پاکستان کے مختلف علاقوں کے ممتاز اور سرکردہ علمائے کرام
کا 70 رکنی وفد حضرت مولانا محمد حنیف جالندھری کی سربراہی میں ان دنوں
ازبکستان کے دورے پر ہے ،اس وفد میں حضرت مولانا پیر عزیز الرحمن ہزاروی ،حضرت
مولانا قاضی عبدالرشید ،مولانا سعید یوسف ،ڈاکٹر مولانا محمد الیاس ،مولانا
مفتی محمد (جامع الرشید)،مولانا مفتی طارق مسعود ،حضرت مولانا عبدالحفیظ
مکی صاحب کے برادر مولانا عبدالصمد مکی ،حضرت مکی کے جانشین حضرت مولانا
محمد عمر مکی ،ساؤتھ افریقہ سیمولانا محمد بن شبر سالوجی ،بحریہ ٹاؤن کے
خطباء مولانا عبدالظاہر فاروقی ،مولانا سعید اعوان ،مولانا محمد عارف ،مولانا
مفتی محمد عمر،گوجرانوالہ سے مولانا قاری گلزار قاسمی،مولانا شاہنواز
فاروقی ،کراچی سے مولانا شفیق الرحمن سمیت علمائے کرام ،اہل علم،اہل تقوی
کی ایک بڑی جماعت ہے ،ایک جماعت اور ایک وفد نہیں بلکہ ایک کہکشاں ہے،جگمگ
جگمگ کرتی کہکشاں ،بہت سے حضرات کے نام نہیں لکھے جا سکے ،نام لکھے جائیں
تو صرف ناموں سے ہی کالم مکمل ہو جائے ،حافظ محمد اقبال قریشی نے اس وفد کی
تشکیل اور انتظام و انصرام کا بیڑہ اٹھایا اور کئی ماہ کی جد و جہد مسلسل
کے بعد بالآخر وہ اس وفد کو لانے میں کامیاب ہو گئے ،حضرت مولانا محمد حنیف
جالندھری فرمایا کرتے ہیں کہ اﷲ رب العزت نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا
یاایتھا النفس المطمئن ارجعی الی ربک راضی مرضی فادخلی فی عبادی وادخلی
جنتی یہاں فادخلی فی عبادی پہلے فرمایا اور وادخلی فی جنتی بعد میں فرمایا،
معلوم ہوا کہ رفاقت اور احباب کا معاملہ جنت سے بھی زیادہ اہم، زیادہ نفع
اور راحت کا باعث ہے ۔۔۔آج علمائے کرام کی اس کہکشاں کے ساتھ سفر کر کے
حضرت جالندھری کی یہ بات بار بار یاد آ رہی ہے کہ اگرچہ ماوراء النہر کا
علاقہ علم و ہنر کا گہوارہ رہا ،حضرات محدثین و مصنفین کا مسکن و مدفن ہے ،اس
خطے کے علمائے کرام نے دین کی خدمت کی ایسی تاریخ رقم کی جو رہتی دنیا تک
یادگار رہے گی ،ان ہستیوں کے نقوش پا کی تلاش میں اس خطے کا سفر کرنا بذات
خود ایک بہت بڑی سعادت ہے لیکن علمائے کرام کے اتنے بھر پور وفد کے ہمراہ
سفر کرنا نور علی نور کا مصداق ہے ۔۔۔۔۔قدم قدم پر مذاکرے ،ذکر و اذکار کی
مجالس،حضرت جالندھری کی قیادت ،حضرت پیر صاحب کی فکر مندی میں ڈوبی
گفتگو،نوجوان علماء کی خوش مزاجی ،مولانا قاری اﷲ داد کے لطائف و ظرائف،پیر
اقبال قریشی صاحب کا حسن انتظام ،مولانا سعید یوسف اور ڈاکٹر محمد الیاس کی
نکتہ آفرینی ہر ایک چیز قابل ذکر ہے ،احترام بھی ہے، شائستگی بھی ، بے
تکلفی بھی ہے ،دل لگی بھی ہے استفادہ اور افادہ کا سلسلہ بھی ہے ،سیر و
سیاحت بھی ہے اور نورانی و روحانی ماحول بھی ہے ،میری زندگی کا ایک یادگار
سفر بلکہ اگر یہ کہا جائیکہ پاکستانی علماء کی تاریخ کا ایک مثالی سفرہے تو
بے جا نہ ہو گا ۔۔۔۔۔رفقائے سفر،ملاقاتیں ،زیارات،مکالمے بہت کچھ ہے اس سفر
میں ۔۔۔۔۔۔۔اور خیال ہے کہ سب مراحل اور مقامات پر اپنے قارئین اور اس سفر
میں شامل نہ ہو سکنے والے دوستوں کو بھی شامل کیا جائے ۔۔۔۔۔سو پڑھتے
رہیئے۔۔۔اور عافیت و توفیقات کیلئے دعا گو رہیئے ۔۔۔ جاری ہے |