عہدے سے بڑا انسان: شفقت بھائی کی یاد میں

کچھ لوگ ہماری زندگی میں صرف چند سال کے لیے آتے ہیں، مگر ان کی موجودگی اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ وہ برسوں ساتھ چلتی ہے۔ شفقت بھائی بھی انہی لوگوں میں سے تھے۔ ایک نیوز ایڈیٹر، ایک استاد، ایک دوست، اور سب سے بڑھ کر ایک ایسا انسان جو عہدوں سے بڑا تھا۔

غالباً 2001 کی بات ہے، جب میں روزنامہ آج، پشاور میں شوبز رپورٹر اور آئی ٹی پیج کا انچارج تھا۔ انہی دنوں پشاور سے نیا اخبار شروع ہو رہا تھا۔ دفتر ایک کرائے کے گھر میں تھا، دو دروازے، ایک جی ٹی روڈ کی طرف اور دوسرا ریلوے اسٹیشن کی طرف۔ میں نے بھی درخواست دی، انٹرویو ہوا، اور سات ہزار روپے کی پیشکش پر نیا اخبار جوائن کر لیا۔ دوستوں نے کہا، صرف پندرہ سو روپے کے لیے اتنا بڑا ادارہ چھوڑ دیا، مگر دل کہہ رہا تھا کہ اپنی پہچان بنانی ہے۔

ڈیوٹی کا پہلا دن یادگار تھا۔ رات دو بجے دفتر آنا، صبح دس بجے جانا۔ اس وقت یہ ڈیوٹی عجیب لگتی تھی، مگر چونکہ اخبار دوپہر میں چھپتا تھا اور تڑکے کی خبریں لگتی تھیں، اس لیے سب ماننا پڑتا تھا۔ اسی رات پہلی بار شفقت بھائی کو دیکھا۔ موٹے سے، مسکراتے ہوئے، ڈیسک پر بیٹھے، ہر آنے والے سے ایک ہی سوال، نام کیا ہے، کہاں کام کیا ہے۔

وہ ہمارے نیوز ایڈیٹر تھے۔ سخت نہیں، رعب دار نہیں، بلکہ سادہ، ہنس مکھ، اور ہر وقت سکھانے کے موڈ میں۔ خبر نہیں ہوتی تو ڈانٹنے کے بجائے سمجھاتے کہ خبر کیسے بنتی ہے، سورس کہاں ڈھونڈنا ہے، سوال کیسے پوچھنا ہے۔ اس زمانے میں خبریں مارکر سے لکھی جاتیں، فیکس کے ذریعے لاہور بھیجی جاتیں۔ چھ بجے تک سب فارغ، پھر چائے، ملائی اور پراٹھے۔

وقت کے ساتھ تعلق محض رپورٹر اور ایڈیٹر کا نہیں رہا۔ بھائیوں جیسا رشتہ بن گیا۔ ہنسی مذاق، ایک دوسرے کو تنگ کرنا، سگریٹ بلاکی پیتا تھا موٹر سائیکل پر لیٹ آنا اور پھر کہنا کہ نیند پوری نہیں ہوتی۔ ہم اسے کہتے وزن کم کرو، وہ جواب دیتا، انسان بن جاو ورنہ تمہاری ساری شیطانیاں تمہارے چھوٹے بھائی کو بتا دوں گا۔

نیا اخبار بند ہوا، ہم بے روزگار ہوئے، پھر زندگی نے مختلف راستے دکھائے۔ صبح، مشرق، ایکسپریس، اور پھر ٹی وی کی دنیا۔ شفقت بھائی ریونیو ڈیپارٹمنٹ میں تھے، مالی مسائل ان کے نہیں تھے، ہم روزی روٹی کی دوڑ میں لگے رہے۔ رابطہ کم ہوا، مگر جب بھی بات ہوتی، وہی پرانا لہجہ، وہی شوخی۔

وقت گزرتا گیا۔ کچھ عرصہ قبل پتہ چلا کہ شفقت بھائی بیوروکریسی میں اچھے عہدے پر ہیں اور اایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اورکزئی تعینات ہیں۔ دل میں خیال آیا کہ اب شاید فاصلے بڑھ گئے ہوں گے۔ مگر جب فون کیا تو پہلی ہی بات پر اندازہ ہو گیا کہ بندہ وہی ہے۔ عہدہ کہیں نظر نہیں آیا۔ وہی ہنسی، وہی جملے، وہی پرانی یادیں۔

اور پھر اچانک، رات دو بجے کے قریب واٹس ایپ پر خبر ملی کہ شفقت بھائی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ دل جیسے بیٹھ سا گیا۔ مسکراتا چہرہ، تنگ کرنے والی عادتیں، لوگوں سے جڑنے کا سلیقہ، سب ایک ساتھ یاد آ گیا۔

زندگی ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ اصل چیز عہدہ نہیں، رویہ ہے۔ طاقت نہیں، انسانیت ہے۔ شفقت بھائی اس بات کی جیتی جاگتی مثال تھے۔ وہ نیوز ایڈیٹر بھی رہے، افسر بھی بنے، مگر آخر تک ایک سادہ، ہنس مکھ انسان رہے۔

دعا یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جوارِ رحمت میں جگہ دے، ان کے درجات بلند کرے، اور ہمیں بھی یہ توفیق دے کہ ہم عہدوں کے پیچھے نہیں، انسان بننے کی کوشش کریں۔ آمین۔
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 902 Articles with 718821 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More