موسم کی گرمی کے ساتھ ساتھ سیاسی درجہ حرارت میں بھی
اضافہ ہورہاہے ،حالات کے تیوربتارہے ہیں کہ آئندہ چندماہ ملک کے سیاسی
مستقبل کے حوالے سے نہایت اہم ہیں اپوزیشن سے زیادہ حکومت اس ٹکراؤمیں جلدی
کررہی ہے۔ایک دوسرے کے خلاف تندوتیزبیانات کے بعد ہتک آمیزبیانات کاسلسلہ
شروع ہے اورسیاسی سٹیج پر،سلطان راہی ،،فلم پورے عروج پرہے ،ایسے حالات میں
اپوزیشن جماعتیں قریب ہورہی ہیں جبکہ سیاسی میدان میں مولانافضل الرحمن
حکومت کوآڑے ہاتھوں لے رہے ہیں ،شہدائے بالاکوٹ کے مزارات کے قریب اورجمعیت
علماء اسلام کی شان مولاناغلام غوث ہزاروی کے مرقدکے قریب مولانافضل الرحمن
حکومت پرخوب گرجے اوربرسے ۔چنارروڈ مانسہرہ میں انہو ں نے تحفظ ناموس رسالت
ملین مارچ سے خطاب کرتے ہوئے اسلام آبادکی طرف مارچ کااعلان کرتے ہوئے
کہاہے کہ اگست کے اواخر تک یا ستمبر کے اوائل میں ہم اسلام آباد آنے کا
اعلان کرینگے لیکن میں ایک بات بتانا چاہتا ہوں کہ ابھی بھی آپ کو مہلت دی
جارہی ہے آپ وقت سے پہلے مستعفی ہوجاؤ وقت سے پہلے دوبارہ انتخابات کرائے
جائیں ورنہ اسلام آباد آنے کے بعد تمھیں کہیں بھی پناہ کی جگہ نہیں ملی گی
اور آپ کو کوئی رعایت وہاں پھر نہیں دی جاسکے گی پھر ایک انقلاب ہوگا اور
انقلاب کے رخ کا کوئی پتہ نہیں چلتا سیلاب کا کوئی پتہ نہیں چلتا کیا رخ
اختیار کرلیتا ہے ۔لہذا وقت سے پہلے آپ مستعفی ہو اور میں ایک بار پھر آپ
کی وساطت سے اسٹیبلشمنٹ کو بھی پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آپ اس جعلی حکمران
کی پشت پناہی کرنے سے دستبردار ہوجائے۔
متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے مانسہرہ میں یہ بارہواں ملین مارچ تھا
اورہرجلسے کی طرح یہ بھی کامیاب شوتھا اگرچہ ہزارہ ڈویژن سے گزشتہ سال ہونے
والے انتخابات میں ایم ایم اے کااتحادکوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکاتھا
یاکامیابی حاصل نہیں کرنے دی گئی تھی مگراس گرم موسم میں ہزاروں کی
تعدادمیں عوام مانسہرہ پہنچے تھے میں نے جلسہ گاہ میں دیکھا کہ مولانافضل
الرحمن کامؤقف دیگرجماعتوں کے کارکنوں کوبھی متاثرکررہاہے ملین مارچ میں
کئی ایسے رہنماء نظرآئے جومولاناکے سیاسی حلیف نہیں حریف ہیں مگرحکومتی
اقدامات نے انہیں مولاناکے قریب کردیاہے ،وہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ اس وقت
مولاناکاسیاسی مؤقف اوروژن درست ہے ۔مولانانے فائنل راؤنڈشروع کردیاہے ۔
میں محترم مولاناسلطان محمود ضیاء اور صفہ اکیڈمی بہارہ کہوکے منتظم
مولاناجمیل الرحمن فاروقی کے ہمراہ مانسہرہ پہنچاتھا پہلی مرتبہ ہزارہ
موٹروے پرسفرکیا اورخوشگوارحیرت کے ساتھ ساتھ مایوسی بھی ہوئی کیوں کہ جب
سے یہ حکومت برسراقتدارآئی ہے توہزارہ موٹروے کاکام بھی سست روی کاشکارہے
۔30نومبر2014کواس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف نے پاک چین اقتصادی
راہداری کے تحت 6 رویہ ہزارہ موٹروے کاسنگ بنیادرکھا تھا برھان سے حویلیاں
تک تقریبا 60 کلومیٹرکافاصلہ ہے ،ستائیس دسمبر 2017کواس وقت کے وزیراعظم
شاہدخاقان عباسی اس سیکشن کاافتتاح کیاتھا مگراس کے بعد کسی نئے سیکشن
کاافتتاح نہیں ہوسکاہے جس کی وجہ سے جہاں عوام مسائل کاشکارہیں وہاں
پروجیکٹ کی لاگت بھی بڑھ رہی ہے ،حویلیاں سے تھاکوٹ ایک سوبیس
کلومیٹرکافاصلہ ہے،ہزارہ موٹروے پر 30 پل، فلائی اوورز اور 31 انڈر پاسز
ہیں جوزیرتکمیل ہیں اس برق رفتاردورمیں آمدورفت کے ذرائع جتنے زیادہ ہوں گے
اتناملک ترقی کرے گا مگرموجودہ حکومت ہرکام ٹاسک فورس بناکرکررہی ہے۔ہزارہ
موٹروے کی تعمیر سے حطار انڈسٹریل ایریا، ہری پور اور حویلیاں کے عوام کو
فائدہ ہوگا، موٹروے سے ایبٹ آباد اور شمالی علاقہ جات کی تقریبا 60 لاکھ کی
آبادی کو فائدہ ہوگا جب کہ موٹروے پر روزانہ تقریبا 28 ہزار گاڑیاں سفر
کریں گی۔ شاہ مقصودانٹرچینج سے ہم جوں ہی نیچے اترے توٹریفک کے وہی مسائل
ہمارامنہ چڑارہے تھے ، ایبٹ آبادسے منڈیاں تک آٹھ کلومیٹرکاسفرایک گھنٹہ سے
زائد میں طے ہوا ۔
ایبٹ آبادسے گزرتے ہوئے بھوک کااحساس ہواتومولاناجمیل الرحمن فاروقی نے
میزبانی کاحق اداکرتے ہوئے پرتکلف ضیافت کی حالانکہ ہم کھاناکھانے سے قبل
سوچ رہے تھے کہ اس حلقے سے منتخب ہوکرصوبائی اسمبلی کے سپیکربننے والے
مشتاق غنی نے چنددن قبل مشورہ دیاتھا کہ عوام دوکی بجائے ایک روٹی کھائیں
کہیں انہوں نے اپنے حلقے کے ہوٹلوں میں یہ پابندی عائدنہ کردی ہوکہ مہمانوں
کو صرف ایک روٹی دی جائے ؟قلندرآبادکے کباب بھی مشہورہیں ان کاذائقہ چکھنے
کوبھی دل چاہارہاتھا مگرایک دوست کا وعدہ یادآگیا کہ وہ قلندرآبادکے کباب
اسلام آبادمیں کھلائے گا اس لیے یہ ادھاراس کے ذمے باقی ہے ۔بس یہ
شعرگنگناتے ہوئے اپنے پسندیدہ شہرایبٹ آبادسے گزرگئے کہ
زندگی یوں ہوئی بسر تنہا
قافلہ ساتھ اور سفر تنہا
سورج ڈھل رہاتھاتوہم مانسہرہ بائی روڈ کے ذریعے مانسہرہ سابقہ (پراناپکھلی
سرکار)میں داخل ہوئے مانسہرہ، شمال مغربی سرحدی صوبے کی مشرقی سرحد پر واقع
ہے، جس کی پشاور سے فاصلہ تقریبا 217 کلومیٹر جبکہ اسلام آباد سے یہ 195
کلومیٹر ہے۔جہاں مولانافضل الرحمن نے پڑاؤڈالاہواتھا مانسہرہ میں جمعیت
علماء اسلام کے تازہ تازہ انتخابات ہوئے ہیں اورہمارے بزرگ دوست مفتی کفایت
اﷲ امیراورمولانافضل الرحمن کے ترجمان مفتی ابرارکے بھائی مفتی
ناصراحمدسیکرٹری جنرل منتخب ہوئے ہیں یہ جلسہ ان کاپہلاامتحان تھا جس میں
وہ کامیاب رہے ۔مولاناکااگلاپڑاؤ رمضان شریف کے بعد چودہ جولائی کو کوئٹہ
اور اکیس جولائی کو پشاور میں ہوگا
مولانافضل الرحمن نے اپنے خطاب میں مزیدکہاکہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت آج
تم کارروائی کررہے ہو. ان مسلح تنظیموں کے خلاف بھارت کے دبا ؤمیں کررہے
ہو. بھارت کے دبا ؤمیں کارروائی یہ ہماری آزادی پر حرف ہے. ہم کسی کے دبا
ؤمیں کیوں کریں؟ ہم اپنے مفاد کی فکر کریں۔تم نے اپنا مفاد تو نہیں سمجھا.
تم نے اپنے مفاد کا احساس بھی نہیں کیا. اور میں جانتا ہوں.تم اتنے دباؤ
میں ہو۔کہ آج جعلی وزیراعظم، نقلی وزیراعظم، خلائی وزیراعظم، نصب شدہ
وزیراعظم (انسٹالڈ)وہ کہتا ہے اگر آنے والے الیکشن میں مودی صاحب جیت جائیں
تو پھر مسئلہ کشمیر حل ہوجائے گا.اور ہم جانتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے
ذریعے سے تم مقبوضہ کشمیر پر ہندوستان کے قبضے کو مستحکم بنانے کی سوچ رہے
ہو لیکن انشااﷲ کشمیر کا مجاہد آپ کو اس بات کی اجازت نہیں دے گا.
ملکی معیشت کی کشتی وہ ہچکولے کھا رہی ہے ڈوبنے کی قریب ہے دنیا آپ کو
اشارے دے چکی ہے کہ آپ دیوالیہ پن کے قریب ہوگئے ہیں اور آپ کا اپنے ملک کا
اسٹیٹ بینک، ایشین بینک ورلڈ بینک، تینوں یہ رپورٹیں دے رہیں ہیں کہ
پاکستان کی معیشت اس حد تک گر چکی ہے کہ آنے والے دو سالوں میں اس کے
دوبارہ اٹھنے کا کوئی امکان موجود نہیں ہے ،اگر میرے ملک کی معیشت گررہی ہے
میرے ملک کا مذہب گررہا ہے میرے ملک کی تہذیب تباہ ہورہی ہے میرے ملک کی
نظریاتی شناخت ختم ہو رہی ہے،کشمیریوں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے
اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں قادیانیت فروغ پارہی ہے اور آج
ہمارے ملک کا غریب آدمی جس کی ماہانہ آمدن اگر تیس ہزار روپے بھی ہے تب بھی
وہ بازار میں راشن خریدنے کے قابل نہیں رہا ،کہاں پہنچا دیا آپ نے قوم
کو؟کہتے ہیں ہمیں مہلت دو، مہلت تو اس کو دی جائے جس کو چلنے کی طاقت تو ہو
یہ تو آئین بھی کو ایک کھلونا بنانا چاہتے ہیں کبھی کہتے ہیں کہ صدارتی طرز
حکومت ہونا چاہیے،کبھی کہتے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم ختم ہونی چاہیے صدارتی
طرز حکومت اس ملک کے لئے آمریت کا راستہ کھولنے کا راستہ ہے،ہم اس ملک میں
آمریت کو راستہ نہیں دے سکتے،اور اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنا ملک کے وفاق
کا خاتمہ کرنا ہے۔ہم اس ملک کے وفاق کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں،کیونکہ
اسلام ، جمہوریت ، وفاق اور پارلیمانی طرز حکومت یہ آئین کا بنیادی اور
اساسی ڈھانچہ ہے ،اور اس میں سے ایک بھی اگر گرتا ہے تو پاکستان کا آئین
گرتا ہے دوبارا آپ کو دستور بنانا پڑے گا۔ہم روز روز کے تجربے نہیں کر سکتے
، اس ملک کو خدا کے لئے چلنے دو ۔ |