نیا بلدیاتی نظام حکمران کی خواہش کی بھینٹ ․․․!!

عوام عرصے سے اچھی خبر کے لئے ترس گئے ہے ۔ریاست کے تمام ستون دانستہ شکستہ اور کمزور کر دیئے گئے ہیں ۔ذاتی اَنا اور مفادات کی اسیر قیادت کو زبردستی عوام پر مسلط کر دیا گیا ہے ۔حکومت تمام ملکی مسائل کی وجوہات ماضی کی حکومت پر ڈال کر خود بری الذمہ ہونے پر باضد ہے ۔پاکستانی تاریخ میں سیاست میں کچھ ادوار ایسے آئے جہاں سیاسی قائدین نے اخلاقی حدود کو تجاوز کیا ،مگر عوام نے اس رویے کو بھی پسند نہیں کیا تھا،مگر آج تو سیاست کیا پوری قوم میں اخلاقی پستی کا عروج دیکھنے کو ملتا ہے۔

ملک میں ایسا ماحول بنایا اور ثابت کر دیا گیا ہے کہ ملک کو چلانے کے لئے جمہوری نظام درست نہیں ہے ۔جس جمہوری نظام کے لئے سالوں قربانیاں دیں،اس کی بساط کو سیاستدان اپنے ہاتھوں سے روند رہے ہیں۔ابھی تحریک انصاف کی حکومت کو نو ماہ ہوئے ہیں۔انہوں نے عوام کی ان سے جڑی امیدوں پر پانی پھیر کر رکھ دیا ہے ۔مقننہ ،عدلیہ یا انتظامیہ کسی جانب بہتری کیا آنا تھی،انہیں اپنے مفادات اور خواہشات کے مطابق چلانے کی تگ و دو نے ملک و قوم کو پستی کی جانب دھکیل دیا ہے ۔

چاروں صوبوں کی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں کارکردگی دیکھ لیں۔کسی کو اندازہ لگانا مشکل نہیں ہو گا کہ جمہوری نظام کو چلانے کے لئے یہ حکومت بالکل سنجیدہ نہیں ہے ۔اسی جمہوری عمل سے اقتدار حاصل کرنے والی قیادت کو احساس ذمہ داری میں اپنی کوتاہیوں پر زرا شرم محسوس ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے ۔ہمارے ملک میں کمزور قوانین کی وجہ سے کتنا ظلم ہوتا ہے ،حکومت میں بیٹھے کسی شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کا ماتھا ٹھنکا ہے․․ ؟جزوقتی دکھاوے کے لئے بیانات تو دے دیئے جاتے ہیں،مگر مظلوم اور کمزور عوام کے ساتھ نا انصافی پر سناٹا چھا جاتا ہے ۔

کسی ملک میں عوام کی فلاح وبہبود کے لئے سب سے زیادہ ضروری بلدیاتی نظام ہوتا ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بلدیاتی نظام کی تاریخ اچھی نہیں رہی ہے ۔حالانکہ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز ان کے بلدیاتی نظام پر منحصر ہوتا ہے ۔وفاقی حکومت کے پاس ملکی دفاع ، خارجہ پالیسی اور چند اہم ریاستی اداروں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ہے ۔عوام کے روزمرہ ضروریات اور سہولیات کے تمام شعبے یعنی پولیس ،صحت و تعلیم وغیرہ کی تمام تر ذمہ داری یونین کونسلز کے زیرنگرانی ہوتی ہیں۔اگر بلدیاتی نظام کو درست طریقے سے رائج کر دیا جائے تو ملک کے زیادہ تر مسائل ویسے ہی حل ہو جائیں گے۔

پاکستان میں بلدیاتی نظام 1912ء کے بلدیاتی قوانین کا تسلسل ہے ۔کیونکہ پاکستان کا ابتدائی سیاسی ڈھانچہ برطانوی ایکٹ 1935ء کے تحت وجود میں آیا ہے ۔ایوب خان نے 1964ء میں مخصوص شکل میں بلدیاتی اداروں کو متعارف کروایا ۔1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے نیا بلدیاتی قانون پیپلز گورنمنٹ آرڈیننس جاری کیا ۔اس کے بعد جنرل ضیا الحق نے 1979ء میں مقامی حکومتوں کا آرڈیننس جاری کر کے انتخابات کروائے ،1998ء میں بھی بلدیاتی انتخابات کروائے گئے ۔2001میں مشرف دور میں بلدیاتی نظام کو لامحدود اختیارات سونپ کر تجربہ کیا گیا۔جو کسی حد تک کامیاب بھی رہا ۔اسی طرح مسلم لیگ (ن) نے بھی سپریم کورٹ کے آڈر پر کروائے ۔اب لوکل باڈیز ترمیمی بل 2019ء پاس کر لیا گیا ہے ۔اس بلدیاتی نظام کو میں اتنی بار چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے،کہ اس پر بات کرنا ہی عجیب لگتا ہے ۔خیر اس نئے بلدیاتی نظام میں لوکل گورنمنٹ پانچ حصوں پر مشتمل ہو گی ۔جس میں تحصیل کونسل ،ویلیج کونسل ،نیبر ہڈ کونسل ،میونسپل کارپوریشن اور میٹروپولیٹن شامل ہوں گی۔پنجاب کے 9اضلاع کو میٹروپولیٹن کا درجہ دیا جائے گا۔میٹروپولیٹن اسمبلی ارکان کی تعداد 55اور ویلیج کونسل کے ارکان کی تعداد 8ہو گی ۔بلدیاتی اداروں کے انتخابات ایک سال میں کروائے جائیں گے ۔جب تک بلدیاتی انتخابات نہیں ہوتے،اس نظام کو ایڈمنسٹریٹرز کے ذریعے چلایا جائے گا۔کیونکہ یہ تمام معاملات حکومت پنجاب کے تابع ہو گا ،اس لئے فنڈز بھی انہیں کی مرضی اور منشاء کے مطابق لگایا جائے گا۔ جس سے آنے والی لوکل گورنمنٹ کے انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جائے گی۔

پرانے بلدیاتی نظام کے ذریعے سے آئے 60ہزار عوامی نمائندوں کی ڈھائی سال مدد باقی پڑی تھی ،کیونکہ نئی حکومت نے اپنا مرضی کا نظام لانا تھا،جس سے انہیں سیاسی اور مادی فائدہ ہو، اس لئے 2013ء میں منتخب نمائندوں کو مدت مکمل کئے بغیر ختم کر دیا گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف نے قانون سازی کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے ۔لوکل گورنمنٹ بل 2019ء کی حزب اختلاف سے مشاورت کے بغیر کیا گیا۔ہاؤس میں اس بل پر کوئی بحث نہیں کی گئی ۔اپوزیشن کی ترامیم کو بری طرح نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔اس بل کی مشاورت کا عمل بہت ہی ناقص رہا ہے ۔ہر کوئی اس پر تنقید اور تحفظات کا اظہار کر رہا ہے ۔کیونکہ یہ بل وزیر اعظم کی خواہش اور ویژن پر مبنی ہے ،اس لئے حکومت پنجاب کی اَنا کا مسئلہ ہے ۔لیکن یہ چند دنوں میں پاس ہونے والے بل سے حکومت کیا باور کروانا چاہتی ہے کہ یہاں جمہوریت نہیں بلکہ ڈکٹیٹر شپ ہے۔ اگر اس قانون کو آج پاس کروا لیا گیا ہے ،مگر کیا ان کے بعد آنے والی حکومت اس نظام کو کمزور یا غیر فعال نہ کرے گی ،جیسے اس حکومت نے اپوزیشن کو اعتماد میں لئے بغیراور ان کی ترامیم کو بری طرح نظر انداز کرتے ہوئے قانون جلدی میں پاس کروایا ہے،اسی طرح آئندہ آنے والی حکومت بھی اس نظام کے ساتھ ایسا ہی نہیں کرے گی․․؟یہ بات یاد رہے کہ نیا نظام اس صورت مستحکم اور طویل المدتی ثابت ہو تا ہے جب اسے قانونی تحفظ ،وسائل کی فراہمی اور شہریوں کے عام طبقات کی بھر پور نمائندگی حاصل ہو ۔لیکن اگر اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے خاندان یا حکومتی پیارے قابض ہو جائیں تو نظام بے سود ہو جاتا ہے ۔

اگر اس نظام کو چلانا ہے تو اس کے ذریعے شہریوں کا معیار زندگی بہتر بنایا جائے ۔اس امر کا خاص خیال رکھا جائے کہ بلدیاتی نظام سیاسی بنیادوں پر ہو، تاکہ برادری ازم اور جذبات کا کاروبار کرنے والے ان اداروں پر قابض نہ ہو سکیں ۔اصولی طور پر تو عوام کے مسائل کے حل اور تعمیر و ترقی کے معاملات میں تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہو کر ایسی قانون سازی کرنی چاہیے تھی، جس سے شہری اپنی گلی محلوں کے ترقیاتی کاموں کے لئے ارکان اسمبلی کے دروازوں کی بجائے مقامی اداروں سے رجوع کریں ۔لیکن بدقسمتی سے ایسا ہوا نہیں ہے ۔حزب اختلاف مزاحمت کر رہی ہے ۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تحریک انصاف نے نئے بلدیاتی نظام کو نافذ کرنے کی جلدی میں بڑے پن کا مظاہرہ نہیں کیا،حزب اختلاف کے علاوہ رائے عامہ کے تمام فعال فریقوں کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

ایسی قانون سازی نے کمزور قوانین کو جنم دیا ہے ،جس سے عوام کو فائدہ ہونے کی بجائے نقصان زیادہ ہوتا ہے ۔اس کی مثال خیبر پختونخوا کا بلدیاتی نظام ہے ۔عمران خان پچھلے پانچ سال اس نظام کی تعریفوں کے پل باندھتے رہے ہیں اور اب اس کی ترامیم میں ادھے سے زیادہ بل کو تبدیل کر دیا گیا ہے ۔لیکن پہلے نظام کے قانون سے جو حکومت اور عوام کو نقصانات اور نتائج بھگتنے پڑے ہیں اس کی ذمہ داری کوئی نہیں لیتا ۔حکمرانوں کو خوف خدا نہیں رہا ۔اقتدار کا بھوت ایسا چڑھتا ہے کہ اترنے کا نام نہیں لیتا ۔یہ ماضی سے بھی نہیں سیکھتے کہ حکمرانی مستقل نہیں ہوتی ۔کیا خبر اگلے سال آپ ہو یا نہیں ہوں ․․․!پھر اس آپ کی ہٹ دھرمی کا نقصان تو عوام بھگتے گی ۔لیکن عوام جانتی ہے کہ استعمال کرنے والے آپ کو بھی بچا لیں گے ۔یہی بات آپ کو سب غلط درست کرنے کی طاقت دیتی ہے ۔
 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 109671 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.