گزشتہ دنوں پہلے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی کابینہ
کے کئی وزراء تبدیل کیے۔ناقص کارکردگی دکھانے والے وزراء کو تبدیل کر دیا
گیا۔ گویا کہ وہ وزراء نااہل تھے کیونکہ انہیں جو ذمہ داری سونپی گئی تھی
وہ اسے درست طریقے سے نہیں ادا کرسکے۔ وزیرِ خزانہ نے معیشت کو کہاں سے
کہاں پہنچادیا۔ ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ مہنگائی کی شرح
بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔اس صورتحال کے پیشِ نظر وزراء کی تبدیلی بظاہر
بڑی خوش آئند ہے کہ عمران خان نے اپنی ہی پارٹی کے لوگوں کو وزارت سے فارغ
کردیا۔ وزیرِ اعظم کے اس فیصلے کو خوب سراہا جارہا ہے۔ لیکن در حقیقت یہ
تبدیلی اپنے اندر بہت کچھ چھپائے رکھتی ہے۔ جس طرح شروع شروع میں نیا
پاکستان کا نعرہ لگایا تھاکہ جس میں لاکھوں ملازمتیں دی جائیں گی ، اس پر
سب بہت خوش ہوئے لیکن چند مہینوں بعد ہی نئے پاکستان میں تجاوزات کے نام پر
دکانوں کو مسمار کرکے لاکھوں لوگوں کو بیروزگا رکردیا گیا۔ اسی طرح اس
تبدیلی کی حقیقت بھی کچھ عرصہ بعد سامنے آجائے گی ۔لیکن بیچاری عوام کو اس
پر بھی ایک نئی امید نظرآرہی ہے۔ امید پر ہی دنیا قائم ہے۔ عمران خان جب سے
سیاست میں آئے ، بڑے بڑے خواب دکھائے۔ بڑے بڑے دعوے تھے۔ سو دن کا پلان تھا۔
پھر حکومت مل گئی لیکن سو دن بعد شور مچایا کہ’’ ہم مصروف تھے‘‘۔ نہ جانے
کہاں مصروف تھے ۔بہر حال یہ سب وقت گزارنے والی باتیں ہیں۔ ان چیزوں کا
سنجیدگی سے دور کا بھی رشتہ نہیں ہے۔ گویا بقولِ غالب: ’’دل کے بہلانے کو
غالب ؔیہ خیال اچھا ہے‘‘۔ باتیں کرکرکے دل بہلایاجائے ۔ وزراء کی تبدلی بھی
وقت گزارنے والی اور دل کو جھوٹی تسلی دینے والی بات ہے۔ شاید کہ صرف یہ سن
کر ہی دل کو آرام مل جائے اور چین کی نیند آجائے۔
اب نئی حکومت کو ایک سال ہونے کو ہے لیکن نتیجہ وہی صفر بلکہ منفی میں
جارہا ہے۔ نہ عوام سکون میں ہے اور نہ ہی خواص ۔ سب پریشان ہیں۔ مزدور طبقے
سے لے کر بڑے بڑے تاجر اور مالکان بھی مہنگائی کے طوفان کی زد میں ہیں۔ اس
کی سب سے بڑی وجہ نااہلوں کو منصب دینا ہے ۔جب کوئی شخص کسی منصب اور عہدے
کا اہل ہی نہیں ہے تو اسے وہ عہدے دینے سے اس شعبہ میں کیا قیامت برپا ہوگی
‘ ہر شخص اس کا بخوبی اندازہ لگاسکتا ہے۔ نظامِ حکومت چلانا کوئی کھیل یا
مذاق نہیں ہے کہ جس کو جو چاہے وزارت دے دی جائے ، اگر اس سے چل پڑے تو
ٹھیک، ورنہ چھین لی جائے۔ ہر عہدہ اور منصب اس شعبہ کے ماہرین ہی کو دینا
چاہیے۔ نئی حکومت میں تبدیلی کا بڑا ڈھونگ رچایا گیا۔ اسی وقت چاہیے تھا کہ
ایسے لوگوں کو وزارتیں دی جاتیں جو واقعتاً اس منصب کے لائق تھے اور اچھا
خاصا تجربہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے فیلڈ میں مہارت رکھنے والے تھے۔ لیکن
قربتیں دیکھ کر منصب بانٹے گئے جس کا نتیجہ آج بھگتنا پڑ رہا ہے۔
بدقسمتی سے نئی حکومت کا پورا وقت تجربات میں گزرا ہے۔ وزیرِ خزانہ صاحب نے
سارے کام ’’شاید ‘‘ کی بنیاد پر کیے ہیں۔ مثلاً :ہوسکتا ہے کہ آئی ایم ایف
سے قرضہ لینے اور معاہدہ کرنے سے معیشت بہتر ہوجائے۔ شاید اشیاء مہنگی کرنے
سے کچھ بہتری نظر آجائے۔ اسی طرح ٹیکس ریٹ بڑھادیے گئے کہ شاید اس سے کچھ
فرق پڑجائے،مزید قرضے لے لیے گئے کہ ہوسکتا ہے کہ کچھ مثبت نتیجہ نکل آئے۔
الغرض معیشت میں بہتری کے لیے کچھ بھی مکمل یقین اور اعتماد کے ساتھ نہیں
کیا گیا جس کا مثبت نتیجہ بھی نظر آیاہو۔ جب دیکھا کہ کوئی مثبت نتیجہ
سامنے نہیں آرہاتو وہی تسلی دی جارہی ہے کہ ابھی کچھ وقت مہنگائی چلے گی
پھر سب کچھ بہتر ہوجائے گا۔ حالانکہ حالات اس کے برعکس ہیں اور ملکی کرنسی
مستقل زوال پذیر ہے۔ ماہرین کی رائے یہی ہے کہ نیا بجٹ مزید عوام کے لیے
خطرناک بم بن کر گرے گا۔موجودہ صورتحال کے پیش نظر نظام معیشت کی پالیسیوں
پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اور ان ماہرین کو لانے کی ضرورت ہے جو سود سے پاک
نظام معیشت متعارف کراسکیں۔ معیشت کا موجودہ نظام سود پر مشتمل ہے۔ اور
سودی نظام کبھی بھی ترقی نہیں پاسکتا۔ ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ قرضہ پر
مستقل سود بڑھ رہا ہے۔ اب حال یہ ہے کہ قرض تو کجا قرض پر بڑھنے والا سود
اتارنے کے لیے مزید قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں معاشی ترقی کی راہ
میں سب سے بڑی رکاوٹ سودی نظام ہے اور اس سلسلے میں دوسری خرابی غیرتربیت
یافتہ لوگوں کا اس منصب پر فائز ہونا ہے۔ یہ خرابی صرف اس شعبہ میں نہیں ہے
بلکہ اکثر شعبوں میں یہی حال ہے ۔ اگر تعلیم کا شعبہ لے لیاجائے تو ہمارے
ہاں نظام تعلیم کی بربادی کی وجہ بھی یہی ہے کہ محکمۂ تعلیم میں اکثر لوگ
نااہل ہیں۔ انہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ انہیں کرنا کیا ہے۔ بد قسمتی سے شعبہ
تعلیم کا قلمدان اور منصب اہل کے بجائے نااہلوں کے ہاتھوں میں ہے۔ اول تو
انہیں اپنے ذاتی کاموں سے ہی فرصت ہی نہیں ہے ۔ دوم یہ کہ انہیں معلوم ہی
نہیں ہے کہ تعلیمی نظام کیسے چلانا ہے؟ ابھی تک اس شعبہ میں بھی تجربات
ہورہے ہیں۔ یکساں اور معیاری نظام تعلیم کا خواب ابھی تک ادھورا ہے۔ ہر سال
بڑے بڑے دعوے ہوتے ہیں لیکن عملدر آمد کچھ نہیں ہوتا ۔ وجہ یہ ہے کہ محکمۂ
تعلیم کے پاس کوئی وژن ہی نہیں ہے کہ ہمیں کرنا کیا ہے۔محکمۂ تعلیم کا کام
صرف چھٹیوں کا اعلان کرنا رہ گیا ہے کہ فلاں دن چھٹی ہوگی۔ موسم گرما کی
تعطیلات کا شیڈول یہ ہے اور موسم سرما میں چھٹیاں اس تاریخ سے اس تاریخ تک
ہوں گی۔ بس اس کے علاوہ کوئی اور کام اس محکمے میں نظر نہیں آتا۔ سرکاری
کتابوں کی حالت وہی ہے جو پہلے تھی بس اسلام دشمنی میں تین کام ضرور کیے
جارہے ہیں۔ ایک تویہ کہ جنسی تعلیم کو آہستہ آہستہ نصاب میں شامل کیا جارہا
ہے ۔ دوسرا یہ کہ مسلمان ہیروز پر مشتمل اسباق کو خارج کیا جارہا ہے اور
تیسرا سب سے بڑا کام یہ کہ جہاں کہیں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ
خاتم النبیین لکھا ہے اسے حذف کرکے رحمۃ للعالمین لکھا جارہا ہے۔ چند
کتابوں میں اس طرح کی ریشہ دوانیاں ہوچکی ہیں۔ یہ محکمہ اسی کام میں مصروف
ہے۔ اس محکمہ کا جو اصل کام تھا اس پر کوئی توجہ نہیں ہے۔ محکمۂ تعلیم کا
کام صرف چھٹیوں کا اعلان کرنا نہیں ہے بلکہ معیاری تعلیم کے لیے پالیسیاں
بناکر ان پر عمل کروانا بھی ہے۔ پورے ملک میں ایک عجیب منظر ہے ،جس کی جو
مرضی میں آرہا ہے وہ پڑھارہا ہے۔ کوئی پیمانہ نہیں ہے، کوئی معیار مقرر
نہیں ہے۔ محکمۂ تعلیم کی ذمہ داری ہے کہ نصاب تعلیم کو معیاری بنائے۔
سرکاری اسکولوں کی آباد کاری کرے۔ سرکاری اسکولوں کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی
نہیں ہے۔ نئی حکومت نے سرکاری اسکولوں کو آباد کرنے کا بھی بڑا ڈھونگ رچایا
تھا لیکن آٹھ مہینے گزرنے کے بعد بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
معیشت اور نظام تعلیم کی بربادی کی سب سے بڑی وجہ نا اہلوں اور غیر تربیت
یافتہ لوگوں کو منصب دینا ہے۔ خدارا! ملک و قوم کے ساتھ مذاق بند کیاجائے ۔
سنجیدگی سے ان معاملات پر غور کیاجائے۔ دنیا اپنے مفکرین اور ماہرین کی قدر
کرکے کہاں سے کہا ں پہنچ گئی اور ہم ابھی تک اندھے بن کر اپنوں میں ریوڑیاں
بانٹ رہے ہیں۔ جب تک ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر اجتماعی اور قومی مفاد
کو پیش نظر نہیں رکھا جائے گا، ہم اس وقت تک ذلت اور رسوائی کی گھاٹیوں میں
پڑے رہیں گے۔ دورِ حاضر اس بات کا متقاضی ہے کہ ’’اپنوں کی دنیا ‘‘ سے باہر
نکل کر ہر شعبہ کو اس کے ماہرین اور تربیت یافتہ لوگوں کے حوالے کیاجائے
تاکہ وہ اپنے علم ، تجربات اور مہارت کی روشنی میں ملک و قوم کو بہتری کی
طرف لانے کی کوشش کریں۔
|