انسان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اشرف المخلوق ہے ،
انسان جیسا دماغ خدا نے کسی اور ذی روح کو نہیں دیا ،وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔
ایسی باتیں سننے میں تو بہت اچھی لگتی ہیں لیکن زندگی کے جبر اور تلخی سے
مقابلہ ہو تو بے معنی الفاظ سی یہ باتیں اذیت کے سوا کچھ نہیں دے پاتیں۔
مبین نے افسردگی سے اپنے استاد شاکر حسین سے کہا ،جو اسے کچھ کر جانے کا
حوصلہ دیا کرتے تھے۔
مبین ایک چھوٹی سی بستی کے چھوٹے سے گھر میں بڑے بڑے سپنوں کے ساتھ جینے
والے لوگوں میں سے تھا ،جنہیں بچپن میں کسی بڑ ے نے کہانی سنا دی ہو کہ وہ
محنت سے کچھ بھی حاصل کر سکتے ہیں ۔مبین نے ہوش سنبھالا تو اخبار بیچنے کے
ساتھ ساتھ تعلیم کا حصول جاری رکھا۔ اس کے سر پر اس کے استاد شاکر حسین سے
دست شفقت رکھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ایک ہوٹل میں کھانا دینے والے (چھوٹو )نےبی
اے کی تعلیم حاصل کر لی تھی لیکن ڈگری لیے مارا مارا پھر رہا تھا۔ اسے کوئی
نوکر ی نہیں مل رہی تھی۔
اس کے ساتھ کے لڑکے ،جو ان پڑھ ہونے کے باوجود ،کوئی موٹر میکینکل تھا تو
کوئی کلی ،کوئی بس ڈرائیور تھا تو کوئی ،رکشہ چلانے لگا تھاسب کے سب اسے
مذاق سے کہتے ،ارے یار مبین تجھ سے تو ہم اچھے رہے ۔ تیری تعلیم اور ڈگر ی
کس کام کی۔ دو سال تک دھکے کھانے کے باوجود اسے کہیں کوئی کام نہیں ملا تو
اسے بھی مایوسی نے گھیر لیا۔
اداس دل کے ساتھ جب وہ اپنے استاد کو اپنے خوابوں کے ٹوٹ جانے کا بتاتا تو
وہ اسے تسلی دیتے۔ شاکر حسین نے اسے مذید تعلیم حاصل کرنے کے لیے ترغیب
دیتے ہوئے کہا۔ دیکھو مبین اگر فی الحال تمہارے ستارے گردش میں ہیں تو کوئی
بات نہیں ، تم چراغ سمیٹےرہو ۔ جب تمہیں روشن کرنے کا موقع ملے گا تو روشنی
تمہارا مقدر ہو گی۔ ایک دن تمہارا مستقبل ایسا شاندار ہو گا کہ تمہارے
دیکھے ہوئے خوابوں سے بھی بہت آگے لے جائے گا۔
مبین نے افسردگی سے کہا۔ سر آپ کو یقین ہے کہ مجھے روشنی کرنے والوں میں
جگہ ملے گی۔ مجھے تو لگتا ہے کہ میرے چراغ کسی کچرے کے ڈھیر میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں شاکر حسین نے روکتے ہوئے کہا۔ ایک لفظ اور نہیں ۔
ہماری سوچ ہمارا مقدر بنا تی ہے مبین ۔ تم اگے تعلیم جاری رکھو۔ کوئی بھی
کام چھوٹا بڑا نہیں ہوتا ۔ جب تک تمہیں تمہاری خواہش سے مناسبت رکھتا ہوا
کام نہیں ملے ،کسی بھی کام کو چھوٹا نہ سمجھو۔
مبین نے افسردگی سے کہا۔ میرے سب خاندان والے میرا مذاق اُڑاتے ہیں ۔ میرے
پڑھنے لکھنے پر ہنستے ہیں ۔ انہیں لگتا ہے کہ میں پاگل ہوں ۔ پڑھائی پر
اپنی محنت کا پیسہ ضائع کرنا بے وقوفی ہے ۔
شاکرحسین نے مسکرا کر کہا ۔ ہیرے کی قدر جوہری جانتے ہیں ۔ تعلیم صرف
روزگار کا زریعہ نہیں ہے۔ یہ تو پیغمروں کی میراث ہے۔ اس سے دماغ کو جو قوت
ملتی ہے ،اس کو کیا تم نے کبھی محسوس نہیں کیا۔ شاکر حسین نے مسکراتے ہوئے
کہا۔ مجھے دیکھو اگرچہ سکول میں پڑھانے والا استاد ہوں ۔ تم میرے پاس بی اے
کرنے کے بعد بھی مشورہ کے لیے آتے ہو۔ پچھلے سال ہی میں نے ایم ۔اے کیا ہے
اور آگے ایم فل کر رہا ہوں ،تم جانتے ہو، مبین میں نے ایم ۔اے بہت مشکل سے
کیا۔ جب میرے امتحان ہو رہے تھے تو میری ماں کا انتقال ہو گیا۔ سب نے کہا ،
ماں کی چارپائی چھوڑ کے امتحان دینے چلا گیا۔ میں نے امتحان بھی دیا اور
واپس آ کر ماں کے جنازے کو کندھا بھی۔ شاکر حسین کی انکھوں میں دیکھ کر
مبین نے کہا۔ سر آپ ابھی بھی سکول ٹیچر ہی ہیں ۔ ایم اے کرنے کے بعد بھی
آپ کو کیا حاصل ہوا۔
شاکر حسین نے مسکرا کر مبین کو دیکھا اور بولے۔جو سوال تم مجھے سے کر رہے
ہو ،اس سوال کا جواب دینے کا ہنر ملا ہے مجھےاور مجھے یقین ہے کہ ایک دن
معاشی طور پر بھی خوشحالی آئے گی۔ جب میں پی ایچ ڈی کر لوں گا۔ مبین نے
کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ سر اس کے لیے تو بہت سارا پیسہ چاہیے ہو گا۔ وہ کہاں
سے لائیں گئے۔ شاکر حسین نے اپنے ہونٹ کو کاٹتے ہوئے کہا۔ میری چھوڑو۔ تم
اگر محنت کرو تو سکالر شپ حاصل کر سکتے ہو اور پھر آگے پڑھ کر اپنے سارے
خاندان کا منہ بھی بند کر سکتے ہو۔ کہنے والے تو کہتے ہی ہیں ۔ اس دنیا میں
سب سے آسان کام فالتو کی باتیں کرنا ہیں ۔
مبین نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔ ٹھیک ہے سر میں بھی پڑھنا نہیں چھوڑوں
گا ۔ شاہد کہ میرے خواب بھی حقیقت بن جائیں ۔ شاکر حسین نے اس کی پیٹھ
تھپتھپائی،مبین ایک نئے جذبے سے اپنے استاد کی باتوں کو ذہن میں لیے گھر
آیا ۔ کچھ دن بعد اس نے ایم ۔اے کا داخلہ لے لیا۔ وہ ہر وہ کام کر لیتا
،جو اسے دوسروں کی محتاجی سے بچا سکتا تھا۔ اس کے بہن بھائی حیران ہوتے تھے
کہ سارا دن محنت مزدوری کے بعد وہ رات دیر تک پڑھتا رہتا۔ جب اس نے ایم ۔اے
میں ٹاپ کیا تو اسے خود یقین نہیں ہو رہا تھا کہ اسے سکالر شپ مل گئی
تھی۔وہ ان چند لوگوں میں سے تھا جسے دوسرے مل جا کر ڈگری کے حصول کا موقع
ملتا ہے۔ شاکر حسین کے گھر جب وہ مٹھائ کا ڈبہ لے کر گیا تو وہ بہت بیمار
تھے۔مبین نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا،سر اگر آپ مجھے مشورہ نہ دیتے تو میں
اپنی تعلیم کو خیر آباد کہہ دیتا۔میں کبھی پی ایچ ڈی کرنے کا خواب نہ
دیکھتا۔آپ کے کہنے پر میں نے کافی رقم بھی جمع کی تھی۔ کل دن کو میں جا
رہا ہوں ، آپ میرے حق میں دعا کرنا سر۔ شاکر حسین نے مبین کا ہاتھ پکڑ کر
کہا۔ میری ہر دعا تمہارے ساتھ ہے۔ میرا ایک کام کرو گئے مبین۔
مبین نے کہا ،کیوں نہیں سر۔ آپ بتائیں ۔ شاکر حسین نے اپنی کمزوری سے بند
ہوتی ہوئی انکھوں سے کہا۔ جب تم کسی مقام پر پہنچ جاو تو کسی نہ کسی کو
ضرور خواب دیکھنا سکھانا۔ اپنے جیسے کیسی کو وہ راہ ضرور دیکھانے کی کوشش
کرنا جو میں نے تمہیں دیکھائی ہے۔ مبین نے ان کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ
دوسروں تک محنت کی عظمت اور تعلیم کی اہمیت کا پیغام ضرور پہنچائے گا۔
دوسرے دن صبح صبح مبین کو پتہ چلا کہ شاکر حسین کا انتقال ہو گیا ہے۔ اپنے
ہر دل عزیز استاد کے جنازے کو کندھا دینا اس کے نصیب میں نہیں تھا۔ اسے جو
ٹکٹ دیا گیا تھا،وہ اسے چھوڑ نہیں سکتا تھا۔اس نے روتے ہوئے اپنے استاد کا
آخری دیدار کیا اور انہیں چھوڑ کر نکل گیا۔
مبین جہاز میں بیٹھا تھا۔ اسے شاکر حسین کے ساتھ گزرے ہوئے سکول کے دنوں کی
یادیں گھیرے ہوئے تھیں ۔
نوجوان ٹیچر، شاکر حسین نے کلاس ختم ہونے کے بعد مبین کو اپنے پاس بلایا
اور اسے ساتویں کلاس میں فسٹ آنے پر ایک رسالہ دیا تھا۔ مبین کو ان کے
ہاتھ کی حرارت اپنے سر پر محسوس ہوئی۔انہوں نے حکم دینے کے انداز میں کہا
تھا مبین رسالہ پڑھنا لیکن پڑھانی کو نظر انداز نہیں کرنا۔ شاکر حسین کی
مسکراہٹ اس کی نگاہوں میں گھوم گئی۔
اس نے اپنا ہینڈ بیگ کھولا اندر سے ایک پرانا سے رسالہ نکالا۔ اس رسالہ کی
ایک نظم نے مبین کو بہت سے سوال کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ نظم پڑھنے کے
بعد شاکر حسین کے پاس چھٹی کے وقت پہنچ گیاتھا۔ اس نظم کا مطلب پوچھا تو
انہوں نے کہا تھا ۔ تم شام کو گھر آ جانا۔ مبین پہلی دفعہ جب ان کے گھر
پہنچا تھا تو انہوں نے پیار سے اسے اپنے پاس چار پائی پربٹھایا۔ شاکر حسین
نے پیار سے کہا ،بولو بیٹا بولو ۔ کون سی نظم کا پوچھنا ہے ۔ پڑھو ذرا!
مبین نے نظم پڑھنا شروع کی۔
نظم
کوہلے نے ہیرا بننے کی ٹھانی
کوہلے پر سب ہنستے تھے
جو اس سنگ بستے تھے
اسے ستایا جاتا تھا
اس پر چلایا جاتا تھا
وہ ظلمات کا بیٹا ہے
ا س کو سنایا جاتا تھا
اک روز وہ خود سے ہٹ گیا
اندر ہی اندر کٹ گیا
اس کا باطن ہوا عیاں
کالا پن جھٹ گیا
وہ خاموش بیٹھا تھا
روشنی باتیں کرتی تھی
اس پر چلانے والوں پر
اس کی کرنیں ہنستی تھی
اس نے جو ٹھانی تھی
اس نے وہ پایا تھا
اس کا اصل ،اس کی محنت سے
نکھر کر سامنے آیا تھا
سارے کوہلے کہتے پھرتے تھے
معجزے تو ہوتے ہیں
چلو مل کر سوتے ہیں
ایک کوہلے نے ہیرے سے پوچھا
معجزے کیسے ہوتے ہیں
ہیرے نے روشنی بکھیرتے ہوئے کہا
جب لمحے بامقصد ہوتے ہیں
تب ہی معجزے ہوتے ہیں
پھر کوہلے نے ہیرا بننے کی ٹھانی
شاکر حسین نے مبین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ اس میں کیا مشکل ہے ۔ کیا بات
سمجھ نہیں آئی بیٹا۔مبین نے دھیرے سے کہا ، سر یہ لمحے بامقصد کیسے ہوتے
ہیں؟شاکر حسین نے مسکراتے ہوئے کہا۔ تمہیں بھی ہیرا بننا ہے کیا؟انہوں نے
شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ بیٹا لمحے اس وقت بامقصد ہوتے
ہیں ۔ جب ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ ہمیں کس سمت اورکہا ں جانا ہے۔ ہماری منزل
کیا ہے اور کس راستہ سے ہم اپنی منزل تک پہنچ سکتے ہیں ۔ جب کوئی کسی مقام
کو محنت سے حاصل کر لیتا ہے تو اس کے ارد گرد کے لوگوں کو اکثر یہی لگتا ہے
کہ یہ اس کی اچھی قسمت ہے ۔ انہیں اس محنت کا ادراک نہیں ہوتا جو اس فرد نے
اس مقام کو پانے کے لیے کی ہوتی ہے۔ یہ نظم بھی فرد کو محنت سے خود کو
سنوارنے کی دعوت دیتی ہے۔
مبین نے اثبات میں سر ہلایاتھا۔ماضی کیسے ایک کہانی کی صورت دماغ کے گوشوں
میں رہتا ہے۔ مبین نے انکھیں کھولیں ۔ وہ کافی بلندی پر تھا۔ اس پر ہنسنے
والے بہت پیچھے رہ گئے تھے۔ اس نے اپنے چہرے پر بہہ جانے والے آنسووں کو
صاف کیا۔اسے بے وقوف کہنے والے ،آج اسے خوش قسمت کہہ رہے تھے۔اسے اپنی
خالہ کے الفاظ بھی کانوں میں گونجتے ہوئے سنائی دیئے۔ مبین کا تو نصیب اچھا
ہے، بس رب جس پر مہربان ہو جائے۔
مبین کی امی نے کہا ۔ ہاں ہاں آپ بلکل ٹھیک کہہ رہی ہیں ۔ میرےچھ بچوں میں
سے مبین ہی ہے۔ جس نے پڑھا ہے۔ ہماری تو سات نسلوں میں کوئی باہر نہیں گیا۔
مجھے تو لگتا ہے یہ کوئی معجزہ ہے۔ یقین ہی نہیں آتا ۔ مبین میرا بیٹا ہے۔
میرا بیٹا اور اتنا لائق کہ پڑھائی کے لیے ولائت جا رہا ہے ۔اسے اپنی ماں
کا آنسوپونچھنا یاد آیا ۔ساتھی مسافر نے مبین سے پوچھا ۔ خیریت تو ہے۔
آپ رو رہے ہیں ۔ مبین نے اپنی سوچوں کو جھٹکتے ہوئے کہا۔ ہم خوشی اور غم
دونوں میں ہی روتے ہیں ۔ اس نے یہ کہہ کر اپنی انکھیں بند کیں اور سر سیٹ
پر ٹیکا لیا۔
روشن مستقبل اس کا منتظر تھا۔
|