شاعری جذبات کے اظہار کا ایک اہم وسیلہ ہے۔کوئی اچھا خیال
جب شعر کے ذریعے پیش کیا جائے تو اس کی پیشکشی کے کچھ سانچے ہوتے ہیں۔جیسے
کوئی خیال نظم‘غزل یا شاعری کی کوئی بھی صنف کے ذریعے پیش ہوسکتا ہے۔ادبی
اصطلاح میں کسی تخلیق کے ذریعے پیش کئے جانے والے جذبات کو مواد اور پیشکشی
کے سانچے کو ہیئت کہتے ہیں۔شاعری میں پیشکشی کے سانچے خیال کی ضرورت کے تحت
یا شاعر کے مزاج کے اعتبار سے بدلتے رہے۔انسان جدت پسند واقع ہوا ہے۔ وہ
اظہار کے موضوعات اور سانچوں میں تبدیلی چاہتا ہے۔ ایک عرصے تک اردو شاعری
میں غزل اظہار کا اہم سانچہ رہا ہے۔ لیکن غزل میں قافیہ بندی کی قید سے
شعراءنے اپنے خیالات کے اظہار میں دشواری محسوس کی ۔اور اس دشواری پر قابو
پانے اور اپنے خیالات کے موثر اظہار کے سلسلے کو جاری رکھنے کے لئے نظم اور
اس کی مختلف اقسام پابند نظم‘معریٰ نظم‘آزاد نظم اور نثری نظم جیسی نئی
شعری اصناف وجود میں آئیں۔ اردو شعر و ادب نے مشرقی اور مغربی زبانوں سے
موضوع اور ہیئت دونوں سے استفادہ کیا ہے۔ مغربی شاعری کے زیر اثر اردو
شاعری میں ہیئتوں کے ہونے والے نئے تجربوں کا نتیجہ آزاد نظم ہے۔ شاعری میں
اظہار کے سانچوں میں کئے جانے والے نئے تجربے شروع میں مقبول نہیں ہوئے اور
انہیں شک کی نظر سے دیکھا گیا۔ تاہم مانوسیت ہونے کے بعد انہیں پسند کیا
جانے لگا۔ قافیے کی قید سے آزاد ہونے کی خاطر نظم کی جو صنف مقبول ہوئی وہ
آزاد نظم ہے۔ جیسے اس کے نام سے ظاہر ہے اس میں چند ایک پابندیوں کے باوجود
خیال کے اظہار کی بہت آزادی ہے اور شعرا نے اس آزادی کو استعمال کرتے ہوئے
آزاد نظم کو فروغ دیا۔
آزاد نظم کو انگریزی میں فری ورس (Free Verse)کہتے ہیں۔آزاد نظم ایسی نظم
ہوتی ہے جس میں ردیف اور قافیے کی پابندی کے بغیر وزن ‘لے ‘سُر اور تال کے
لحاظ کے ساتھ چھوٹے بڑے مصرعوںکے ذریعے نظم پیش کی جاتی ہے۔ مصرعوں کے
ارکان ہم وزن ہوتے ہیں لیکن ایک مصرعے میں ارکان کی تعداد مقررہ نہیں ہوتی۔
ارکان کم یا ذیادہ ہوتے رہتے ہیںآزاد نظم میں خیال اور جذبے کو بنیادی
اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ شاعر ہئیت کی پابندیوں کی پرواہ کئے بغیر پوری آزادی
کے ساتھ اپنے خیالات کو چھوٹے بڑے مصرعوں میں موسیقیت اور غنائیت کے ساتھ
پیش کرتا جاتا ہے۔خیال کی خود کاری اور خود ساختگی آزاد نظم کی خاصیت
ہے۔آزاد نظم میں کس طرح ہم وزن ارکان کے چھوٹے بڑے مصرعے پیش کئے جاتے ہیں
اس کی مثال ہم اردو نظم کے مشہور شاعر مخدوم کی ایک آزاد نظم ” چارہ گر“ کے
ایک بند کو دیکھ کر کر سکتے ہیں۔ اپنی نظم کا آغاز مخدوم یوں کرتے ہیں۔
اک چنبیلی کے منڈوے تلے
میکدے سے ذرا دور اُس موڑ پر
دو بدن
پیار کی آگ میں جل گئے
مخدوم کی یہ نظم ”فاعلن“ کے وزن پر کہی گئی ہے۔ اور نظم کے اس بند کے پہلے
مصرعے میں فاعلن کے تین رکن‘دوسرے مصرعے میں چار رکن تیسرے مصرعے میں” بدن“
ایک رکن اور چوتھے مصرعے میں تین رکن استعمال کئے گئے ہیں۔ اس طرح ہم
دیکھتے ہیں کہ شاعر وزن کا خیال رکھتے ہوئے مصرعوں کی چھوٹی بڑی ترتیب کے
ذریعے اپنے خیال کودریا کی چھوٹی بڑی لہروں کی روانی کی طرح پیش کرتا جاتا
ہے۔ بعض مرتبہ ایک پابند نظم کے مصرعوں کو مناسب انداز میں قطع کرکے اسے
آزاد نظم میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ میر حسن کی مثنوی سحرالبیان میں شامل
ایک نعتیہ شعر کے دو مصرعے اس طرح ہیں۔
نبی کون یعنی رسول کریم
نبوت کے دریا کا در یتیم
ان دو مصرعوں کو آزاد نظم کے چار مصرعوں میں یوں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
نبی کون
یعنی رسول کریم
نبوت کے
دریا کا در یتیم
اس طرح پابند نظم کے مصرعوں کو لے اور سرُ کی بنیاد پر توڑ کر اسے آزاد نظم
میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔آزاد نظم کے بارے میں مغرب میں طرح طرح کے خیالات
پیش کئے گئے ہیں۔فرانس کے نظم نگار جی کا ن کا خیال ہے کہ آزاد نظم کی
بنیاد ایسی اکائی ہے جس میں صوتی اور معنوی وقفے ہوں۔ ہربرٹ ریڈ کا کہنا ہے
کہ ”اوزان اور بحور کی باقاعدگی کا نعم البدل تناسب اور توازن کا عنصر
ہے۔ڈاکٹرعنوان چشتی آزاد نظم کے بارے میں لکھتے ہیں۔
”آزاد نظم شعری تجربے کے وفور تازگی اور توانائی کا بیساختہ اور براہ راست
اظہار ہے۔شعری تجربے کی بنیادی خصوصیت کو الفاظ کی پرتو ں میں تحلیل کرنے
کے لئے اسے آزاد چھوڑنا ضروری ہے۔ اس لئے خیال یا جذبے پر کوئی پابندی عائد
نہیں کی جاتی۔ وہ جس طرح چاہتا ہے اپنا اظہار کرلیتا ہے۔ جذبے کی اس خود
کاری اور خود تشکیلی کا نام آزاد نظم ہے۔۱
آزاد نظم میں قدیم عروضی اصولوں سے بغاوت ہے۔اور نئے فطری آہنگ کی تعمیر
ہے۔ انگریزی میں آزاد نظم لکھنے کے لئے ارکان کی ترتیب کے قدیم اصولوں کو
خیر باد کہا گیا۔ اور آواز کے اتار چڑھاﺅ پر زور دیا گیا۔ لیکن اردو میں
آزاد نظم بحر سے تو آزاد ہوگئی لیکن وزن سے آزاد نہیں ہوسکی۔ اور کسی نہ
کسی بحر کے ارکان کی مختلف ترتیب سے آزاد نظم تشکیل پائی۔
بعدکے شعرا ءنے آزاد نظم میں جدت پیدا کی ۔ اور اس کی تکنیک میں تجربے
کئے۔آزاد نظم کی ایک تکنیک وہ ہے جس میں معریٰ اور مقفیٰ نظم کی جھلک پائی
جائے۔فیض ‘میراجی اور ن م راشد کے ہاں اس قسم کی آزاد نظمیں پائی جاتی ہیں
جن میں معریٰ اور مقفیٰ نظم کے عناصر بھی یکجا ہوگئے ہیں۔فیض کی نظم” تم
مرے پاس رہو“ دیکھئے۔
تم مرے پاس رہو
مرے قاتل مرے دلدار مرے پاس رہو
جس گھڑی رات چلے
آسمانو ں کا لہو پی کے سیہ رات چلے
مرہمِ مشک لئے نشترِالماس لئے
بین کرتی ہوئی ہنستی ہوئی گاتی نکلے
درد کے کاسنی پازیب بجاتی نکلے
نظم کے اس حصے میں دوسرا‘چوتھا‘پانچواں ‘چھٹا اور ساتواں مصرعہ مساوی الوزن
ہے۔ تاہم رات چلے‘گاتی نکلے‘بجاتی نکلے‘نے قافیے کا آہنگ پیدا کردیا ہے۔ن م
راشد نے اسی تکنیک کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک طرف اپنی نظموں میں
قوافی اور بحر کے مساوی الوزن ارکان کو کسی حد تک باقی رکھا اور دوسری طرف
مصرعوں میں ارکان کو منتشر کرکے آزاد نظم کی ہئیت سے فائدہ اٹھایا ہے۔آزاد
نظم کی ایک تکنیک وہ ہے جو معریٰ نظم سے قریب ہے۔کبھی دو مصرعوں میں رکن کو
توڑ کر اور کبھی ارکان کا اضافہ کرکے بھی آزاد نظم میں جدت پیدا کی گئی
ہے۔جہاں تک آزاد نظم میں زبان کے استعمال کا معاملہ ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں
کہ اس میں شاعر مفرد اور مرکب الفاظ‘ تراکیب‘ تشبیہات‘ استعارات ‘ پیکر ‘
علامتیں‘ تمثیل اور اساطیر کے ذریعے ایک شعری فضاءقائم کرتا ہے۔کبھی آزاد
نظم میں سیدھی سادھی ادبی زبان بھی استعمال ہوتی ہے۔ شاعر کا مقصد اظہار کے
ذریعے اپنا تاثر چھوڑ نا ہوتا ہے۔ علی جواد زیدی کی نظم” ہولی“ میں زبان کی
سادگی اور روانی دیکھئے۔
پہلے زمانہ اور تھا مے اور تھی دور اور تھا
وہ بولیاں ہی اور تھیں وہ ٹولیاں ہی اور تھیں وہ ہولیاں ہی اور تھیں
لیکن مرے پیرمغاں
اب تو نیا انداز ہے
پیکریت کی تشکیل اور پیشکشی آزاد نظم کی زبان کا اہم حصہ رہی ہے۔آزاد نظم
نگاروں نے مغرب کے زیر اثر اور نئے حالات کے پیش نظر بات کو پیکروں کے
ذریعے پیش کرنا شروع کیا۔ اردو نظم میں پیکریت کی ایک مثال مخدوم کی نظم
”چاند تاروں کا بن“ میں دیکھئے۔
موم کی طرح جلتے رہے ہم شہیدوں کے تن
رات بھر جھلملاتی رہی شمعِ صبحِ وطن
رات بھر جگمگاتا رہا چاند تاروں کا بن
میراجی اور دیگر نظم نگاروں نے آزاد نظم میں علامت نگاری کو بھی فروغ
دیا۔کسی لفظ کو علامت بننے میں کافی وقت درکار ہوتا ہے۔ تاہم اردو شاعری
میں نئی اور پرانی علامتیں تشکیل پائیں اور انہیں بخوبی برتا بھی گیا۔میرا
جی نے اپنی نظم”سمندر کا بلاوا“ میں سمندر کو ایک ماں یا موت کی علامت کے
طور پر استعمال کیا ہے جو اپنے بچوں یا مخلوق خدا کو یوں یادکرتا ہے۔
یہ سرگوشیاں کہہ رہی ہیں اب آﺅ کہ برسوں
بلاتے بلاتے مرے دل پہ گہری تھکن چھارہی ہے
آزادنظم کی روایت کافی قدیم رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آزاد نظم کے ابتدائی
آثار بائبل میں شامل ”نغماتِ سلیمانی“ اور ” زبور“ کے انگریزی تراجم میں
ملتے ہیں۔ انیسویں صدی میں فرانسیسی اور انگریزی ادب میں آزاد نظم کو برتا
گیا۔ اردو میں آزاد نظم کی روایت انگریزی شاعری کے توسط سے آئی۔ اردو کے
مشہور شاعر ‘ناول نگار اور صحافی عبدالحلیم شرر نے سب سے پہلے آزاد نظم کو
شعوری طور پر برتا۔انہوں نے جو منظوم ڈرامے لکھے وہ آزاد نظم کی تکنیک سے
میل کھاتے ہیں۔ا آزاد نظم لکھنے کی باضابطہ کوشش پہلی جنگ عظیم کے بعد شروع
ہوئی۔ اور شعرا ءنے اس جانب توجہ دینا شروع کیا۔آزاد اور حالی نے انجمن
پنجاب کے ذریعے نظم نگاری کی تحریک کو فروغ دیا۔ ترقی پسند تحریک سے پہلے
بچوں کی نظمیں لکھتے ہوئے اسمٰعیل میرٹھی نے بھی آزاد نظمیں لکھنے کی شعوری
کوشش کی۔ سب سے پہلے تصدق حسین خالد نے آزاد نظم لکھی۔ اس ضمن میں ڈاکٹر
عنوان چشتی عبدالوحید کراچی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ
(خالد ) نے ۵۲۹۱ءسے نظم آزاد لکھنا شروع کی۔۔۔ان کا شمار اردو کے چند باغی
شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے اردو نظم میں نئے تجرباتی دور کاآغاز کیا۔اور
مروجہ اصناف سخن اور اسالیب سے ہٹ کر نئی نئی راہیں نکالیں۔ ۲
تصدق حسین خالد کے بعد ن م راشد۔دین محمد تاثیر۔میراجی۔حفیظ ہوشیار
پوری۔مجید امجد۔ یوسف ظفر۔علی جواد زیدی۔وغیرہ نے آزاد نظمیں لکھنا شروع
کیں۔ترقی پسند شاعری کے دور میں تقریباََ سبھی شاعروں نے آزاد نظمیں لکھیں۔
مخدوم۔بلراج کومل۔جوش ملیح آبادی۔اخترالایمان۔جاںنثار اختر۔آنند نرائن ملا۔
کیفی اعظمی۔سردار جعفری۔فیض۔احمد ندیم قاسمی۔خلیل الرحمٰن اعظمی اور عادل
منصوری وغیرہ نے آزاد نظم نگاری میں شہرت حاصل کی۔اردو میں ن م راشد نے
آزاد نظم نگاری میں کمال پیدا کیا۔ ان کے بارے میں پروفیسر حنیف کیفی کہتے
ہیں۔
آزاد نظم کو راشد کے ہاتھوں جو مقبولیت نصیب ہوئی یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ
وہ اردو میں اس کے بانی مبانی تصور کئے جانے لگے۔ یہی نہیں بلکہ اتنی
تیزرفتاری کے ساتھ آزاد نظم کا نام راشد کے نام سے وابستہ ہوگیا کہ ایک
دوسرے کے بغیر دونوں کا تصور نا ممکن ہوگیا۔۳
ن م راشد کی نظم ” زنجیر“ کافی مقبول ہوئی۔ نظم کے چند مصرعے اس طرح ہیں۔
گوشہ زنجیر میں
اک نئی جنبش ہویدا چلی
سنگِ خارا ہی سہی‘خار ِ مغیلاں ہی سہی
دشمنِ جاں دشمنِ جاں ہی سہی
دوست سے دستِ گریباں ہی سہی
یہ بھی تو شبنم نہیں
یہ بھی تو مخمل نہیں۔دیبا نہیں‘ ریشم نہیں
اس نظم میں راشد نے قوافی کا نظام رکھا۔ عادل منصوری نے اپنی ایک نظم ”
تبوک بلا رہا ہے“ میں ایک بڑے خیال کو اشارے اور علامت کے ذریعے بڑی خوبی
سے بیان کیا ہے۔نظم یوں ہے۔
تبوک آواز دے رہا ہے
زمیںسے اب جو چپک رہے گا
منافقوں میں شمار ہوگا
لہو کے سورج کی لال آنکھیں
اداس لمحوں کو سونگھتی ہیں
کھجور پکنے کا وقت بھی ہے
سفر کٹھن ہے
اس نظم میں بڑ ے مقصد کے لئے اپنی عزیز چیز کی قربانی کی ترغیب دی گئی ہے۔
اردو میں آزاد نظم نگاری کے فروغ میں راشد میراجی اور دیگر شعرا نے اہم
کردار ادا کیا۔ ان شعرا کی انگریزی اور اردو دونوں پر گہری نظر تھی۔ راشد
اور میراجی فطری شاعر اور فن کار تھے۔ آزاد نظم کی یہ خوش نصیبی رہی کہ اسے
اس طرح کے شاعروں نے برتا۔ اور بے تکی سمجھی جانے والی یہ صنف شاعری بنیادی
روایات توڑنے کے باوجودادب کی تاریخ میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب رہی۔
آزاد نظم کا سفر جاری ہے۔ ترقی پسند تحریک کے بعد جدیدیت اور مابعد جدیدیت
شعراءنے اچھی آزاد نظمیں لکھی ہیں۔ اگر خیال اچھا ہو اور شاعر اسے روانی سے
بیا ن کرنے کی قدرت رکھتا ہو تو آج بھی آزاد نظم شاعری کے اس دور میں اپنا
مقام بنا سکتی ہے۔
حواشی
۱ عنوان چشتی۔اردو شاعری میں ہئیت کے تجربے۔دہلی ۔۵۷۹۱ئ۔ص۱۹۱
۲ عنوان چشتی۔اردو شاعری میں ہئیت کے تجربے۔ص۔۸۲۲
۳ حنیف کیفی۔اردو میں نظم معریٰ اور آزاد نظم۔دہلی۔۲۸۹۱ ئ۔ص۔۳۵۴
|