غالب نے کہا تھا کہ ”بڑھتا ہے شوق غالب ان کی نہیں نہیں سے“ بس اسی خواہش کو ثمر نے اپنے رنگ میں کہا کہ:
ہے آرزو کبھی اس حسیں سے ضد کروں میں
کہے نہیں؛ تو پھر اسکی نہیں سے ضد کروں میں

اسی غزل میں تصوف کا ایک فلسفہ بھی بیان ہوا جس میں مشیت الہی کی مدد کو یقین سے مشروط کیا اور ثمر نے خوب کہا کہ:
وہ آسمان سے اتر آئے گا میری خاطر
مگر ہے شرط، مکمل یقیں سے ضد کروں میں

اب سلیم کاوش کی باری تھی جنہوں نے انتہائی خوبصورت غزل انتہائی دلفریب لب و لہجے میں پیش کی، ان کے ہر شعر میں محبوب کا ایک نیا مضمون باندھا گیا جس میں محبوب کی نازک مزاجی کو ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
اب تو شکوہ ہے میری پہلو تہی سے جاناں
جب طبعیت میرے پہلو میں بھی گھبرائی تو؟

کاوش کو اپنے ضبط غم پر ناز ہے لیکن ساتھ ہی خوف بھی جان کو لئے ہوئے ہے کہ اگر آنکھ چھلک گئی تو کیا ہوگا، اسے معلوم ہے کہ وعدہ ضبط قیامت ہے لیکن یہ بھی جانتا ہے کہ اگر اب بھی نہ رویاتو مر جائے گا۔ اس خدشے کا اظہا ر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
وعدہ ضبط مرے پیش نظر ہے لیکن
آہ بھرنے سے اگر ہو گئی رسوائی تو؟

اس مشاعرے میں کئی دیگر شعراء بھی شامل تھے لیکن کالم کی طوالت کے پیش نظر ان کا قرض کسی اور موقعے پر اٹھا رکھتے ہیں، اس مشاعرے سے ایک امید ہو چلی ہے کہ اردو ادب خاص طور پر شاعری پر گذشتہ سالوں میں جو زوال آیا اب وہ تیرگی چھٹنے کو ہے، اقبال نے شاید اسی لئے کہا تھا کہ
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

Rashid Mehmood
About the Author: Rashid Mehmood Read More Articles by Rashid Mehmood: 20 Articles with 26606 views I am a qualified CPA and professional Financial and Audit Manager with over 12 years of experience in a variety of industries in key roles at national.. View More