ازبکستان میں پاکستان کے سفیر عرفان یوسف شامی ایک محب
وطن ،خوش اخلاق اور متواضع انسان ہیں۔ انہوں نے علماء ومشائخ کے وفدکی
زیارات ،ملاقاتوں ، سہولیات کی فراہمی اور انتظامات کے حوالے سے کوئی کسر
نہیں اٹھا رکھی۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی چونکہ ملتان سے تعلق
رکھتے ہیں اور ان کے علماء ومشائخ کے وفد کے سربراہ مولانا محمد حنیف
جالندھری سے ذاتی مراسم ہیں اس لیے انہیں جب وفد کے دورے کی اطلاع ملی تو
انہوں نے تاشقند میں پاکستانی سفیر کو جملہ انتظامات اور پروٹوکول کا مکمل
انتظام کرنے کی ہدایات جاری کیں۔صرف پاکستانی سفیر ہی نہیں بلکہ پاکستان
میں ازبک سفیر کے ساتھ مولانامحمد حنیف جالندھری،مولانا ڈاکٹر الیاس اور
گروپ آرگنائزرحافظ اقبال قریشی نے ملاقات کی تھی اس لیے وفد کے تاشقند ائر
پورٹ پہنچنے سے لے کر واپس ائر پورٹ تک تمام شہروں اور تمام مقامات پر
خصوصی انتظامات کیے گئے تھے ،نجی دورے کو سرکاری دورے کی حیثیت دی گئی تھی
،تمام مقامات پرپولیس اسکوارڈ ساتھ ساتھ رہی،صرف پولیس اسکوارڈ ہی نہیں
بلکہ جس شہر میں جاتے وہاں کے شعبہ امور دینیہ اور پروٹوکول کی الگ الگ
گاڑیاں ساتھ ہوتیں ،جس ادارے میں جاتے اس کا سربراہ استقبال کرتا اور یہ سب
کوآرڈینیشن پاکستانی سفیر عرفان یوسف اور پاکستان میں ازبک سفیر کی کوششوں
کی رہین منت تھی۔ علماء ومشائخ کے ازبکستان پہنچتے ہی تاشقند میں پاکستانی
سفارتخانہ پوری طرح علماء ومشائخ کی خدمت اور اکرام کے لیے جت گیا ۔عرفان
ہاشمی صاحب نے وفد کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب منعقد کی جس میں انہوں نے
جس خلوص ،محبت، اپنائیت اور علماء کرام سے نیازمندی اور ادب واحترام کا
مظاہرہ کیا وہ ناقابل بیان ہے ۔اﷲ رب العزت انہیں اس پر جزائے خیر
عطافرمائیں ۔پاکستان ایمبیسی میں منعقدہ تقریب میں حضرت مولانا محمد حنیف
جالندھری صاحب نے دیگر امور کے علاوہ ازبکستان سے طلب علم کی غرض سے
پاکستان کے دینی مدارس میں داخلے کے خواہشمند طلبہ کے ویزوں کا معاملہ بطور
خاص اٹھایا انہوں نے سفیر محترم سے کہا کہ وہ اس سلسلے میں لوگوں کے لیے
آسانیاں پیدا کریں اور ذاتی دلچسپی لے کر یہاں کے طلبہ کے لیے پاکستان کے
دینی مدارس سے حصولِ علم کے راستوں کو آسان کرنے کی کوشش کریں انہوں نے کہا
کہ یہ طلبہ پاکستان کے لیے بے لوث سفیر ہوتے ہیں اس لیے ان کا ہر ممکن
تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔مولانا جالندھری نے قادیانیوں کی بیرون ملک
سرگرمیوں سمیت دیگر امور کابطور خاص تذکرہ کیا۔قائد کشمیر مولانا سعید یوسف
صاحب نے پاکستانی سفیر کے نام کی مناسبت سے مختصر سی ترغیبی گفتگو فرمائی
اور انہیں علم وعرفان کی خدمت کے لیے کردار اداکرنے کی تلقین کی ۔حضرت
مولانا قاضی عبدالرشید صاحب نے سفیر صاحب کو پاکستان کی دینی شناخت کی
رعایت کرنے اور خود کو صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ اسلام کا سفیر بھی بننے کی
تاکید فرمائی بعد ازاں حضرت مولانا پیر عزیزالرحمن ہزاروی صاحب دامت
برکاتہم العالیہ نے امت مسلمہ ،حاضرین مجلس ،سرزمین بخاراوسمرقند، طوراسلام
کی سربلندی اور وطن عزیز کی سلامتی اور استحکام کے لیے دعا کروائی ۔اس موقع
پر پاکستانی سفیر نے NDU ٰیونیورسٹی کے ایک کورس میں شریک اور ازبکستان کے
دورے پر تشریف لائے ہوئے شرکاء اور ایمبیسی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے
والے ملازمین کی بھی علماء ومشائک سے ملاقات کروائی تقریب کے اختتام پر
ریفریشمنٹ کا بھی انتظام تھابعدازاں سفارت خانے میں ہی نماز مغرب ادا کیا
گئی ۔دیار غیر میں پاکستان کے سفارت خانے میں جاکر عجیب اپنائیت کا احساس
ہوتا ہے یوں لگتا ہے جیسے آدمی اپنے گھر آگیا ہو اور جب پاکستانی سفارت
خانے میں عرفان یوسف شامی جیسا سفیر ہواور قافلے میں اتنی بڑی تعداد میں
علماء ومشائخ ہوں تو پھر کیا منظر ہوتا ہے وہ منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے
اسے لکھا نہیں جاسکتا۔
تاشقند سے اگلے دن ہم بلٹ ٹرین کے ذریعے بخارا کے لیے روانہ ہوئے ۔ تاشقند
شہرکی ہر جگہ کی طرح ریلوے اسٹیشن اورٹرین کی صفائی ستھرائی اور حسن انتظام
دیدنی تھا ……ہر چیز سے سلیقہ مندی جھلک رہی تھی ……ٹرین اپنے مقررہ وقت پر
روانہ ہوئی…… نہ کوئی شور شرابہ ……نہ گندگی ……نہ بے ترتیبی ……نہ تاخیر…… نہ
کوئی اور پریشانی ……ایسا لگتا تھا جیسے VIP سفر ہو اور کسی یورپی ملک کی
ٹرین سروس ہو…… ٹرین250کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بھی چلتی رہی ……راستے
میں قدرت کے حسن وجمال کے عجیب نظارے دیکھنے کو ملے ……تاحد نگاہ پھیلے سبزہ
دار……خوبصورت کوہسار ……وقفے وقفے سے آنے والی دیہی آبادیاں ……سلیقے سے لگے
ہوئے درخت…… سرسبز وشاداب کھیت ……اﷲ رب العزت کی قدرت کی ایسی ایسی جھلکیاں
تھی کہ بار باربے ساختہ سبحان اﷲ کی صدائیں بلند ہوئی جاتی تھیں…… راستے
میں ذکرو اذکار کا سلسلہ بھی جاری رہا…… گپ شپ بھی ہوتی رہی ……برادرم قاری
الیاس صاحب کے چٹکلے ،قار ی اﷲ داد صاحب کی خوش طبعی ،مولانا قاضی
عبدالرشید صاحب اور دیگر احباب کے کشت زعفران کرنے والے قصے ……عجیب یادگار
سفر تھا……یوں تو تمام رفقائے سفردوران سفر ذکرواذکار ،درود شریف کی کثرت کا
اہتمام کررہے تھے اور اس نیت سے زیادہ اہتمام کیا جارہا تھا کہ جن مشائخ کی
قبور پرحاضری دینی ہے انہیں ایصال ثواب کرنا ہے خاص طور پر مولانا محمد
حنیف جالندھری نے امام بخاری اور دیگر مشائخ کے ایصال ثواب کے لیے قرآن
کریم مکمل کرنے کے عزم کا اظہار کیاانہوں نے لاہور سے روانہ ہوتے ہی جہاز
میں ،تاشقند میں اور اب بخارا کے سفر کے دوران امام بخاری ؒکے ایصال ثواب
کے لیے ایک قرآن کریم مکمل کرلیاپھر امام ترمذی ؒاور دیگر مشائخ کے ایصال
ثواب کے لیے قرآن کریم کی نئے سرے سے تلاوت شروع فرمائی اور اسی سفر کے
دوران دوسرا قرآن کریم بھی مکمل کیا جس پر حضرت مولانا پیر عزیز الرحمن
ہزاروی صاحب نے قافلے کے تمام شرکاء سے ارشاد فرمایا کہ حضرت مولانا محمد
حنیف جالندھری صاحب کی اس ترتیب کو پیش نظر رکھتے ہوئے سب احباب تلاوت قرآن
کریم کا اس طرح اہتمام فرمائیں اور تلاوت قران کریم کو اپنا معمول بنائیں ۔مولانا
محمد حنیف جالندھری کے پہلے ختم قرآن کریم کے موقع پر ٹرین میں مولانا قاری
الیاس صاحب نے ایک مختصر سی دعائیہ تقریب کا اہتمام کیا……الغرض بلٹ ٹرین کا
تقریبا چار گھنٹے کا سفر زندگی کا ایک یادگار ،پرسکون اور پر کیف سفر تھا ۔ |