سیری نالا بان سے لیا گیا اقتباس (یاداں)
سیری اڈہ جو آج پکا ہو کر بھی جوہڑ لگتا ہے جب کچا ہوتا تھا تب اس کی یوں
وگرگوں حالت نہ تھی بلکہ بارش کے فورآ بعد دکاندار کرسیاں یا ٹین کنستر
اٹھا کر باہر بیٹھ جاتے تھے. بارش کا پانی سڑک پر پڑے چھوٹے موٹے پتھروں کے
درمیان سے روانی کے ساتھ بہتا رہتا تھا. سڑک کے دونوں کناروں پر لگی کرسیوں
پر بیٹھے ڈرائیور کلینر کرسیاں کسکاتے ہوئے ایک دوسرے کے نزدیک یوں ہو جاتے
کہ سڑک کے عین وسط میں آ جاتے. سگریٹ سلگاتے کش لیتے جس کے سگریٹ ختم ہو
جاتے وہ سگریٹ کی ڈبی سے کلی( چمکیلا کاغذ) نکالتا اس کی کشتی بناتا اور
بہتے پانی میں چھوڑ دیتا. دیکھا دیکھی جس کے اپنی ڈبی خالی نہ ہوتی وہ
اٹھتا اور آگے پیچھے دیکھتے ہوئے ڈبی ڈھونڈ لاتا اور کشتی بنانے لگ جاتا.
اتنی دیر تک بہتے پانی کی رفتار کم ہو جاتی تو وہاں بیٹھے ہوئے ڈرائیوروں
میں سے ایک ڈرائیور جسے لوگ گلو جی کہا کرتے تھے وہ کہتا تُو ہن سنبھالی
رکھ اغلے بدلاں توڑی. سواریاں کم ہوا کرتی تھی جن لوگوں کو آنا جانا ہوتا
تھا وہ تو صبح سویرے ہی چلے جاتے تھے. ڈرائیور کلینر یُوں ہی اڈے کی رونق
بنے رہتے.
پڑاٹی اور درگوٹی کراس کے لوگ شاید کچھ اور کام بھی کرتے ہوئے ہوں گے لیکن
اکثریت میں ڈرائیوری کے شعبے میں یہی لوگ پائے جاتے تھے. ہم نے جب سے ہوش
سنبھالا استاد اقبال استاد نثار ان دونوں کے ساتھ پہاپا کا اضافی لفظ بھی
لگتا تھا بلکہ استاد نثار زیادہ عرصہ تک سائیں نثار کے نام سے مشہور رہے
ہیں. یہ دونوں بھائی تھے اور آگے ان کی اولاد اور دوہتر پوہتر بھی ڈرائیور
ہی ہیں. پہاپا اقبال پبلک ٹرانسپورٹ چھوڑ کر ٹریکٹر ٹرالی سے وابستہ ہو گئے
تھے لیکن پہاپا نثار زندگی کی آخری سانسوں تک بس ہی چلاتے رہے. انہی کراس
کے راجپوتوں میں سے ایک ڈرائیور ضیاء بھی ہوا کرتا تھا لیکن اس کا اصلی نام
یعقوب ہے یہ ہمیں پہاپا نثار َسے معلوم ہوا کیونکہ آپ کی عادت تھی کہ جس کا
بھی نام لیتے پورا اور حقیقی نام لیتے. گلو کو بھی گلبہار وہی کہتے تھے جب
کہ وہ اپنے شعبے میں گلو نام سے مشہور تھا. لیکن گلو کی اپنی عادت یہ تھی
کہ وہ لفظ (ز، ذ) یا (ض) کو جیم میں بدل کر بولتا تھا. استاد نذیر نجیر
افضل جو اس وقت کلینر ہوا کرتا تھا اس کو افجل کہا کرتا تھا. لیکن یہ تھا
ہنستے ہوئے قہقہے بہت کم استعمال میں لاتا تھا. سگریٹ نوشی اور چائے کی
عادت ضرورت سے زیادہ تھی.
انسان جس بھی سوسائٹی میں رہتا ہو وہ وہاں اپنی ایک الگ پہچان بنا لیتا ہے.
یہ ایک فطری عمل ہے اس سے کسی کو انکار نہیں. یہی وجہ تھی کہ گلو بھی اپنی
سوسائٹی میں ایک الگ پہچان رکھتا تھا. اس میں بہت سی ایسی باتیں تھی جو کہ
اس فلیڈ کے لوگوں میں نہیں ہوتی.
ایک بار یوں ہوا کہ کچھ اسٹوڈنٹ دوران سفر سیٹوں کی پشت پر کچھ لکھ رہے تھے
جنھیں گلو استاد نے دیکھ لیا. گھوڑے شاہ دربار کے پاس گاڑی کھڑی کر کے کہنے
لگا یرا اک گل آخساں تساں کی، وہ اسٹوڈنٹ پن بند کر کے یوں بیٹھ گئے جیسے
کچھ کر ہی نہیں رہے تھے. لیکن چونکہ گلو استاد بقول اسی کے لمب(گرم) ہو چکا
تھا کہنے لگا تساں نی اس چترکاری ( فضول میں کچھ لکھنا) کی کل تساں نی ما،
پہن وی پڑھی سکنی اے. اس لیے مہربانی کر کے نیچے اپنا نام معہ ولدیت بھی
لکھ دینا تا کہ ان کو یہ پوچھنے کی ضرورت نہ پڑے کہ استاد جی یہ کس نے لکھا
ہے. باقی کی ایک دو باتیں زیر لب کہی جو میں سن نہ سکا لیکن یہ کہنے سے ان
لڑکوں کو اتنا اثر ہوا کہ کھوئی رٹہ پہنچنے تک وہ ہاتھ کی ہتھیلی رگڑ رگڑ
کر لکھا ہوا مٹا چکے تھے.
سیری اڈہ میں بیٹھے ہوئے گلو استاد کسی ایسے ہی موضوع پر بات کر رہا تھا وہ
اپنے طبقے کے لوگوں سے کہہ رہا تھا یار ہم ہر چیز کو الٹ کیوں لیتے ہیں.
ڈرائیور کلینر اگر حقیقی معنوں میں دیکھے جائیں تو محافظ ہوتے ہیں. چودہ
پندرہ لوگ آنکھیں بند کر ان پر بھروسہ کرتے ہیں. کبھی کسی نے نہیں پوچھا
استاد جی آپ کا لائسنس ہے کہ نہیں یا آپ کون ہیں کہاں سے ہیں. بلکہ وہ اتنا
بھروسہ کر لیتے ہیں جتنا وہ خود پر نہیں کرتے. اور اگر ہم لوگ(کلنیر
ڈرائیور) ان کے اس اعتماد کو ٹھیس پہنچائیں تو ہم سا بھی کوئی گھٹیا نہیں.
استاد گلو کی یہ باتیں سن کر صوفی محمد رزاق دکاندار اور شیر محمد مجاہد
داد دیے بغیر نہ رہ سکے. لیکن مجلس برخاست ہوتے ہی استاد جمیل پڑاٹی والا
ہنسی دباتے ہوئے کہنے لگا مولبی اُٹھ فیر ٹائم ہوئی گیا.
وہ مولوی نہیں تھا کوئی زیادہ پڑھا لکھا بھی نہیں تھا بس کچھ عادتیں ایسی
ہوتی ہیں جو خاندانی ہوتی ہیں. وہ نہیں چاہتا تھا کہ ہر وقت ہی مغلظات بکی
جائیں لاری اڈہ میں بیٹھ کر دن بھر لوگوں کے گھروں کو موضوع بنایا جائے .
اس کا یہی انداز اسے دوسروں سے منفرد کرتا تھا . وہ بڑی عمر کی عورتوں کو
بوا جی اور چھوٹیوں کو یوں گڈی کہتا جیسے ساری اس کی فیملی کی ہیں. اکثر
ڈرائیور اپنے کلینر کو رذالت کی باتیں کہتے تو گلو استاد کہتا یرو نہی چنگا
لغنا تے لائ شوڑو لیکن ایہا جیاں گلاں نہ آخو.
وہ بھی اپنے والد کی طرح پبلک ٹرانسپورٹ کو خیرباد کہہ کر ٹرک ڈرائیو کرنے
لگا ٹریکٹر بھی رکھا چھوٹے بھائی کو ویگن دے کر خود الگ سا ہو گیا. بیوپاری
مل جاتے تو چکر لگا لیتا نہیں تو ٹرک گھر کے پاس ہی کھڑا کر کے بھوری سی
چادر رکھ کر چارپائی پر بیٹھ جاتا. یار دوست کہتے کیا تم نے ٹرک لے لیا کہ
ہم سے الگ ہی ہو گے ہو تو ناک سے سگریٹ کا دھواں چھوڑتے ہوئے کہتا پہائی
ایکا پھیرا سوادلا جئیا لائی تے کھلی جاننے آں. اے روڈ ماسٹری کن کرے.
گھر رہنے سے محلے داری بھی نبھانے لگ گیا بلکہ آہستہ آہستہ راجپوتی چمکنے
لگی اب محلے برادری کے چھوٹے چھوٹے معاملاتِ بھی نھبٹانے لگا. ہمیشہ کی طرح
کی ٹھنڈی سی بات کرتا اور دوسرے کو منوا لیتا. گھر کے پاس سے ایک سڑک نکل
رہی تھی جس میں کئی دوسری برادری والوں کی زمین بھی آتی تھی وہ لوگ رضا مند
نہیں ہو رہے تھے. مسئلہ التواء میں پڑھنے لگا تو لوگ گلو استاد ( جو اب
مکمل راجہ گلبہار ہو چکا تھا) کے پاس آئے کہنے لگے راجہ جی کج تساں ہی کرسو.
ہنس کر کہنے لگا مہاڑی جتنی جغہ آئی اے دیہی شوڑی اے اور کہہ اخنے ہو. لوگ
کہنے لگے وہ تو ہے پر اگلی جغہ نہ کہہ ہوسی ہنس کر کہنے لگا اس جغہ نہے
مالکاں نال گل کرنی پیسی. لوگ کہنے لگے یہی تو ہم کہتے ہیں کہ آپ ان سے بات
کریں. سن کر کہنے لگا چلو کر لیتے ہیں. دوسرے دن چادر کندھے پر رکھے ہوئے
ان لوگوں کے گھر جا پہنچا. آنے کی وجہ بتائی تو اس گھر والے کچھ عذر پیش
کرتے ہوئے کہنے لگے راجہ جی جسطرح تساں نی مرضی. ان کی بات سن کر کہنے لگا
تکو حیاتی نا کوئی پتہ نہی پر تساں نی اے قربانی لوک یاد کرسن. آج وہ سڑک
پکی بھی ہو چکی ہے راجہ گلبہار خود تو نہیں رہا لیکن سڑک پر لگا بورڈ جس پر
راجہ گلبہار روڈ لکھا ہے گلو استاد کی یادیں تازہ کرا رہا ہے، کہ چٹے کپڑوں
کے کھلے کف کاندھے پر بھورے رنگ کی چادر اور چپل کی کھلی سٹرپ کے ساتھ
ڈھیلی ڈھالی سی ٹور کے ساتھ ہنستے مسکراتے آتا ہے اور کہتا ہے بھٹی جی آساں
کدوں سدا رہنا پر اے سڑک مہاڑی تے تساں نی یاد کرانی رہسی.
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ لوگ چلے جاتے ہیں مگر ان کے نام ان کے کاموں کی
وجہ سے یاد رہ جاتے ہیں.
میں آج بھی جب کبھی گاڑی کی کسی سیٹ پر کسی قلمکار کی تحریر دیکھتا ہوں یا
سیری اڈہ میں وہ جگہ جہاں آج حبیب بینک کی عمارت ہے دیکھتا ہوں تو اس کا وہ
لیکچر یاد آ جاتا ہے جس کے آخر میں استاد جمیل نے کہا تھا اُٹھ مولبی ٹائم
ہوئ گیا اے. |