خواجہ میر درد کی صوفیانہ شاعری

ماہیتوں کو روشن کر تاہے نور تیر
اعیاں ہیں مظاہر‘ ظہور تیرا
نہیں مذکور شایاں دردؔ ہر گز اپنی مجلس میں
کبھو کچھ ذکر آیا بھی تو ابراہیم ادھم کا

اٹھارہویں صدی (1720-1786) کی شاعری کی دیوار جن چار شعراپر کھڑی تھی ان کا کلام صوفیانہ ہے انکے کلام میں پاکیزگی اور جذبات کے خلوص کی بہتات ہے اٹھارہویں صدی عیسوی کے تمام شعراء وادبأ اور تذکرہ نگاروں نے خواجہ میر درد کی بلیغ شعری خدمات کو فوقیت دی ہے ۔خواجہ میر درد کانا م آتے ہی ہمارے ذہن میں ایک ایسی منفرد شخصیت ابھرتی ہے جس کے درمیان تقدس ، پاگیزگی اور قادر سنجیدگی کا ایک زبر دست ہا لہ ہے اس شخصیت میں اتنا تو کل صبرو ضبط اور زندگی میں کچھ کر دکھا نے کا حوصلہ تھا کہ وہ زہرہ گداز حالا ت سے بھی ہنستے کھلتے گذر گئے ۔ درد کا شمار دور اول کے ارد وشاعری کے چارستونوں میں ہوتا ہے۔ مرزا مظہر ، سوداؔ، میرؔ اور دردؔ۔ دردؔ کی شاعرانہ صلاحیت اور صوفیانہ عظمت کا زمانہ معترف رہا ہے ۔ ان کے فکرو فن کا ایک گوشہ ان کی شخصیت کے نور سے روشن ہے ان کے کلام بر بحث کرتے ہوئے نئے اور پر انے نقادوں نے یکساں طور پر ان کے کلام کی قدر کی ہے ۔امیرمینائی کو ان کے کلام میں بسی ہوئی تجلیوں کا گمان ہوا محمد حسین آزاد کے مطابق میر دؔردنے اپنے کلام میں تلواروں کی آب بھر دی ہے ۔

خواجہ مردردؔ اردوکے ان قابل احترام شاعروں میں ہیں جن کا کلام سائستگی ونفاست کیف واثر اورفنی رکھ رکھاؤ کے اعتبار سے ایک معیاری چیزہے۔اردوکے عام شعراء کے برخلاف وہ ایک پیشہ ور شاعرنہیں تھے۔ان کا شعری بہت مختصر اورمنتخب ہے۔انشاء،مصحفیؔ،جرأتؔ اور شاہ نصیرکی طرح ان کے مجموعۂ کلام میں کوئی طویل غزل یا دو غزلے اور سہ غزلے نہیں ملیں گے ۔استادی اورکرتب دکھانے کے لئے انہوں نے سنگلاخ زمینوں میں طبع آزمائی کرنے یا الف سے لے کری تک تمام ردیفوں میں غزلیں کہنے کا التزام کبھی نہیں کیا ۔ان کے لب ولہجے میں میر کی سادگی اور گھلاوٹ ہے لیکن ان کی شخصیت میں میرؔ کی نسبت اعتدال اورتوازن ہے۔میر ؔکے یہاں شکست خوردگی اورغموں کی شدید جلن ہے۔ان کی آواز میں کبھی کبھی آجاتی ہے لیکن خواجہ میردردؔ نے غموں کو ہضم کرکے اسے گوارا بنالیا تھا ان کے یہاں ایک حسین سی کسک ہے جوہم پرخوش گوار اثر چھوڑتی ہے ۔تصوف نے ان کے مزاج میں ترتیب وتہذیب پیدا کر دی تھی جس کی وجہ سے وہ ان شاعرانہ بے اعتدالیوں سے بچ گئے۔جو میرؔ کے کلیات کو ناہموار بنادیتی ہیں۔اور جن کی بنا ء پر ’’بلندیوں بغایت بلند اور بغایت پست‘‘کا فقرہ ان کے لئے وضع کیاگیا۔

اپنی صوفیانہ شاعری کے علاوہ خواجہ میردردؔ اپنی عشقیہ شاعری میں بھی اردوکے غزل گوشعراء میں منفرد ہیں۔ان کی اس حیثیت میں سوائے میرؔ کے ان کا اور کوئی حریف نہیں۔لیکن یہ عجیب بات ہے کہ عشقیہ شاعری کے سلسلے میں ان کا تذکرہ کبھی نہیں آیا جن شعراء نے عشق ومحبت کے صرف مضمون باندھے ہیں۔ان کے اشعار کو طرح طرح کے معنی پہنانے کی کوشش کی جا تی ہے لیکن جن شاعر کے عشقیہ اشعار تاثیر سے لبریز ہیں ان پر کسی کی نگاہ نہیں جاتی۔اردو کے عام غزل گوشعراء کے یہاں عشق ومحبت کے مضامین بھرے پڑے ہیں۔ لیکن ان کی حیثیت محض لطف بیان کی ہے۔سچی چاہت اوراس کا کرب اور عشق کی شدید کیفیات سے ان کے اشعار خالی ہے۔اسی لئے قدیم تذکروں میں ان کے موضوع کو چھوڑ کر ان کے طرزبیان اور فنی خوبیوں کو مختصراً زیر بحث لایاگیا ہے۔بعد میں جب ہمارے تذکرہ نگار ومورخ تفصیلات میں جانے لگے توہر شاعر کے ساتھ بعض باتیں منسوب کردی گئیں مثلاً میر دردو غم کے شاعر ہیں او رخواجہ میردردؔؔتصوف وعرفان کے یہ روایت کچھ ایسی چلی کہ آنے والے لوگوں نے بھی اکثروبیشتر انہیں بیانات کوجوں کا توں اپنا لیا ہے۔محمد حسین آزادؔ’’آب حیات‘‘میں خواجہ میردردؔ کے تغزل کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’انہوں نے میر کی غزلوں پر جو غزلیں لکھی ہیں وہ میرؔ کسی طرح کم نہیں ہیں اور چھوٹی بحروں میں انہوں نے جو غزلیں لکھی ہیں ان میں تلوار کی آبداری اور نشتریت ہے،،لیکن ان کے عاشقانہ موضوعات کا تذکرہ نہیں کرتے بلکہ ان کے تصوف پر زور دیتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ ’’تصوف جیسا انہوں نے کہا اردو میں آج تک کسی سے نہیں ہوا‘‘دور حاضرکے تاریخ نگار بھی اس حد سے آگے نہیں بڑھتے ۔موجودہ زمانے کی دو مقبول عام تاریخوں میں خواجہ میردردؔ کے بارے میں یہی تصور ملتاہے۔

ایک نا قد نے دردکو صوفیانہ شاعری کا سرتاج قرار دیا ہے غرض یہ کہ خواجہ میر دردؔ کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف سبھی نے کیا ہے ان کے کلام میں دل آویزی، بلند خیالی اثر انگیزی ، سادگی، تقدس اور طہارت رچی بسی ہوا ہے ۔ درد کی شاعری کا محور محبت ہے وہ محبت حقیقی بھی ہے اور مجازی بھی، ذات خدا وندی وحدت الوجود، انسانی عظمت اور بقاء کے مضامین محبت حقیقی کے مظاہر ہیں ۔ درد ؔ کے کلام میں تحمل اور فکر جمیل کی وجہ سے دل کشی او ر دل آویزی تو ہے ہی ان کے مخصوص انداز بیان کے کومل اور نرم لب ولہجے نے ان کے فن میں چار چاند لگا دیئے ہیں ۔ بقول رام بابو سکسینہ تصوف میں ان سے بہتر کسی نے نہیں کہا۔ عرفان و تصوف کے پیچیدہ اور دشوار گذار مضامین کو انھوں نے بڑی خوبصورتی او ر صفائی سے باندھا اور پرویا ہے ان کی غزلوں میں زبان کی سادگی میر ؔ کے کلام کی یاد دلاتی ہے ۔ لیکن تصوف کی چاشنی اور درد و اثر وکلام میر سے بڑھ کر ہے بلکہ یوں کہا جائے تو بیجانہ ہوگا کہ یہی اوصاف درد کے کلام کا جوہر اعظم ہے ۔ درد نے دنیاوی آلودگی سے دامن کو چھڑا کر اپنے کلام میں تصوف اور اخلاق کی چاشنی بھر دی ہے ، جس کی وجہ سے ان کا کلام آسمان کی بلندی پر پرواز کر رہا ہے ۔
تنقید کی دنیا میں بہت سی ایسی باتیں چل پڑتی ہیں اور زبان زدو خاص عوام ہوجاتی ہیں جن کا فی الحقیقت کوئی وجودنہیں ہوتا۔یہ بات شعرا کے کلام پر لکھی گئی تنقیدوں کے بارے میں زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔بہت سی ایسی رائیں اور فیصلے اب اس طرح مستحکم ہوچکے ہیں کہ ان پر قلم اٹھانا یاان کی مخالفت میں کچھ لکھنا ذرا مشکل ہی ہے۔ ایسی مانی ہوئی باتیں مثلا ً میرؔ کے بہتر نشر،دردؔ کا تصوف،غالبؔ کی فلسفیت فانی کی قنوطیت وغیرہ ہماری درسی اور تنقید کتابوں کا جز کا جز بن چکی ہیں پھر بھی توڑدیتاہے کوئی موسیٰ طلسم سامری کے مصداق ہمارے عہدمیں ایسی تنقیدی کوششیں کبھی کبھی ہوئیں جن میں اس طرح کے تنقیدی مفروضات کی چھان ہیں اور محاکمہ کرکے ان کی تردید بھی کی گئی۔

خواجہ میر دردؔ کا دور افر ا تفری اضطراب اور کشمکش، شور و ہنگامہ کا دور تھا ۔ ایسے تو ڑ پھوڑ اور شکست و ریخت کا اثر ان کی شاعری سے چھلکتا ہو ا نظر آتا ہے ان کے یہاں صبر و استقلال توکل و استغنا موجو د ہے تصوف ان کوورثے میں ملا تھا ۔ ہستی تصوف کو انھوں نے اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا انھوں نے اس دنیا کی بے ثباتی اور کم ما ی یٔگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس دنیا کی حقیقت ’’ نقش بر آب سے زیادہ نہیں‘‘ اسی طرح ان کے خیال سے متعلق شاعر مشرق علامہ اقبال کا ایک شعرہے ؂
اول و آخر فناباطن و ظاہر فنا……نقش کہن ہو توہے منزل آخرفنا
اس کے ساتھ ہی دردؔ نے انسانیت کے دردو کر ب کو محسوس کرتے ہوئے کائنات کے ہر ذرے کے غم کواپنایا ہے ۔ مثال ملاخطہ فرمائیں۔ جس میں شکست دل کی آواز سنائی دیتی ہے ؂
جگ میں کوئی نہ ٹک ہنسا ہوگا
کہ نہ ملنے میں رو دیا ہوگا
دل زمانہ کے ہاتھ سے سالم
کوئی ہوگا کہ رہ گیا ہوگا

اتنا ہی نہیں کہ شاعرنے ایسی زندگی کو پیچ زندگی سے مشابہت دی ہے کہ یہاں پر انسان سوائے تہمت و الزام کے کچھ حاصل نہیں کر سکتا ہے یہ گلزار ہستی فکرو فریب کا خوش نما و خوبصورت جال ہوگا جہاں انسان ہمیشہ فریب پیہم میں مبتلا رہتا ہے ۔شعر ملاحظہ فر مائیں ؂
تہمتیں چند اپنے ذمے دھر چلے
کس لئے آئے تھے ہم کیا کر چلے
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

خواجہ میر درد کو صوفیانہ شاعری کا سرتا ج کہا جاتا ہے عرفان و تصوف کی وجہ سے ان کے کلام میں تقدس و پاکیزگی کی صفات پیداہوگی ہے تصوف ان کے رگ وپئے میں رچ بس گیا ہے ان کے عمل اور ان کے شعریات میں صوفیانہ رنگ سرا یت کر گیا تھا انہوں نے کائنات کے ذرے ذرے میں باری تعالیٰ کا وجود پایا اور اسے شعر میں پیش کر دیا ؂
جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

اتنا ہی نہیں شاعر نے دیر و حرم شیخ و برہمن سب کو خالق مطلق کے لو۔سے روشن پایا اورانسان کے جان و دل کو کشرت میں و حدت کا واحد مسکن تصور کیا ہے انسان کے دل کے علاوہ ارض و سمامیں بھی ایسی وسعت نہیں جہاں ذات باری کی قدرت اور وحدت ایک ساتھ ایک آسمان تلے انسانوں کے ایک بیکراں سمندر میں جس کی گہرائی کا اندارہ لگا نا دشوار ہے بڑے آرام سے جلوہ فگن ہے ان کے اشعار جس کا ایک ایک لفظ ذات باری کے اوصاف اور انسانی عظمت کی گواہی دیتا ہے ؂
ارض و سماء کہاں تیر ی وسعت کو پا سکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے

کبھی کبھی میر درد مجاز کی طرف بھی رجوع کر تے ہیں لیکن یہاں بھی ان کی رجعت حقیقت ہی کی طرف ہے ۔جہاں انہوں نے مجازی عشق کا تصور پیش کیا ہے وہا ں بھی ان کا معشوق حقیقی ہی ہے ۔ اسی پاکیزہ نیت اور معتبر مقصد کی وجہ سے ان کا کلام اعلیٰ مرتبت ہو گیا ہے ۔

درد نے اس طرح عشق حقیقی تصوف اور روحانیات کی چاشنی سے اپنے کلام میں چار چاندلگا دیئے ہیں درج ذیل شعر کو دیکھئے ؂
مسکرایا خوشی سے وہ جس دم
باغ میں کب کھلی کلی ایسی
جب نظر سے بہار گز ر ے ہے
جی پہ رفتار یار گزر ے ہے

درد کے کلام میں صوفیانہ رنگ زیادہ غالب ہے اس لئے ان کی شاعری میں صوفیانہ فکر کی جھلک عام ملتی ہے۔درد کی غزلوں میں منفرد الفاظ کا موزوں ترین استعمال ملتا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ حسن و رنگ اور خوشبو سے غزل کی فضا میں جادو جگا رہا ہے بیشتر اشعار میں غنائی آہنگ کی لہردوڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ تشبیہات اور استعارات کے استعمال میں درد کا احساس جمال بہت صاف ستھرا اور نکھراہو انظر آتا ہے ان تشبیہوں میں گرمی عشق روشنی خلوص اور غموں کی دھیمی آنچ ہے اسی نے شعلہ و شبنم کی کیفیت پیدا کر دی ہے ۔

خواجہ میر دردنے چھوٹی بحروں اورمترنم الفاظ کے استعمال سے آرٹ کی بلندیوں کو چھو لیا ہے ۔اسی لیے محمد حسین آزاد نے کہا تھا کہ خصوصاً چھوٹی بحروں میں جو غزلیں لکھتے ہیں گویا تلواروں کی آبداری نشتروں میں بھر دیتے ہیں۔

انھوں نے غزلوں کا ایک مختصر سا دیوان چھوڑا ہے مگر معیار کے اعتبار سے بڑے بڑے دیوانوں پر بھاری ہے ۔ وہ درویش مزاج انسان تھے اور صوفی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اسی کا اثر ہے کہ ان کا صوفیانہ کلام خودان کے دل کی واردات ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں بے پناہ اثر ہے ۔ بعض لوگوں نے ان کی شاعری میں موجود سلاست اور سادگی کو میرؔ پر فوقیت دی ہے ۔ چھوٹی بحر کی غزلوں میں موجود آسان اور عام فہم الفاظ ان کی شاعری کا سر مایہ ہیں۔ نمونے کے طور پر چند اشعار ملاحظہ ہوں ؂
جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھردیکھا
رات مجلس میں ترے حسن کے شعلے کے حضور
شمع کے منہ پہ جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا
وائے نادانی کہ وقت مرگ پہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

عہد میر کے شعراء میں خواجہ میردردؔ کابھی اعلیٰ مرتبہ ہے ان کے مطابق عشق کے ذریعہ حقیقت مطلق تک رسائی حاصل ہو سکتی ہے ان کے لئے تمام کائنات آئینہ وحد ت ہے یعنی وہ تصوف کے منطق اور وحدۃ الوجود کے معتقد ہیں اور اسی کے عرفان
سے ان کے یہاں انسانی عظمت کے چراغ روشن ہوتے ہیں ۔

’’ انسان کا تصور بھی درد کے یہاں اتنا بلند ہے اور اس میں الوہیت کی وہ شان ہے کہ انسان کی یہ تصویر ان کے علاوہ اور کسی اردو شاعر کے یہاں نظر نہیں آتی‘‘

اسی رنگ میں ڈوبے ان کے اشعاردل میں تصوف کا جذبہ پیدا کرتے ہیں وہ انسان کے اند ربھی مالک حقیقی کا دیدار کراتے ہیں ۔ یہاں تک کہ بتوں میں بھی انھیں اپنے مالک حقیقی کا ہی تصور نظر آتا ہے ؂
بیگانہ گر نظر پڑے تو آشنا کو دیکھ
بندہ گر آوے سامنے تو بھی خدا کو دیکھ

دردؔ نے تصوف کے مختلف مسائل اور کیفیات کو غزل کی پیرائے میں پیش کیا ہے۔اسی انداز نے ان کے یہاں غم کی تلخی کو کم کر کے اس کے اندر سر ور پیدا کر دیا ہے ۔ مثلاً
اس نے کیا تھا یاد مجھے بھول کر کہیں
پاتا نہیں ہوں تب سے میں اپنی خبر کہیں

درد کی غزلوں میں وہ مجازی کیفیات اور عشق کی ترجمانی نام کو بھی نہیں ہے ۔ وہ تو عشق حقیقی کے شاعر ہیں لیکن اس عشق حقیقی کی متنوع کیفیات کو جس انداز میں انھوں نے محسوس کیا ہے اور پھرجس طرح اس کی ترجمانی کی ہے وہ اردو غزل کی روایت میں ایک بہت بڑا اضافہ ہے ۔ دردؔ تصوف کے شاعر ہیں اور تصوف مسائل کو پیش کرتے ہوئے وہ زندگی کی فضا وں میں اتنا اونچا اڑتے ہیں کہ اپنے آپ کو کہیں کہیں نظروں سے اوجھل کر دیتے ہیں اس لیے ایک قسم کی ماورائیت بھی ان کے یہاں پیدا ہوگئی ہے لیکن ان کے اس انداز میں ایک رفعت اور بلندی کاا حساس ضرور ہوتا ہے ۔درد کی غزلوں میں سارا کھیل تخیل کا ہے اور تخیل کی بلند پرواز ی نے ایک ایسی رنگین اور پر کار فضا ان کی غزلوں میں پیدا کردی ہے جو بڑی دلکش اور دلآویز ہے اسی فضانے درد کی غزل کو ایک حسین نگارخانہ بنا دیا ہے جذباتی خیالات کا ایسا حسین مرقع اردو شاعری میں اور کہیں نہیں مل سکتاہے اصغر کی غزلیں انھیں مرقعوں کا ایک مجموعہ ہیں درد کے یہاں موضوعات کا تنوع نہیں ہے صرف تصوف کی کیفیات ہیں جو کہیں فلسفے کی حدود میں داخل ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں لیکن ان کی تخیل پر ستی اور روحانیت انہیں فلسفی نہیں بننے دیتی اس لیے یہاں موضوع کی یکسانیت ضروری ہے لیکن تخیل کی نگوں کاری نے اس کمیابی کو ایسا حسین بنا دیا ہے کہ ان کی شاعری ایک چمنستان نظر آتی ہے ۔

’’فلسفہ اور تصوف درد کی شاعری میں بڑی رچی ہوئی صورت میں موجود ہے درد نے اپنی عزلوں میں صرف تصوف کے روایتی تصور کو پیش نظر نہیں رکھا ہے انھوں نے اس سلسلہ میں نئی باتیں بھی کی ہیں ۔ درد نے تصوف کے تمام مسائل کو موضوع بنا دیا ہے لیکن ان مسائل کو انھوں نے نئے زاویۂ نظر ان کے مسائل کو صرف تصوف کو بڑی اہمیت دیتی ہے اس معرفت کا حاصل کرنا زندگی کی معراج ہے اور یہ معراج اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب فرد کے پاس نصف العلین ہو ۔ فرد اور اس کے اعمال درد کے تغزل میں بہت اہمیت رکھتے ہیں درد نے اس فرد کا بہت بلندتصور پیش کیا ہے ۔’’ درد تو تصوف دوبے ہوئے نظر انتے ہیں اور ان کا مخصوص موضوع حیات کا ئنات کے مسائل ہیں جن پر ان کی نظر بہت گہری پڑتی ہے لیکن انسانی حسن اور اس کی اہمیت کا احساس اس کے باوجود ان کے یہاں بہت شدید نظرآتا ہے۔اس سے ایک والہانہ وابستگی اور پھر اس سلسلے میں جو تنوع کیفیات طاری ہو سکتی ہے اور ان سب کی ترجمانی انھوں نے بڑی خوبی سے کی ہے ‘‘۔ یہ بھی درد کی بڑائی ہے کہ انھوں نے تصوف کو تصوف ہی رہنے دیا ہے اسے فلسفہ نہیں بنا یا ہے یہی وجہ ہے کہ ذاتی شعوران کی غزلوں میں نہیں ملتا ہے وہ تو جذب و شوق کے شاعر ہیں اور اسی جذب وشوق نے ان کی غزلوں کو آسمان پرپہنچا دیا ہے ان غزلوں نے آسمان سے ستارے توڑے ہیں اور ان ستاروں سے غزل کی روایت کی محفل کو سجایاہے ۔

یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ برق،آتش،خورشید،شعلہ وغیرہ اردو فارسی شاعری کے عام الفاظ ہیں کیا دردؔ اور غالبؔ کے یہاں ان کا استعمال رسمی نہیں قرار دیا جاسکتا؟جواب میں میں کہوں گا کہ شعر کا لہجہ اور اٹھان ہی بتادیتی ہے کہ یہ رسمی اور روایتی ہے یا اصلی اور ذاتی ۔اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ غالبؔ اور دردؔ کے یہاں اکثر وبیشتر جس کیفیت کا اظہار آتش اور خورشید اور شعلہ جیسے الفاظ سے کیاگیاہے اس کے اظہار کے لئے اور بھی بہت سے روایتی اسالیب بیان اوراستعارے موجود ہیں۔پھر کیا وجہ ہے کہ دونوں نے بار بار انہیں کا انتخاب کیاہے؟زیادہ تر اشعار میں یہ صورتیں اور پیکر؟لائے گئے،نہیں بلکہ آئے ہوئے،معلوم ہوتے ہیں اور کسی شدید جبلی ترجیحINSTINCTIVE PREFERENCEکی طرف اشارہ کرتے ہیں ورنہ چھوٹے سے دیوان میں ان کی مسلسل تکرار کیا معنی کھتی ہے ؟اور یہ پیکر کسی اور بڑے شاعر مثلاً میر کے کلام میں اس کثرت سے کیوں نہیں پائے جاتے؟
میں سمجھتا ہوں کہ دردؔ اور غالبؔ دونوں کے تخیل میں جو علویت اور مزاج میں جو سوزدبے چینی کی خلش تھی۔اس نے غیر شعوری طو رپر خو دکو ان استعاروں کے انتخاب کی صورت میں ظاہر کیا۔ ان دوبڑے شعراء کی مزاجی ہم آہنگی کی طرف اس سے زیادہ واضح اور روشن اشارہ کیا ہوسکتاہے۔

غالبؔ اور دردؔ دونوں کی ذہنی ساخت کو ہم مجموعی طور پر عملی رومانیت INTELLECTUAL ROMANTICISMکا نام دے سکتے ہیں کہ جب ہم اردو شعراء کی جگہیں متعین کریں تو دردؔ کو غالبؔ اور اقبال کی ضمن میں رکھیں،میر اور آتش کے ساتھ نہیں ۔اس تقسیم سے نہ دردؔ کی شاعرانہ حیثیت میں کوئی اضافہ ہوتا ہے نہ آتش کی اہمیت میں کوئی تخفیف یہ تقسیمیں سمجھنے اور سمجھانے کی آسانی کے لئے ہیں،بڑے اور چھوٹے کی تخصیص کے لئے نہیں۔میردردؔ کی زبان وہی ہے جو میرؔ وسوداؔ کی زبان ہے۔جیسے میرؔ وسوداؔ کی زبان کے بہت سے الفاظ آج متروک ہوگئے یا بدل گئے، وہی صورت دردؔ کی زبان کے ساتھ ہے ،مثلاً دردؔ کے ہاں کبھو،تئیں،ٹک نت،ہیں گے،۸تجھ ،سوا،ان نے دیکھوں ہوں، انہوں کی،ہوجیو،لے ڈوبیاں،پائیاں ہیں وغیرہ الفاظ اور فعل وضمیر ملتے ہیں،ان چند بدلی ہوئی یا متروک صورتوں میں کے علاوہ میردردؔ کی زبان ویسی ہی صاف وشستہ زبان ہے جو آج بولی جاتی ہے دردؔ نے محاورہ و روز مرہ کا استعمال کثرت سے کیاہے لیکن انہوں نے میرؔ کی طرح خالص عوام کی زبان کو استعمال نہیں کیا بلکہ ایسے الفاظ اور محاورے روز مرہ استعمال کئے جو عوام وخواص میں یکساں طور پر رائج تھے۔اسی لئے ان کی زبان یکساں وہموار ہے۔میردردؔ نے بہت کم کلام چھوڑا ہے اور وہ بھی کم وبیش تمام ترصنف غزل میں ہے۔دوسری صنف جس میں ان کا کلام ملتاہے رباغی ہے۔ اورجن کی مجموعی تعداد72ہے۔رباعی میں ان کی فکرزیادہ واضح اور مربوط انداز میں ابھری ہے۔وہ غزل کی طرح رباعی کے بھی ایک اہم شاعر ہیں۔اتنے کم کلام کے باوجود ان کانام میرؔ وسوداؔ کے ساتھ اس لئے لیا جا تاہے کہ انہوں نے اردو شاعری کی روایت کوآگے بڑھانے میں وہی کام کیا ہے۔جو میرؔ وسوداؔ نے کیا۔دردؔ جہاں ’’طریق محمدیؐ‘‘کے ’’اول الحمدمین‘‘ہیں وہاں میرؔ وسوداؔ کی طرح اردو زبان کے بھی،کلام سیک ،ہیں۔اپنے کلام کی ضخامت کے باوجود قائم،سوزؔ وغیرہ اس درجے پر نہیں آتے۔

Dr. Mohammad Yahya Saba
About the Author: Dr. Mohammad Yahya Saba Read More Articles by Dr. Mohammad Yahya Saba: 40 Articles with 132596 views I have Good academic record with a Ph.D. Degree in Urdu “Specialization A critical study of Delhi comprising of romantic verse, earned Master’s Degree.. View More