ناصر ملک ’’پُلسیا‘‘ ہے۔ پولیس سے خوف ہم پاکستانیوں
کی گھُٹی میں پڑا ہے۔ یوں توہر پُلسیا ہی خطرناک ہوتا ہے لیکن اگر وہ باریش
بھی ہو تو اور زیادہ خطرناک کہ اُس میں مولویوں کا غیض وغضب بھی شامل ہو
جاتا ہے۔ یہ تو ہر کسی کو معلوم کہ ’’نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں
ملیں‘‘ اِس لیے ’’باریش پُلسیوں‘‘ سے ذرا بچ بچا کے۔ ناصر ملک بھی ’’باریش‘‘
ہے اِس لیے شروع شروع میں ہم بھی اُس سے ڈرتے رہے (ہم ’’کمانڈو‘‘ تو نہیں
جو کسی سے ’’ڈرتا ورتا‘‘ نہیں تھا) لیکن وقت نے ثابت کیا کہ اِس سنجیدہ
ومتین پولیس آفیسر کے اندر ایک کھلنڈرا ادیب ’’لُکا چھُپی‘‘ کھیلتا رہتا ہے
اِس لیے ہمارا خوف بھی دور ہوگیا۔ عموماََ یہی دیکھا گیا ہے کہ ایک مزاح
نگار اپنی تحریروں میں ہی نہیں، گفتگو میں بھی مزاح کی پھلجھڑیاں چھوڑتا
رہتا ہے جیسے گُلِ نوخیزاختر جس کی گفتگو میں کوئی ایک جملہ بھی سنجیدہ
نہیں ہوتا اور جہاں قہقہوں کی برسات ہو، سمجھ لیجئے کہ گلِ نوخیزاختر وہاں
موجود ہے لیکن ناصر اِس سے یکسر مختلف۔ گھنٹوں بلکہ پہروں باتیں کرتے چلے
جائیے، مجال ہے جو اِس کی زبان سے ایک مزاحیہ جملہ بھی پھسلے لیکن جوں ہی
وہ قلم تھامتا ہے قہقہوں کی برسات شروع ہو جاتی ہے۔ اگر کسی کو اپنے لبوں
پر مسکان لانے کا شوق ہو تو ناصر ملک کی تازہ کاوش ’’مزاحِ کبیرہ‘‘ بَروزنِ
’’گناہِ کبیرہ‘‘ پڑھ کر دیکھ لے۔ غمِ دوراں سے (لمحاتی ہی سہی) چھٹکارے کی
گارنٹی ہم دیتے ہیں۔
3 مئی کو ناصر کی کتاب ’’مزاحِ کبیرہ‘‘ کی تقریبِ رونمائی تھی جس میں ہم
بھی مدعو تھے۔ قذافی سٹیڈیم کی ’’ای لائبریری‘‘ میں یہ تقریب منعقد ہوئی۔
اُستادِ گرامی محترم عطاء الحق قاسمی کی زیرِصدارت اِس تقریب میں چیدہ
وچنیدہ احباب نے شرکت کی۔ عطاء بھائی کی خوبصورت گفتگو نے محفل کو چار چاند
لگا دیئے۔ اُن کی تحریروں پر تبصرہ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے
۔ دو گھنٹوں پر مشتمل اِس تقریب میں قہقہے بکھرتے رہے۔ اِسی تقریب میں
منکشف ہوا کہ سنجیدہ لکھنے والا یاسر پیرزادہ اگر مزاحیہ تحریروں کی طرف
راغب ہو جائے تو بڑے بڑوں کے چھکے چھُڑا دے۔ ہم نے سب سے زیادی لطف
یاسرپیرزادہ کے ’’اظہارِخیال‘‘ پر لیاجس نے یہ انکشاف کیا کہ ناصرملک نے
ابھی تین کالم ہی لکھے تھے کہ صاحبِ کتاب بننے کی ٹھانی۔ یہاں بھی اُسے ’’سلیکشن‘‘
کا مسٔلہ درپیش تھا۔ یاسر نے تفصیل سے مزاحِ کبیرہ کی ’’پیدائش‘‘ کے ’’نَو
ماہی‘‘ مراحل کی روداد سناتے ہوئے اتنے قہقہے بکھیرے کہ پیٹ میں بَل پڑ گئے۔
رہی سہی کسر گل ِنوخیز اختر کی نظامت نے پوری کر دی۔ اِس تقریب کی نظامت
بھی دو حصوں پر مشتمل تھی۔ ڈاکٹر عائشہ عظیم نے نظامت کی ابتداء کی اور
نوخیز نے انتہا۔ بھائی وجاہت مسعود کے کالموں کی یوں تو ہمیں اب بھی سمجھ
نہیں آتی کہ وہ اپنی تحریروں اتنی خوفناک لفاظی کرتے ہیں کہ بندہ سَر پکڑ
کر بیٹھ جائے لیکن مزاحِ کبیرہ پر گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے بھی محفل کو
کشتِ زعفران بنائے رکھا۔ پَس ثابت ہوا کہ وہ آسان لکھ سکتے ہیں اِس لیے ہم
اُن سے ’’آسان لکھنے کی فرمائش‘‘ کرتے ہیں۔
ناصر ملک نے کہا کہ وہ کسی بھی کتاب کی تقریبِ رونمائی میں ہمیشہ نوخیز کے
ساتھ جاتا ہے کیونکہ کتاب پڑھے بغیر اُس پر تبصرہ کرنے میں گلِ نوخیز اختر
کو مہارتِ تامہ حاصل ہے اور وہ اِس مہارت سے مستفید ہونا چاہتا ہے کیونکہ
کتاب تو اُس نے بھی پڑھی نہیں ہوتی۔ آج اُسے بھی یہی مسٔلہ درپیش ہے کہ پتہ
نہیں ’’مزاحِ کبیرہ‘‘ کسی نے پڑھی بھی ہے یا نہیں۔۔۔۔ بھائی! کتاب کوئی خاک
پڑھتا کہ آپ یہاں تو پَکّے ’’پُلسیے‘‘ بن گئے ۔بیچاری ڈاکٹر عائشہ عظیم نے
بھی کتاب پوری قیمت پر خرید کر پڑھی، شاید وہ بھول گئیں کہ پُلسیے کا ہاتھ
لینے کے لیے آگے بڑھتا ہے، دینے کے لیے نہیں۔ رہی بات مطالعے کی تو میری
دردبھری داستان بھی سُن لیجئے۔ میرا داماد پکّا ’’تحریکیہ‘‘ ہے۔ میں نے
تحریکِ انصاف کے خلاف ایک بھرپور کالم لکھا۔ میری اُس وقت حیرت کی انتہا نہ
رہی جب میرے داماد نے اُس کو ’’لائیک‘‘ کیا۔ میں نے اُس سے کہا کہ کیا آپ
کو بھی کالم پسند آیا؟۔ اُس نے کہا ’’آنٹی! دراصل آپ کا شیئر کردہ کالم
پڑھا نہیں جا رہا تھا اِس لیے میں نے لائیک کر دیا‘‘۔ پتہ نہیں ہماری نسلِ
نَو کو مطالعے کا شوق کب پیدا ہو گا؟ پتہ نہیں یہ تبدیلی کب آئے گی لیکن
تبدیلی کیا خاک آنی ہے کہ یہاں تو سیاست سے ثقافت تک ہر جگہ ’’2 نمبری‘‘ کا
راج ہے۔
محترم عمران خاں بھی تبدیلی کا نعرہ لگا کر بَرسرِ اقتدار آئے لیکن 9 ماہ
گزر چکے، ہوا ’’کَکھ‘‘ بھی نہیں سوائے اِس کے کہ یوٹرن کو قانونی حیثیت
حاصل ہو گئی۔ اب ’’رَج کے‘‘ جھوٹ بولو اور جب جی چاہے یوٹرن لے کر بڑے لیڈر
بن جاؤ۔ جس کی جی چاہے پگڑی اچھالو، صاحب کو ’’صاحبہ‘‘ کہہ دو، جاپان اور
جرمنی کی سرحدوں کو آپس میں یوں ملا دو جیسے ’’ٹِچ بٹناں دی جوڑی‘‘، کوئی
پوچھنے والا نہیں۔ کپتان نے 100 دنوں میں تبدیلی کا جو نعرہ لگایا وہ ہَوا
ہُوا۔ اب وزیر با تدبیر قوم سے 2 سال مانگ رہے ہیں لیکن کپتان پورے 5 سال۔
اُنہوں نے کہا کہ وہ جتنے جی چاہے مشیر لگائیں، کسی کو کیا۔ 5 سال بعد جواب
تو اُنہوں نے ہی دینا ہے۔
9 ماہ گزر چکے ’’تبدیلی بچے‘‘ کی پیدائش کے دور دور تک کوئی آثار نہیں۔ اگر
خاں صاحب نے ایسی ہی تبدیلی لانی ہے جیسی پچھلے 5 سالوں میں خیبرپختونخوا
میں آئی تو پھر اِس ملک کا اﷲ ہی حافظ۔ خاں صاحب نے کے پی کے کو سرسبز کرنے
کا نعرہ لگا کر بلین ٹری منصوبہ بنایالیکن اپوزیشن کے مطابق 10 کروڑ درخت
بھی نہ لگائے جا سکے۔ یہ الگ بات کہ خاں صاحب نے چین کے دَورے پر کہا کہ
اُن کی حکومت نے 5 ارب درخت لگائے ہیں۔ اُنہوں نے نعرہ لگایا، جنگلا بس
سروس نہیں بناؤں گا لیکن پھر وہ شروع بھی کر دی گئی ۔ 100ارب صرف ہو چکے
لیکن ابھی تک کھڈے ہی کھڈے۔ پشاور میں چوہے مار پروگرام اگر فوراََ ختم نہ
کیا جاتا تو کے پی کے کا سارا بجٹ چوہے کھا جاتے۔ کے پی کے میں احتساب کا
نیا نظام متعارف کروایا گیا، کروڑوں صرف ہوئے لیکن نتیجہ ’’صاحب نے کھایا
پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا، بارہ آنے‘‘۔ احتساب کایہ نیا نظام بھی بالآخر ختم
کرنا پڑا۔ پختون بھائی جلتے کڑھتے رہے کہ وزیرِاعلیٰ پرویز خٹک کو ڈی چوک
اسلام آباد کے دھرنے میں ’’تھرکنے‘‘ سے فرصت ملے تو اُن کے حال کی طرف بھی
توجہ ہو۔ کے پی کے میں 300 چھوٹے ڈیم بنا کر بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ بھی
’’ٹائیں ٹائیں فِش‘‘ ہوا۔
خاں صاحب نے فرمایا تھا کہ وہ ’’الیکٹ ایبلز‘‘ اور آزاد ممبران کو قریب بھی
پھٹکنے نہیں دیں گے لیکن اب تحریکِ انصاف میں ہر طرف الیکٹیبلز اور آزاد
ممبران کی بھرمار۔ اُنہوں نے فرمایا کہ ڈالر کسی صورت میں بھی مہنگا نہیں
ہونے دیا جائے گا لیکن پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ڈالر ساری حدیں توڑ
کر 142 پر پہنچ گیا۔ معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ ڈالر 150 پر بھی نہیں رکے گا۔
دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کا دعویٰ کرنے والے کپتان نے کہا کہ پٹرول،
بجلی اور گیس کسی صورت مہنگی نہیں ہونے دی جائے گی لیکن یہ تینوں چیزیں
اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہیں۔ نوازلیگ کے دَور میں 65 روپے لٹر ملنے والا
پٹرول 100 روپے لٹر ہوچکا۔ بجلی اتنی مہنگی کہ پنکھا چلاتے ہوئے بھی خوف
آئے۔ گیس کے بِل جب آسمانوں کو چھونے لگے تو کپتان نے محض عوامی اشک شوئی
کے لیے تحقیقات کا حکم دے دیا لیکن ہوا ’’ککھ‘‘ نہیں۔
کپتان نے فرمایا کہ وزیرِاعظم ہاؤس اور گورنرہاؤسز کو تعلیمی درسگاہوں میں
ڈھال دیا جائے گا۔ فی الحال کوئی تعلیمی درسگاہ معرضِ وجود میں آئی، نہ اِس
پر کوئی کام شروع ہوا۔ ساری عمارتیں اپنے مکینوں سمیت اُسی شان وشوکت سے
اپنی جگہ پر موجود۔ وزیرِاعظم نے کہا تھاکہ وہ ہرگز پروٹوکول نہیں لیں گے،
واقعی اُنہوں نے پروٹوکول نہیں لیا کیونکہ وہ تو ’’واش روم‘‘ میں بھی ہیلی
کاپٹر پر ہی جاتے ہیں حالانکہ اُنہوں نے کہا تھا کہ وہ ہیلی کاپٹر کی بجائے
ہالینڈ کے وزیرِاعظم کی طرح سائیکل پر سفر کریں گے۔ اُن کے وزرائے اعلیٰ کا
تیس، تیس گاڑیوں کا پرٹوکول جاری وساری۔ فرمایا کہ آئی ایم ایف سے قرض لینے
سے بہتر ہے خودکشی لیکن پھر ’’بقلم خود‘‘ آئی ایم ایف کے دَرِ دولت پر حاضر
بھی ہو گئے۔ کہا کہ اپوزیشنجو حلقہ کہے گی، کھول دوں گا لیکن پھر اپنے ہی
حلقے میں خواجہ سعد رفیق کے خلاف سٹے آرڈر کے پیچھے چھپ گئے۔ پاک صاف
کابینہ کا دعویٰ تو ضرور کیا لیکن جتنی پاک صاف یہ کابینہ ہے، سبھی کو
معلوم۔ 50 لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں کا کیا بنا؟۔ ایم کیو ایم اور
اختر مینگل کیوں چیخ رہے ہیں کہ اُن سے کیے گئے وعدوں اور معاہدوں پر عمل
درآمد نہیں ہو رہا؟۔ داستان طویل لیکن کالم کا دامن تنگ، کہاں تک سنوگے ،
کہاں تک سناؤں۔ تبدیلی کی آس لگائے بیٹھے ہیں، پتہ نہیں تبدیلی کب آئے گی۔
|