مندرجہ ذیل چند اقدامات معاشی بہتری میں معاون ثابت ہو
سکتے ہیں :
۱۔کاروباری سرگرمیوں کو بحال کریں۔ پاکستان میں معیشت کا پہیہ Go slowکا
شکار ہو گیا ہے ۔ وجہ کچھ بھی ہو لیکن معیشت کو موجودہ کیفیت سے نکالنا اشد
ضروری ہے کیونکہ جب تک معاشی سرگرمیاں بحال نہیں ہونگی ملک آگے نہیں بڑھ
سکتا۔ CPECکے علاوہ پاکستان میں کوئی Foreign Direct Investment (FDI)نہیں
آرہی ۔ سعودی عرب اور دیگر ممالک سے جو معاہدے ہوئے ہیں وہ طویل مدتی
معاہدے ہیں اور ان کو حقیقت میں بدلنے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔ اسکے علاوہ
کوئی دیگر بڑی بیرونی سرمایہ کاری بھی مستقبل قریب میں نہیں ہونے جا رہی تو
ایسے میں حکومت کو فوری طور پر ملکی سرمایہ کاروں اور کاروباری طبقے سے
رجوع کرنے کی ضرورت ہے ۔چونکہ حکومتی پالیسیوں میں کوئی Clarityنہیں ہے
اسلیئے ملکی سرمایہ کاروں نے بھی نہ صرف Running Projects پر کام کی رفتار
کو دھیما کر دیا ہے بلکہ نئے پراجیکٹ بھی شروع نہیں کر رہے اسطرح ملک کے
اندر سے بھی کوئی خاطر خواہ معاشی سرگرمیاں شروع نہیں ہو رہی۔ حکومت کو
فوری طورپر مقامی سرمایہ کاروں اور بزنس کمیونٹی کو معاشی سرگرمیوں کو تیز
کرنے پر قائل کرنا ہوگا ۔ پاکستان میں بڑے بڑے بزنس ٹائیکون اور پیسے والے
لوگ موجود ہیں جو اگر چاہیں تو مقامی صنعتی ، تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں
میں بڑی تیزی لا سکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان سے رابطہ کیا جائے اور
حکومت کو ملک اور عام آدمی کے مفاد میں یہ کرنا پڑے گا کیونکہ اگر کاروباری
سر گرمیاں بحال نہ ہوئیں تو ملک کو تو نقصان ہوگا ہی لیکن عام آدمی کا
روزگار بھی متاثر ہوگا۔
۲۔پیسے کا جمود توڑیں ۔ پاکستان میں پیسہ جمود کااور دولت ارتکاز کا شکار
ہوچکی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دولت مٹھی میں قید ہو کر رہ گئی ہے ۔اس بند
مٹھی کو کھولیں اور اس میں قید پیسے کو آزاد کرائیں ۔اس میں کوئی شک نہیں
کہ پاکستان میں لوگوں کے پاس بہت پیسہ ہے جو انہوں نے کیش کی صورت میں کہیں
نہ کہیں دبا کر رکھا ہوا ہے ۔ جو پیسہ کہیں دبا کر رکھ دیا جائے وہ معاشی
سرکل سے نکل جاتا ہے ۔ اس پیسے کو وآپس سرکل میں لائیں اور اسکے لیئے
ریاستی طاقت کا نہیں بلکہ لالچ کا استعمال کریں ۔ فوری طور پر ایسی پر کشش
اور منافع بخش اسکیمیں شروع کریں کہ لوگ اپنے آپ ان اسکیموں میں پیسہ لگانے
پر مجبور ہو جائیں ۔ انہیں سرمایہ کے تحفظ اور منافع کی قانونی یقین دہانی
کرائیں۔ فوری طور پر ایک میگا قرعہ اندازی یا اس قسم کی کوئی دوسری اسکیم
شروع کریں جس میں کیش سرمایہ کاری ہو ۔ اسطرح پورے ملک میں ہل جل ہوگی
اورپیسے کا جمود ٹوٹے گا۔ جب پیسہ حرکت میں آئے گا تو پھر پیسے سے پیسہ بنے
گا۔ اگر کسی کو قرعہ اندازی والا آئیڈیا مضحکہ خیز لگ رہا ہے تو پھر انہیں
ماضی میں زرداری کی Saver Raffle Ticket اسکیم کو یاد کرنا چاہیے ۔ زرداری
نے اس اسکیم سے بہت مال بنایا تھا ۔ اس نے ایک فراڈ اسکیم بنائی تھی لیکن
عوام نے اس میں بھر پور حصہ لیا تھا۔ اگر موجودہ حکومت ایک صحیح اسکیم
بناتی ہے اور معاملات کو شفاف چلاتی ہے تو 100%لوگ اس میں حصہ لیں گے ۔
اسکے ساتھ ساتھ حکومت پرائز بانڈ کی اسکیموں کو مزید پر کشش بنائے ۔
پاکستان میں آبادی کا ایک بڑا حصہ پرائز بانڈ کی اسکیموں میں دلچسپی رکھتا
ہے یہاں تک کہ گھریلو خواتین بھی کچھ نہ کچھ پیسے بچا کر بانڈز خریدتی ہیں
۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پرائز بانڈ کی اسکیموں کو مزید پرکشش اور قرعہ
اندازی کے عمل کو مزیدشفاف بنایا جائے ۔اس سے عوام کو بھی فائدہ ہوگا اور
ملک کو بھی ۔
۳۔معیشت کی Documentationمکمل کرائیں ۔ چھوٹے بڑے تمام کاروبار حکومت
کیbooks میں ہونے چاہیے اسکے لیئے Documentationانتہائی ضروری ہے یہ ایک
لمبا عمل ہے لیکن اسکے بغیر نہ تومعیشت ٹھیک ہو سکتی ہے اور نہ ہی ریونیو
Generationاور Collection بڑھ سکتی ہے ۔ پاکستان میں نقد میں جو لین دین
ہوتا ہے اسکا کہیں پر کوئی دستاویزی ریکارڈ موجود نہیں ہے مثلا وکیل ،
ڈاکٹر اور اسطرح کے دوسرے شعبے جہاںCash-in-hand لیا جاتا ہے یہ آمدن نہ تو
ظاہر کی جاتی ہے اور نہ ہی اس پر ٹیکس اداکیا جاتا ہے۔ اسطرح کے تمام شعبہ
جات کو Documentکرنے کی انتہائی ضرورت ہے ۔ اسی طرح زراعت سے ہونے والی
آمدن کا ایک بڑا حصہ بھی کہیں پر ظاہر نہیں کیا جاتا ۔ لہذا ضرورت اس بات
کی ہے کہ معیشت کے چاروں شعبوں صنعت، تجارت، زراعت اور خدمات کی مکمل
Documentationکی جائے اور ان شعبوں میں چاہے کوئی چھوٹے پیمانے پر کام کر
رہا ہے یا بڑے اسکا ریکارڈ ٹیکس اٹھارٹیز کے پاس ہونا چاہیے ۔
۴۔ معیشت کا ایک آزادانہ اور غیر جانبدارانہ سروے کرائیں Independent
Economic Surveyیہ بہت ضروری ہے ۔ پاکستان میں کبھی یہ سروے نہیں ہوا
اسلیئے آج تک معیشت سے متعلق درست معلومات حاصل نہیں ہو سکیں ۔ وزارت خزانہ
ہر سال سر کاری طور پر معاشی سروے جاری کرتی ہے لیکن یہ بابوؤں کا بنایا
ہوا سروے ہوتا ہے جس میں معیشت سے متعلق حقائق کو توڑ مروڑ اور بڑھا چڑھا
کر پیش کیا جاتا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ یہ سروے biasedہوتا ہے کیونکہ یہ
حکومت خود کرواتی ہے جس میں وہ اپنی معاشی کار کردگی کے بارے میں زیادہ تر
مثبت باتیں ہی کرتی ہے لہذا یہ سروے قابل اعتبار نہیں ہوتا اور معیشت کی
اصل تصویر پیش نہیں کرتا ۔ موجودہ حکومت کو چاہیے کہ ایک غیر جانبدار معاشی
سروے کرانے کا اعلان کرئے جو حکومت کے ماتحت کوئی ادارہ نہیں بلکہ معیشت سے
متعلق ایک آزاد اور تجربہ کار معاشی ماہرین کی ٹیم یا فرم کرئے ۔ اس سے
پاکستانی معیشت کی اصل تصویر سامنے آئے گی ، اسکا درست حجم پتہ چلے گا،
اسکی خامیاں واضح ہونگی، اسکی Strength and Weaknessesکا پتہ چلے گا اور
اسکے ساتھ ساتھ اس میں بہتری کی تجاویز بھی سامنے آ سکیں گی۔
۵۔کسی بھی ملک کی معیشت کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے کیلئے معیشت کے
شعبے میں تحقیق بہت ضروری ہے ۔ گو کے حکومتی ادارے یہ عمل اپنے طور پر کرتے
رہتے ہیں لیکن معاشی تحقیق پر جتنی توجہ دینے کی ضرورت ہے اتنی توجہ اس
شعبہ کو کبھی نہیں دی گئی ۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی معیشت مضبوط ہے تو اسکے
پیچھے تحقیق کا بڑا ہاتھ ہے ۔ Knowledge Based Economyکا جو تصور ہے اسکی
بنیاد تحقیق ہے ۔پاکستان کی معیشت ایک انتہائی کمزور معیشت ہے کیونکہ سارے
کا سارا معاشی ڈھانچہ ہوا میں معلق ہے اسکی کوئی ٹھوس بنیاد ہی نہیں ہے ۔یہ
سارے کا سارا نظام بنیادی معاشی اصولوں سے عاری من مانے حکومتی فیصلوں پر
کھڑا ہے اسی لیئے جب ذرا سی تیز ہوا چلتی ہے تو یہ نظام ڈولنے لگتا ہے ۔ نہ
تو اس نظام میں کوئی Safety Valveہے اورنہ ہی کوئی Safeguards۔چند سرمایہ
دار جب چاہیں اس نظام کو مفلوج کر سکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس نظام
کو بنیادی معاشی اصول جو ساری دنیا میں رائج ہیں ان کی بنیاد پر استوار کیا
جائے ۔ اس میں تحقیق کی جائے اور وقت سے پہلے طوفان کی خبر دینے والا معاشی
میکنزم لاگو کیا جائے تاکہ ایک مستحکم اور مضبوط معیشت جنم لے سکے۔
۶۔پاکستان میں معیشت کے کسی بھی شعبے سے متعلق کوئی Real Time Information
Systemموجود نہیں ہے جسکی وجہ سے فوری اور uptodateاعدادو شمار و معلومات
دستیاب نہیں ہوتیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک Central Real Time
Information System/Databaseبنائی جائے جس میں معیشت کے ہر شعبہ کے بارے
میں Real Time Informationفیڈ کی جا سکے اور متعلقہ حکومتی اداروں کو اس
Databaseتک رسائی ہو تاکہ انہیں فیصلہ سازی میں مدد مل سکے۔
۷۔ماضی میں پاکستان میں پانچ سالہ منصوبے بنا کرتے تھے اور ان کے کافی حد
تک اچھے نتائج بھی برآمد ہوتے تھے پھروہ منصوبے بننے بند ہو گئے اور ان کی
جگہ ڈنگ ٹپاؤ پالیسوں نے لے لی جس سے ملک کو نقصان ہوا۔ ان منصوبوں کا
اجراء دوبارہ شروع کریں۔ ان کی مدت کم یا زیادہ کی جا سکتی ہے اور مختلف
شعبوں کے کیلئے الگ الگ منصوبے بھی بنائے جا سکتے ہیں ۔
۸۔کوآرڈینیشن ؛معیشت کی مضبوطی، ترقی اور بہتری تمام متعلقہ اداروں اور
شعبوں کے درمیان تعاون، معلومات کی فراہمی و تبادلہ اور مشترکہ لائحہ عمل
کی مرہون منت ہوتی ہے ۔ پاکستان میں ان چیزوں کا فقدان ہے ۔ اداروں کا آپس
میں کوآرڈینیشن نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اس میں بہتری لانے کی اشد ضرورت ہے ۔
۹۔لوگوں کو مفت کی روٹیوں پہ نہ لگائیں ۔مفت علاج، مفت تعلیم، مفت رہائش ،
مفت خوراک ، مفت انصاف اس سے قومی غیرت اور خوداری ختم ہو جائے گی ۔ یہ مفت
بری کا کلچر ختم کریں اور عوام کی ہر کام کیلئے حکومت کی طرف دیکھتے رہنے
کی عادت بدلیں اور انہیں Microeconomic Policiesاور Microcredit Facility
کے ذریعہ اپنے پاؤں پر کھڑا کریں تاکہ ہر پاکستانی مرد و عورت کم از کم
اپنا بوجھ خود اٹھا سکے اور اپنی حد تک خود کفیل ہو سکے۔اگر Grameen Bankکے
بانی نوبل انعام یافتہ پروفیسر محمد یونس Microcredit and Microfinance
Facilityکے ذریعہ بنگلا دیش میں گاؤں دیہات کے لوگوں کی معاشی حالت بدل
سکتے ہیں تو ہم پاکستان میں ایسا کیوں نہیں کر سکتے ؟لوگوں پر انویسٹ کریں
، انہیں empowerکریں تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں اپنے لیئے روزگار
کمائیں اور حکومت کو ٹیکس ادا کریں اور مذکورہ تمام سہولیات کے حقدار بنیں۔
اگرلوگوں کو ہر چیز مفت میں ملنے لگے گی تو پھر کام کون کرنا چاہے گا؟
۱۰۔ایک جامع میڈیا پالیسی بنائیں ۔ حکومت نے ابتدائی 8مہینوں میں معیشت کے
حوالے سے کافی بہتر اقدامات بھی کیئے ہیں جن سے متعلق عوام اور بیرونی دنیا
کو خاطر خواہ آگاہی حاصل نہیں ہو سکی کیونکہ حکومت کی میڈیا انٹریکشن اچھی
نہیں رہی ۔ گیس بجلی تیل کی قیمتوں میں اضافے کا معاملا درست طور پر میڈیا
میں ہینڈل نہ کیا جا سکا ۔ پھر میڈیا کے اشتہارات روک کر ان کو گھٹنوں پر
لانے کی کوشش کی گئی جس سے ظاہر ہے میڈیا میں غصہ آنا لازمی تھا۔ موجودہ
دور میں میڈیا ریاست کا چوتھا ستون بن چکا ہے اس کو on-boardلیئے بغیر ایک
کامیاب حکومت چلانا اب ممکن نہیں رہا ۔ اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے ایک
جامع میڈیا پالیسی بنائیں ، عوام اور بیرونی دنیا کو اپنے فیصلوں سے متعلق
بھر پور آگاہی فراہم کریں تاکہ حکومت جو فیصلے کرئے ان کی خبر لوگوں کو ہو
۔ آج میڈیا پر معیشت کو لیکر تنقید کا جو طوفان آیا ہوا ہے اسکی وجہ یہی ہے
کہ لوگوں کو پتہ ہی نہیں کہ حکومت معیشت کو لیکر کیا اقدامات کر رہی ہے ۔
میڈیا کو دیکھیں تو لگتا ہے جیسے حکومت ہاتھ پہ ہاتھ دھرے کسی معجزے کا
انتظار کر رہی ہے اور اسے عوام کی تکلیفوں کا کوئی احساس ہی نہیں ۔ اس تاثر
کو دور کرنے کی سخت ضرورت ہے اور یہ میڈیا کو اعتماد میں لیئے بغیر ممکن
نہیں ۔ مؤثر میڈیا حکمت عملی کے ذریعہ عوام اور سرمایہ کاروں کو یہ یقین
دلائیں کہ پاکستان کی معاشی حالت اتنی خراب نہیں ہے جتنی سمجھی جا رہی ہے
اگر معیشت سے متعلق موجودہ تاثر زائل نہ کیا گیا تو پھر معیشت کوبہتری کی
طرف لیکر جانا بہت مشکل ہو جائے گا۔ |