افغانستان صدراتی انتخابات موخر ۔امن مذاکرات سست روی کا شکار

افغانستان میں قیام امن کے لئے کی جانے والی کوششوں میں طوالت کا سبب کابل انتظامیہ کا رویہ قرار دیا جا رہا ہے۔ دوحہ مذاکرات کے تمام ادوار میں کابل انتظامیہ کی عدم شرکت کے سبب کابل انتظامیہ کا رویہ بھی سخت ہوتا جارہا ہے۔ امریکا اور افغانستان کے درمیان براہ راست مذاکرات کے مثبت نتائج ابھی تک سامنے نہیں آئے ہیں۔ تاہم دونوں فریقین کے درمیان اہم معاملات پر معاہدے کے لئے دونوں جانب سے مقررہ کمیٹیاں مصروف عمل ہیں۔ دوسری جانب افغانستان میں صدارتی انتخابات کے دوبارہ موخر کئے جانے کا سبب بھی یہی سمجھا جارہا ہے۔ لیکن افغان الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ 2018 کے انتخابات میں کئی خامیاں سامنے آئی تھی جس کے سبب ان خامیوں کو دور کیا جارہا ہے ۔ اپریل 2019میں ہونے والے انتخابات کو سیکورٹی اور سرد موسم کی وجہ سے ستمبر2019تک موخر کردیئے گئے۔ چونکہ22اپریل 2019کو صدر اشرف غنی کی صدارت کی مدت ختم ہوچکی تھی اس لئے افغانستان کے چیف جسٹس نے معیاد صدارت بڑھانے کے لئے صدر اشرف غنی سے حلف لیا ۔ جس پر افغان طالبان اور حکومتی و اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بھی صدر اشرف غنی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

افغان طالبان نے سپریم کورٹ کی جانب سے صدارت کی مدت میں توسیع کئے جانے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ عمومی طور پر دیکھا یہ بھی گیا ہے کہ افغانستان کی عدالت عظمیٰ کا کردار افغان عوام کے دیگر مسائل کو حل کرنے میں موثر کردار نظر نہیں آتا ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کابل انتظامیہ کی توسیع سے قبل کئی گھنٹے جج صاحب صدارتی محل میں اشرف غنی کا انتظار کرتے رہے ۔ کابل انتظامیہ کے ساتھ کابل عدلیہ کو بھی خود مختار نہیں سمجھا جاتا۔ جس طرح مسلسل کئی برسوں سے افغانستان کے انتخابات موخر ہو رہے ہیں ۔ اب دوبارہ توسیع کے بعد بھی یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ ستمبر2019میں صدارتی انتخابات کا مرحلہ شروع ہوسکتا ہے۔دوحہ مذاکرات میں کابل انتظامیہ باقاعدہ فریق ہے ۔ لیکن افغان طالبان انہیں کٹھ پتلی حکومت سمجھتے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود افغان طالبان مخالف کئی گروپس ہیں جو اقتدار انتقال کے کسی حتمی و پُر امن معاہدے پر تحفظات کا اظہار کرسکتے ہیں ۔ ماسکو کانفرنس میں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ روس کی ثالثی میں افغان طالبان سیر حاصل مذاکرات کئے تھے ۔ جس کا دوسرا دور دوحہ میں منعقد ہونا تھا لیکن کابل انتظامیہ نے 250افراد کی فہرست کی بنیاد پر یہ ظاہر کرنا شروع کیا کہ دوحہ میں ماسکو مذاکرات کا دوسرا دور حکومت کی جانب سے منعقد ہو رہے ہیں ۔ جس پر افغان طالبان نے ناراضگی کا اظہار کیا کہ کابل حکومت کا عالمی برداری کو ایسا تاثر دینا مناسب نہیں ہے نیز 250افراد کو مذاکرات میں بھیجنا ایسا ہے جیسے کسی ہوٹل یا شادی کی تقریب میں دعوت دینا ۔ افغان طالبان نے فہرست مختصر کی کہ یہ شخصیات بھی ذاتی حیثیت سے شریک ہوسکتے ہیں ۔ ان کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں ۔ لیکن کابل انتظامیہ مصر رہی کہ افغانستا ن کے تمام مکتبہ فکر کو شرکت کرنی چاہیے۔ غالباََ قطر کے سیاسی دفتر کو ان تمام شخصیات کی موجودگی پر بھی کوئی اعتراض نہ ہوتا ، لیکن عالمی برداری میں یہ تاثر جانے پر کہ مذکورہ وفد کابل انتظامیہ کے زیر اہتمام ہے ۔ اس پر افغان طالبان نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کانفرنس موخر کردی کیونکہ اس سے ان کے موقف کو ٹھیس پہنچ رہی تھی کہ افغان طالبان ، کٹھ پتلی کابل انتظامیہ سے کوئی مذاکرات نہیں کئے جائیں گے۔گر دیکھا جائے تو یہ موقف درست بھی معلوم ہوتا ہے کیونکہ موجودہ کابل انتظامیہ عوام کی نمائندہ حکومت نہیں ہے۔ اس لئے ان کے مینڈیٹ پر اعتراض کا جواز اہم تصور کیا جاتا ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ ماسکو نے ایک مرتبہ پھر اپوزیشن جماعتوں اور افغان طالبان کے درمیان کانفرنس کے انعقاد میں تعاون کا عندیہ دیا ہے تاکہ امریکا کے ساتھ مذاکرات کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر اپوزیشن جماعتوں اور افغان طالبان میں اتفاق رائے پیدا ہوسکے اور ملک میں دوبارہ خانہ جنگی نہ ہو۔افغان طالبا ن کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھے گا ۔ اس پر صرف قیاس آرائیاں ہی کی جا رہی ہیں ۔ باقاعدہ مشترکہ اعلامیہ جاری نہ ہونے کے سبب ابہامی کیفیت برقرار ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کی کوششوں کو’’ وائسرے ‘‘ سے تشکیل دی جا رہی ہے ۔ کیونکہ ایک جانب افغان طالبان سے مذاکرات کے بعد اپنے ٹوئٹ پیغامات میں امریکا کے بجائے کابل انتظامیہ کی جانب زیادہ جھکاؤ اور کابل حکومت کی جانب سے مذاکرات میں شرکت کی ناکامی پر دونوں جانب سے زلمے خلیل زاد کو تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ایک جانب مذاکرات کا دور جاری ہے اور مثبت و کارآمد مذاکرات کے لئے پیش رفت میں سست روی افغان عوام میں ڈیپریشن کا سبب بن رہے ہیں تو دوسری جانب جنگ بندی نہ ہونے کے سبب عام شہریوں کی ہلاکتوں میں بڑی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ خاص کر عام شہریوں کی ہلاکتوں میں معصوم بچوں کی بڑی تعداد کا افغان سیکورٹی فورسز کی جانب سے نشانہ بنانا سنگین ترین مسئلہ بن چکی ہے۔ عالمی ادارے تواتر سے نشاندہی کررہے ہیں کہ افغان سیکورٹی فورسز کے طیاروں کی بمباریوں سے عام شہریوں کی ہلاکتوں میں تشویش ناک تک اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ جس پر خود اقوام متحدہ کی جانب سے بھی تشویش کا اظہار کیا جاچکا ہے۔ہلمند، فاریاب، پکتیا،غزنی اور میدان وردگ میں بمباریوں، چھاپوں اور براہِ راست فائرنگ میں درجنوں شہری جاں بحق، جب کہ متعدد کو زخمی ہوچکے ہیں۔اس کے علاوہ کئی گھر تباہ بھی کیے گئے ہیں۔افغان سیکورٹی فورسز کی جانب سے حملے کے جواز کا موقف ہوتا ہے کہ متعلقہ علاقے میں’’ طالبان‘‘ موجود تھے، جس کے جواب میں یہ کارروائی کی گئی۔ تاہم اس جواز کو مسترد کردیا جاتا ہے کہ حالانکہ رات کی تاریکی میں گھروں میں گھس کر بچوں کے سامنے والدین کو قتل کرنا معصوم بچوں کو ماں کی گود میں ہی نشانہ بنا کر قتل کرنے جیسی کارروائیاں بتا رہی ہیں کہ حملہ طالبان پر نہیں، بلکہ براہ راست شہریوں پر کیا جاتا ہے۔

ایسے کئی واقعات میں ثابت ہوچکا ہے کہ افغان سیکورٹی فورسز غلط اطلاعات پر بھی کاروائیاں کر جاتی ہے جس پر افغان طالبان احتجاج کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’کابل کی کٹھ پتلی حکومت خود کو عوام کی نمائندہ سمجھتی ہے۔ پیش آنے والے سانحات میں درجنوں افراد ایک ہی خاندان کے شہید ہو جاتے ہیں۔ اس پر کسی قسم کا مزاحمتی بیان تک جاری نہیں کیا جاتا۔ چہ جائیکہ اسے روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ دوسری جانب فلوریڈا کے نائٹ کلب حملے میں ہلاک ہونے والے امریکی ہوں یا بگرام میں امریکی فوجی کی ہلاکتیں ہوں، ان پر تعزیتی پیغام اور امریکی عوام سے اظہار یکجہتی کرنا اشرف غنی اپنا فرض سمجھتے ہیں۔عام شہریوں کو نشانہ بنانا ناقابل معافی جرم ہے۔ اسلام اور انسانیت کے سب سے بڑے دشمن اپنی بہادری دکھانے کے بجائے اس کا تجربہ شہریوں پر کرتا ہے۔ وہ خواتین کو معاف کرتا ہے نہ بچوں اور بزرگوں کو جینے کا حق دیتا ہے۔‘‘افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (یوناما) نیشہری نقصانات کے متعلق رواں سال میں سہ ماہی رپورٹ شائع کی،جس میں جنگ جاری کے سویلین نقصانات کی اعداد وشمار اور خسارات کے عاملین کا تذکرہ کیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق عام شہریوں کے ہلاکتوں میں تشویش ناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اگر یوناما رپورٹ کے علاوہ افغانستان کے حالات کا اجمالی جائز ہ لیا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان میں مسلسل جنگ سے افغان عوام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے ۔ دیہات و خاندان اجڑ رہے ہیں ، ہلاکتوں میں خواتین ، بچے بزرگوں اور نوجوانوں کی کوئی تفریق نہیں جاتی۔

یوناما رپورٹس مرتب کرکے مہینے یا سال کے اعداد وشمار جمع کرتا ہے لیکن اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم کا انسانیت کے بنیادی حقوق اور جنگ سے نہتے افراد کی ہلاکتوں و نقصانات کو روکنا بنیادی کام ہے لیکن ذیلی تنظیم کا کام صرف اعداد و شمار جمع کرنے کی حد تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔یوناما حکام کو افغانستان میں جنگ سے نہتے شہریوں و مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے موثر اقدامات و غیر جانبداری سے تحقیقات کی ضرورت دوچند ہوجاتی ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے اقوام متحدہ کے دیگر اداروں کی طرح افغان عوام کی حفاظت میں ناکامی زیادہ نظر آتی ہے۔یوناما حکام کو افغانستان کے ان علاقوں میں رونما ہونے والے جنگی جرائم کے بارے میں تحقیقات کرنی چاہیے، جو روزانہ امریکی چھاپوں اور بمباریوں کا گواہ ہیں۔ یہ علاقے بہت دور بھی نہیں ہے،بلکہ یوناما کے مرکزی دفتر (کابل) سے تھوڑے فاصلے پر لوگر، ننگرہار، میدان، پکتیا اور غزنی کے دیہی علاقوں میں شب و روز یہی جرائم انجام ہورہے ہیں۔ ڈرون حملوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ عام شہریوں کے گھروں، مساجد اور گاڑیوں پر بمباریاں کی جارہی ہیں۔یوناما کو رات کے چھاپوں کے متعلق تحقیقات کرنے چاہیے،یہ کاروائیاں کس کی جانب سے کن اصولوں کی رو سے ہورہے ہیں؟ ان کاروائیوں میں کیا رونما ہورہے ہیں؟ عوام پر کتنے مظالم ڈھائے جارہے ہیں؟ ان مظالم کے قربانی کون ہیں؟ اور اب تک افغان عوام کو کس سطح تک جانی، مالی نقصانات اور نفیساتی امراض میں مبتلا کیے ہیں۔شہری نقصانات کے حوالے سے یوناما نے تازہ ترین رپورپ شائع کی، جو ملک میں امریکی غاصبوں اور کابل انتظامیہ کی سیکورٹی فورسز کی جانب سے بھی زیادہ تعداد میں شہری نقصانات کی کثرت کو ظاہر کیا گیا ہے۔اقوام متحدہ کو نہتی عوام کے تحفظ کے لئے اقدامات کو ترجیح دینی چاہیے۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 399 Articles with 263338 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.