سیاست دان اور لیڈر میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے
سیاست دان اگلے الیکشن کے بارے میں سوچتا ہے اور لیڈر قوم کے مستقبل کے
بارے میں سوچتا ہے اتنے بڑے فرق کو سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے اس
فرق کو صرف وہی سمجھ سکتے ہیں جو حالات و واقعات پر نظر رکھتے ہوں اور
دانشواری سے بھی ان کا گہرا تعلق ہو لیڈر قوموں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ
رہتے ہیں جبکہ سیاست دان عوام کے دلوں میں صرف وقتی طور پر موجود رہتے ہیں
اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام ان کو اپنے دلوں سے باہر نکال دیتے ہیں
کیوں کے جس طرح سیاست دان اگلے الیکشن کیلیئے عوام کو ان کا لیڈر تصور
کرانے کیلیئے لالی پاپ دیتے ہیں بلکل عوام بھی اسی طرح یہ سوچنے پر مجبور
ہوتے ہیں کہ کون ان کا لیڈر ہے اور کون سیاستدان ہے بلکل اس طرح کی صورتحال
سے آج کل سابق وزیر اعظم، سابق وزیر اعلی پنجاب،سابق وزیر داخلہ ،اور پوری
وفاقی اور پنجاب حکومت کے مالک چوھدری نثار علی خان دوچار ہیں الﷲ پاک نے
ان کو بہت بڑا موقع فراہم کر رکھا تھا کہ وہ ایک لیڈر بن سکیں لیکن وہ ایک
اچھا لیڈر بننے سے محروم رہ گئے ہیں کیوں کہ انہوں نے اپنے بے پناہ
اختیارات کو صرف گلی نالی تک محدود کیئے رکھا ہے انہوں نے کبھی بھی یہ نہ
سوچا کہ گلی نالی کی سیاست تو ایم پی اے یا ؤ سء کے چیرمین کا کام ہوتا ہے
اتنے بڑے پائے کا سیاست دان ہونے کے باوجود انہوں نے کام ایم پی ایز اور
چیرمینوں والے کیئے ہیں لیڈر تو یونیورسٹیاں اور کالجز دیتے ہیں تا کہ ان
کے عوام پڑھ لکھ کر باشعور ہو سکیں وہ قوم کے مستقبل کے منصوبے دیتے ہیں
انہوں نے کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا کہ آج کا اتنا بڑاحکمران کل کو ایک عام
سیاست دان بھی بن جائے گا اس میں کوئی شک نہیں کہ ترقیاتی کام جتنے ان کے
دور میں ممکن ہوئے ہیں اتنے آئندہ بیس سالوں میں بھی ممکن نہیں ہو سکیں گئے
لیکن کتنا اچھا ہوتا کہ بے پناہ اختیارات کے مالک اپنے حلقے کو کوئی
یونیورسٹی کوئی کالجز اور کم از کم پورے حلقے میں گیس ہی دے دیتے تو آج
عوام ان کے ساتھ ہوتے اور آج ان کو اپنا لیڈر مان رہے ہوتے لیکن افسوس آج
وہ ایک اچھے لیڈر نہیں بلکہ ایک سیاست دان ثابت ہو کر رہ گئے ہیں ان کی کسی
گھر میں ایک معمولی میٹنگ ایک بہت بڑے جلسے کی صورت اختیار کر جایا کرتی
تھی لیکن آج ان کے جلسے میں عوام کے تعداد ڈیڑھ سو سے لے کر دو سو تک ہوتی
ہے جو کہ ان کیلیئے ایک بہت بڑی فکر کی بات ہے اپنے لامحدود اختیارات کو
انہوں نے چند افراد تک محدود کیئے رکھا ہے انہوں نے کبھی اپنے عوام کو با
اختیارت بنانے کی زرہ برابر بھی سوچ نہ کی انہوں نے اپنے آپ کو عام عوام سے
دور رکھا اور خود صرف خاص لوگوں کے قریب رہے ہیں بدلے میں آج عوام نے بھی
ان کو اپنے دلوں سے باہر نکال دیا ہے اور صرف خاص لوگ جو ان کے قریب موجود
ہوتے تھے آج وہ بھی اکتا چکے ہیں کیوں کے جب وہ اپنے ارد گرد نظر دوڑاتے
ہیں تو ان کو اپنے سوا اور کوئی بھی نظر نہیں آتا ہے اور نہ ہی وہ کسی کو
یہ کہہ سکتے ہیں کے ہمارے ساتھ چلو فلاں جہگہ پر چوھدری نثار علی کی کوئی
میٹنگ یا جلسہ ہے چوھدر ی نثار علی خان عوام سے بہت دور ہو چکے ہیں وہ لوگ
جنہوں نے ان کے نام پر خوب موجیں اڑائیں آ ج وہ بھی غائب ہو چکے ہیں چوھدری
نثار علی خان کا نام استمعال کر کے مفادات حاصل کرنے والے کے بارے میں بھی
آج ان کو علم ہو چکا ہے اور نثار علی خان کو اس بات کا بخوبی علم ہو چکا ہے
کہ عوام سے دوری کی کیا وجوہات ہیں اور عوام سے دوری اس حد تک بڑھ گئی ہے
کہ اب عوام کو قریب لانے کیلیئے ان کو ایک افواہ ساز فیکٹری کی ضرورت پڑھ
چکی ہے جو کبھی کس طرح اور کبھی کس طرح کے شوشے چھوڑ کر عوام کو ان کے قریب
لانے کی ناکام کوشش میں مصروف رہتی ہے جو کہ اس وقت بہت نا ممکن ہو چکا ہے
اگر چوھدری نثار علی خان نے عوام میں اپنا ایک مقام بنایا ہوتا تو عوام بھی
ان کو آج مایوس نہ کرتے اور ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے عوام کے منہ موڑنے
کی وجہ صرف یہی ہے کہ انہوں نے عوام کو بھی وہ مقام نہیں دیا ہے جو ان کا
حق بنتا تھا ان کے حلقے کے عوام نا چاہتے ہوئے بھی چند خاص افراد کے مرہون
منت رہے ہیں اور آج وہ خاص لوگ بھی ادھر ادھر نظریں دوڑا رہے ہیں کہ شاید
کوئی معجزہ آئے جو ہمیں وہی پرانے مزے لوٹا دے لیکن اب ایسا کوئی معجزہ
اپنا اثر دکھا تا نظر نہیں آ رہا ہے بہت سارے یو سیز کے چیرمینزجو چوھدری
نثار علی خان کے نام پر جیتے تھے ان کو بھی اتنا خراب کیا گیا ہے کہ آج وہ
نام لینے سے گھبراتے ہیں اور ان کا نام لینے سے قبل اپنے دونوں ہاتھ کانوں
کو لگاتے ہیں اب موجودہ حالات کی اگر بات کی جائے تو ایم پی اے کی سیٹ کا
حلف نہ لے کر بھی عوام کے ساتھ ایک اور زیادتی برتی جا رہی ہے عوام کو ایم
پی اے لیول کے بہت کام ہوتے ہیں جن سے متعلقہ حلقے کے عوام اب تک محروم ہیں
وہ اپنے مسائل لے کر کس کے پاس جائیں یہ عوام حلقہ کے ساتھ کوئی اچھا سلوک
نہیں کیا جا رہا ہے چوھدری نثار علی خان اپنے نہیں تو کم از کم عوامی مفاد
میں ہی یا تو پنجاب اسمبلی میں حلف لیں یا بہترین عوامی مفادات کی خاطر کسی
اور کو موقع فراہم کریں جو اس خلاء کو پر کر سکے اور عوام حلقہ کے مفادات
میں کام کر سکے ان تمام باتوں کا خلاصہ یہی ہے کہ چوھدری نثار علی خان ایک
اچھے لیڈر نہیں بلکہ ایک سیاست دان ثابت ہوئے ہیں - |