بات یہ نہیں تھے کہ ستر میں اگر میڈیا آزاد ہوتا تو
پاکستان نہ ٹوٹتا۔آئی ایس پی آر کے سابق ڈی جی عاصم باجوہ سینٹوریس کے چائے
خانے میں مل گئے میں نے کہا میں فوج کا شدید حمائتی ہوں لیکن کبھی کبھی
مخالفت بھی کرتا ہوں کہنے لگے چودھری صاحب فوج ہر وقت صیح بھی نہیں ہوتی۔سچ
پوچھیں ڈی جی آئی ایس پی آر کی طویل پریس کانفرنس نے آج ایک کٹھ پتلی اور
ملک دشمن کو معروف کر دیا پہلا کام میرے قائد نے پی ٹی ایم کا نام لے کر
کیا کہ وہ سیدھے راستے پر چلے اور دوسرا جنرل آصف غفور نے۔میں پچھلے ہفتے
وائس آف امریکہ پر تھا وہاں یہ سوال اٹھایا گیا کہ منظور پشتین سے مذاکرات
کب ہو رہے ہیں جواب دیا کون منظور پشتین پختونوں کے نمائندہ تو ہم پی ٹی
آئی والے ہیں یہ کہاں سے آ گیا۔
اس پروگرام کا کلپ اگر مل گیا تو شیئر کروں گا۔سامنے بیٹھے حامد میر نے
سوال داغ دیا کہ کیا ہم اپنے پروگراموں میں منظور پشتین کو بلا سکتے ہیں ؟حامد
میر نسلی پاکستان دشمن ہے اس کے والد وارث میر سقوط ڈھاکہ کے وقت پنجاب
یونیورسٹی کے شعبہ ء صحافت کے ہیڈ تھے انہوں نے بنگلہ دیش کی آزادی میں بڑا
کردار ادا کیا شائد یہی وجہ تھی کہ حامد میر اپنے والد کا ایوارڈ لینے
ڈھاکہ گئے۔اس وقت کا میڈیا بھارتی آکاشوانی تھی جنرل غفور سے گلہ ہے کہ کاش
وہ اس بڑے جھوٹ کی بات بھی کرتے کہ انڈیا نے مکتی باہنی کے روپ میں پاکستان
کے اندر گھس پیٹھ کیا۔قادر باہنی بنائی۔بلکہ یہ لوگ اس قدر پاکستان دشمن
نکلے کہ انہوں نے اپنے وزیر اعظم نہرو کو مجیب سے ملوایا اگر تلہ سازش ہوئی
اور مجیب جسے نواز شریف اور حامد میر محب وطن سمجھتے ہیں یہ 1962میں
پاکستان دشمنی میں اس کا آلہ کار بنا۔عاصمہ جہانگیر اور فیض کی بیٹی بھی
ایوارڈ لینے حامد میر کے ساتھ گئے ان سے تفتیش کی جائے جو زندہ ہیں ان سے
پوچھیں کہ پاکستان دو لخت ہونے کا ایوارڈ کیوں لیا حسینہ واجد ایک ڈائن ہے
وہ ان لوگوں کو پھانسیاں چڑھا رہی ہے جنہوں نے دسمبر کی سرد راتوں میں
بنگلہ دیش کے پانیوں میں موت کو گلے لگایا۔
مجھے دکھ اس بات کا بھی ہے کہ بنگلہ دیش میں مارے جانے والے اور پھانسیوں
کے جھولے جھول جانے والوں کے پیچھے کوئی نہیں کھڑا ہوا۔بھارت نے ایک آزاد
ملک میں در اندازی کی تھی اس وطن کے بیٹے اپنی دھرتی ماں کے دفاع کے لئے
باہر نکلے تھے۔میں بار بار ضیاء شاہد کی کتاب کا حوالہ کیوں دیتا ہوں کہ جس
میں نہرو کی سازش کا ذکر ہے جس میں بتایا گیا کہ بنگلہ دیش بننے سے کئی سال
پہلے بھارتی سفارت کار مجیب کو اپنی انگلیوں پر نچاتے رہے تھے۔
کاش کوئی جنرل صاحب کو یہ کتاب دے دے یا وہ سلیم منصور خالد کی کتاب البدر
پڑھیں تو انہیں علم ہو گا کہ بھارتی فوجیوں نے مکتی باہنی کی شکل میں گھس
کر پاکستانیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔معروف کالم نگار آصف محمود کو
پڑھئے۔خدا را ان ان کئے گناہوں کو اپنے ذمے نہ لیجئے۔پاکستان پریس کی
پابندیوں کی وجہ سے نہیں ٹوٹا یہ چوبیس برس کی فرد عمل تھی۔وہ ایک الٹی طرف
کی جیب تھی جسے چودھری رحمت علی نے بانگستان کے نام سے تجویز کیا تھا۔وہ
لوگ پاکستانی تھے اور ہم سے زیادہ پاکستانی تھے ۔پاکستانی پریس نے حقائق
لکھے سینئر صحافی الطاف حسین قریشی زندہ ہیں کاش آپ انہیں بلاتے اور وہ
بتاتے کہ محبت کے بہتے زمزموں میں زہر کس نے گھولا تھا-
جناب آصف غفور صاحب !حامد میر کو کہہ دیتے کہ منظور پشتین اور اس کے چند
حواری پاکستانی آئین کو نہیں مانتے ۔فوج اور عدلیہ کا احترام آئین کا حصہ
ہے اور وہ یہ نعرہ لگاتے ہیں یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے۔بڑی
مشکل سے اچکزئی کے غبارے سے ہوا نکلی تھی اب یہ پشتین نامی فتنہ اٹھا ہے
اور سچ پوچھیں اس فتنے کے پیچھے عالمی سازش ہے بھارت ہے اچکزئی ہے نواز
شریف ہے۔آپ ان کے لاہور جلسے کو دیکھ لیں بھارت سے نپٹنا ایک الگ معاملہ ہے
لیکن یہ اندر آستینوں کے سانپوں کا کیا ہو گا۔ہاں کیا خوبصورت جواب دیا
جنرل صاحب نے کہ نقیب اﷲ محسود کے قتل میں ملوث راؤ انوار کس کا محبوب
ہے۔حضور سب کچھ جاننے کے باوجود فوج اپنا کردار کیوں نہیں ادا کرتی؟
مسنگ پرسنز کی جب بات ہوتی ہے تو کیا صرف پشتون مس ہوئے ہیں ان میں پنجابی
بھی ہیں سندھی بھی اور بلوچی بھی کیا اچھا جواب تھا کہ لسٹیں دیں جو چار
پانچ ہزار افغانستان می بیٹھے ہیں پھر ہم ان لسٹوں سے یہاں کے مسنگ پرسنز
کا تقابل کریں گے بشارت فضل عباسی بھی موجود تھے ان سے پوچھ لینا تھا کہ
آمنہ مسعود جنجوعہ نے خبریں اسلام آباد میں بیٹھ کر کیا انٹر ویو دیا تھا
اس نے ببانگ دہل کہا کہ مسنگ پرسنز کے پیچھے فوج نہیں ہے اور ہم پاک فوج کے
ساتھ ہیں۔وہ انٹرویو بشارت فضل عباسی کے پاس ہے میں چاہوں گا کہ چیف خبریں
جناب ضیاء شاہد اس انٹریو کو چھاپیں ہیومن رائٹس ڈیفین پاکستان کی سربراہ
محترم آمنہ مسعود جنجوعہ سے پوچھیں کہ کون کون مس ہے کیا اس کا قصور یہ ہے
کہ یہ پنجابی ہے۔سچی بات یہ ہے کہ کچھ لوگ خریدے گئے اور ٹی ٹی پی کے ذریعے
انڈیا کے ہاتھوں افغانستان پہنچے چائینہ ایمبیسی کراچی کا اسلم کہاں سے آیا
تھا؟یہ مسنگ پرسنز کی لسٹ میں موجود تھا۔
منظور پشتین آج بغلیں بجا رہا ہو گا ۔میں نے وائس آف امریکہ کی اینکر کو
کہا تھا کہ اس ملک پاکستان کو جینے کیوں نہیں دیتے ہو ہم مہنگائی بے
روزگاری سے لڑ رہے ہیں اور تمہیں پشتین کی پڑی ہے۔بھلا ہو بریگیڈیئر محمود
شاہ کے کہ اس نے ٹکاسہ جواب دیا کہ مائینیں لگانا اور ہٹانا یہ فوج کے
بائیں ہاتھ کا کام اگر اس نے لگائی ہوں ان وطن فروشوں سے ایک سوال ہے کہ
وانا سوات اور وزیرستان کو کلیئر کرانے میں جو فوجہ شہید ہوئے ان کا خون کس
کے ذمے ہے۔مالم جبہ جس کی سیر ہو رہی ہے وہاں کس کا راج تھا ملا ریڈیو کی
حکومت کا خاتمہ کس نے کیا۔
حضور فوج کو گالی مت دینے دیں۔سچ پوچھیں اگر لوگ مس کرنے ہوتے تو سب سے
پہلے جو لوگ فوج پر بھونکتے ہیں وہ مس ہوتے۔
پاکستانی فوج نے جس دلیرانہ انداز سے حامد میر اور سلیم صافی کا منہ بند
کیا ہے وہ اپنی جگہ لیکن حامد میر سے قوم سوال کرتی ہے کہ تم کس فولاد کے
بنے ہو کہ آٹھ گولیاں کھا کر بھی سلطان راہی کی طرح بڑھکیں مارتے ہو۔دھن
حوصلہ ہے اس فوج کا جس کے جرنیل کا ٹی وی پر چوبیس گھنٹے ٹرائل ہوتا رہا
اور جو چینیل کرتا رہا اس کے حامد میری کو اگلی صف میں بٹھایا۔
نبیل چودھری میرا بیٹا ہے اس نے کیا خوب ٹویٹ کیا تھا کہ جنرل غفور صاحب آپ
اسی بندے کو بلاتے ہیں اسی کے سوالوں کا جواب دیتے ہیں جو آپ کی کردار کشی
کرتا ہو۔جس کا جواب اسے پیار بھرا ملا میں یہ نہیں کہتا کہ مجھے بلایا جاتا
لیکن کاش آج آپ اگر سردار خان نیازی کو بلا رہے تھے تو ضیاء شاہد الطاف حسن
قریشی اور مجیب الرحمن شامی کو بھی بلاتے اور انجینئر افتخار کو بھی جو ستر
کی جنگ کے دوران شہری دفاع کا رضا کار بن کر راتوں کو باغبانپورے کی گلیوں
میں سیٹیاں مارتا رہا۔انہیں کیا معلوم کے وطن کیا ہے جن کے بڑے پاکستان کو
گالی دینے کے پیسے لیتے رہے وہ کیا جانیں پاکستان کیا تھا۔
خوش رہیں ّآباد رہیں لیکن ان سنپولیوں کا سر اسی طرح کچلیں جس طرح کراچی
میں لسانیت پرست انڈین نواز فہیم کمانڈو بھولا کانا اور اس طرح کے ہزاروں
کن ٹٹوں سے نپٹا گیا۔مجھے فوج سے پیار اس لئے کہ میرے عزیز فوجی ہیں میں تو
خود جنرل مشرف اور جنرل درانی کا ڈسہ ہوا ہوں لیکن مجھے یہ علم ہے کہ میرے
وطن کا یہ واحد ادارہ ہے یہ اگر کمزور ہوا تو میری نسلیں در بدر ہو جائیں
گی۔
ہم نے اس فوج کے پشتیبان ہونے کے ناطے اس کی کنڈ نہیں لگنے دینی۔پشتینی
شیطانی قوت کو علم نہیں کہ پنجابی پشتون لڑائی نہ کرائے پاکستان کے کونے
کونے میں پشتون آباد ہیں میں تو اس دن شیخ رشید سے کہہ رہا تھا کہ ایک وقت
آئے گا پنڈی کی قومی زبان پشتو ہو گی ہم آپس میں شیر و شکر ہیں اگر کسی
سازش کے تحت پشتون پنجابی کو لڑایا گیا تو پاکستان تباہ ہو گا۔
نفرت آگ اور عصبیت کے حامل ان سنپولیوں سے ایسے ہی نپٹا جائے جیسے کراچی
میں انڈین آلہ کاروں سے نپٹا گیا تھا۔ہمیں اس بات سے رتی برابر خوف اور ڈر
نہیں کہ انڈیا اور افغانستان میں بیٹھے انڈین نواز پاکستان کی سالمیت کو
ضرر پہنچائیں گے۔ حکومت پنجاب سے مطالبہ کرتا ہوں کی نہر کنارے ایک انڈر
پاس کا نام وارث میر رکھا ہے اسے تبدیل کیا جائے وہ شخص ملک دشمنی کا نشان
ہے - |