نجانے کیوں مجھے ان دانشوروں کی دانشوری پر رونا آتا ہے ۔جو
شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداری میں اپنی ساری بنی بنائی عزت برباد کرنے پر
تلے ہیں ۔جب ان کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ ’’عمران خان کچھ نہ کر پایا
تو کوئی کچھ نہیں کر پائے گا‘‘۔اسے صادق اور امین کا خطاب دیتے ہیں ،پھر
یہاں تک ہی نہیں عمران خان کو بھٹو جیسے عظیم لیڈر سے ملانے کی کوشش کرتے
ہیں ،صدام حسین کی خصوصیات کا مالک اور مدینے کی آواز اور پتہ نہیں کیا کچھ
کہتے ہوئے زرا بھی نہیں شرماتے ۔یہاں تک کہ عشق عمرانی میں قائد اعظم کا
جانشین کہنے سے بھی باز نہیں آتے ۔افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے چند دانشور حضرات
جو حق گوئی کی بجائے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کررہے ہیں ۔
عمران خان کوصادق اور امین کہنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ انہوں نے عوام
سے دھوکا کیا ہے ۔کنٹینر سے اقتدار میں آنے تک جتنے وعدے اور دعوے تھے سب
جھوٹ پر مبنی نکلے ۔انہوں نے پارلیمنٹ میں بار بار جھوٹ بولا ہے ۔صادق تو
وہ کسی صورت نہیں ہیں ۔امین کی بات لیں تو خیبر پختونخواحکومت سے لے کر
پارٹی فنڈ کی مد آنے والے پیسے میں کیا ہوتا رہا ہے،کسی کو واضح نہیں
ہے۔رہی کردار کی بات تو کرکٹ کے زمانے میں بھی جوا کھیلنے والے آج ملک کے
ساتھ بھی جوا کھیل رہے ہیں ۔کرکٹ میں بھی کسی طاقت کے سہارے رہے اور سیاست
میں بھی قوتوں کے سہارے زندہ ہیں ۔ایسی شخصیت کو لیڈر کہنا بھی ظلم ہے ۔ہاں
اقتدار حاصل کرنے والا ایک کھلاڑی کہا جا سکتا ہے اس سے بڑھ کر کچھ نہیں ۔
عمران خان سے نیا پاکستان بنوانے والے ہوش کے ناخن لیں ۔انہوں نے پرانے
پاکستان کی دھجیاں اڑاکر رکھ دی ہیں ۔تعلیم ،صحت ،معیشت تو بحرانی صورت حال
تک پہنچائی۔عوام کو زندہ درگور کر کے رکھ دیا ہے ۔اس ہوش ربا مہنگائی نے
عوام کا سانس لینا مشکل کر رکھا ہے۔سفید پوش طبقہ تو زندہ لاش بن چکا ہے ۔لوگ
ادویات نہ ملنے سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں،لوگ بھوک کی وجہ سے بچوں سمیت
خودکشیاں کر رہے ہیں۔تعلیم کے ساتھ جو کھلواڑ کیا جا رہا ہے ،وہ 22کروڑ
عوام پر پڑ رہا ہے ۔ہمارے ہاں تقریباً 50فیصد آبادی 25سال سے کم عمر افراد
پر ہے ،انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا نہایت ضروری ہے ،تب ہی وہ
کارآمد بن سکتے ہیں ورنہ وہ ریاست پر بوجھ بن جائیں گے ۔لیکن ہائر ایجوکیشن
کے بجٹ میں تقریباً 50فیصد کٹوتی اور یونیورسٹیوں کو چندے سے چلانے سے
تعلیم کے ابتر حالات کا ثبوت دے دیا گیا ہے ۔
یہ چند دانشور جو اپنے منہ بگاڑ کر عمران خان کی تعریفیں اور اپنی جعلی
دانشوری جھاڑتے ہیں،کاش وہ اپنی ائیرکنڈیشن گاڑیوں میں سے نکل کر باہر
رینگتے کیڑے مکوڑوں کی طرح زندہ انسانوں کی حالت زار کو دیکھ لیں ۔ریاست
مدینہ کے نام پر لوگوں کو بیوقوف بنانے والوں کا وہ بھیانک چہرہ بھی دیکھ
لیں۔جس کی وجہ سے ملک میں درجنوں لوگ اپنی جانوں ،عزتوں اور مال سے ہاتھ
دھو رہے ہیں ۔
جنرل ضیاء الحق نے اپنے ریفرنڈم کے لئے کلمہ استعمال کیا اور عمران خان نے
جنرل ضیاء الحق کی پیروی میں ریاست مدینہ اپنی سیاست میں استعمال کیا ۔عمران
خان ادھر اُدھر سے پکڑی پکڑائی باتوں سے سیاست کر رہے ہیں ،مگر عملی طور پر
ضیاء الحق سے کتنے بھی اختلافات ہوں ،مگر عمران خان کا ضیاء الحق سے مقابلہ
کرنا جنرل ضیاء کی توہین ہے ۔
ذولفقار علی بھٹو جیسے عظیم لیڈر کو ملکی اور عالمی طاقتوں نے بدنام
کیا،یہاں تک کہ عبرت کا نشان بنانے کے لئے پھانسی تک دے دی ۔یاد رہے کہ
بھٹو کو پیپلز پارٹی نے زندہ نہیں رکھا بلکہ ان کے کارناموں نے انہیں آج
بھی تاریخ میں زندہ رکھا ہے ۔غلطیاں انسان سے ہوتی ہیں،اگر غلطیاں نہ ہوں
تو وہ انسان نہیں فرشتہ کہلوائے ۔ذولفقار علی بھٹو سے بھی چند غلطیاں ہوئیں
،مگر ان کے کام غلطیوں سے بہت زیادہ بڑے تھے ۔لیکن ان کی نیت ہمیشہ ملک و
عوام کی فلاح و بہبود کی بہتری پر مرکوز رہی ہے ۔
ہم بھی عجیب قسم کے مفاد پرست لوگ ہیں ۔جہاں ہمارے مفادات کو نقصان پہنچنے
کا اندیشہ ہو ،وہاں پر ہم حد سے زیادہ حق گو اور اسلام پسند بن جاتے
ہیں۔ایسے عالم میں احتجاجی جلوسوں سے ہمارا غم و غصہ کم ہوتا ہے نہ ہی قومی
املاک کو نقصان پہنچانے اور مخالفین کے پتلے جلانے سے ہمارے اندر کی آگ
ٹھنڈی ہوتی ہے ۔لیکن جہاں ہمارے مفادات کو زک پہنچنے کا خدشہ ہو تو پھر
وہاں ہم لب بستگی کو غنیمت سمجھتے ہیں ۔یہی دوغلے پن اور مفاد پرستی کا
رویہ ریاستی سطح پر اپنا رکھا ہے ۔لیکن کیونکہ ہمارے دانشور حضرات عشق
عمرانی میں اتنے مدہوش ہو چکے ہیں کہ انہیں عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم
ظلم لگتا ہے نہ ہی انسانی حقوق کی حق تلفی لگتی ہے۔
عمران خان نے اپنی اپوزیشن کے دور میں کیا طوفان بدتمیزی برپا کر رکھا تھا
۔کہا جاتا تھا کہ یہ جمہوریت میں ان کا حق ہے ۔لیکن اب حزب اختلاف کچھ کرنے
کی کوشش کرتی ہے تو کہتے ہیں کہ عوام نے ان کا ساتھ دیا تو عوام کی چیخیں
نکلوا دیں گے ۔پہلے حزب اختلاف کو سمجھا جاتا رہا ہے کہ وہ اپنے اوپر
عدالتی کیسوں کی وجہ سے دباؤ میں ہے ،ڈیل اور ڈھیل کے چکر میں حزب اختلاف
کا کردار بھول چکی ہے۔کچھ ایسا ہی تھا ،مگر اب انہیں کچھ سانس دیا گیا ہے
۔یہی وجہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی مسلم لیگ (ن) نے اپنا
اپوزیشن کا رول ادا کرنے کا قصد کر لیا ہے ۔میاں نواز شریف نے اپوزیشن
الائنس بنانے کے لئے خواجہ آصف اور مولانا فضل الرحمٰن کو حرکت میں آنے کی
سبز جھنڈی دکھا دی ہے ۔مولانا کی تو پہلے ہی خواہش تھی اور وہ سمجھتے تھے
کہ حکومت کو ایک دن بھی نہیں دینا چاہیے ،مگر دوسری حزب اختلاف جماعتوں کا
ساتھ نہ ہونے کی وجہ سے کمزور پڑ جاتے تھے۔دوسری جانب میاں نواز شریف زیرک
سیاستدان ہیں انہیں وقت کا انتظار کرنا تھا،وہ تقریبا ً پورا ہو چکا ہے
۔انہیں حکومت کی ایک آدھ نا اہلی کی تلاش تھی ،یہاں تو پوری فہرست مل چکی
ہے ۔اسی لئے اپوزیشن نے اگست میں عوامی احتجاج کا مسلسل سلسلہ ترتیب دے دیا
ہے ۔
میاں نواز شریف جلد ہی اڑان بھر جائیں گے ۔مسلم لیگ (ن) کی دوسری قیادت نے
کمان سنبھال لی ہے ،جاننے والے جانتے ہیں کہ ظاہری کمان کوئی بھی سنبھالے
،تمام تر کنٹرول میاں نواز شریف کا ہی ہو گااور اپوزیشن میاں نواز شریف سے
زیادہ خطرناک کوئی نہیں کر سکتا ۔اس لئے حکومت کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے
۔عمران خان جو کہتے ہیں کہ حکومت کرنا تو بہت آسان ہے ،اس سے اندازہ ہوتا
ہے کہ ان کی کمان حکومت پر نہیں ،کیونکہ حکمرانی کرنا کبھی آسان نہیں ہوتا
۔یہ آسان اسی وجہ سے ہے کہ حکمران کوئی اور ہیں ۔لیکن اب جلد ہی تاریخ
مکافات عمل کو دہرائے گی ،حکومت کا اصل امتحان پھر شروع ہو گا۔
کیونکہ تحریک انصاف میں عدم برداشت بہت پائی جاتی ہے ۔خون خرابہ ہوگا،طاقت
کا استعمال عام کیا جائے گا۔کیونکہ دوسروں کا احتجاج جمہوری نہیں لگتا ۔پی
ٹی آئی ابھی تک اپوزیشن کی طرح حرکتیں کر رہی ہے ،اب اپوزیشن بامقابلہ
اپوزیشن رویہ ہو گا۔اس وجہ سے انتشار کا زیادہ خطرہ ہے۔اس میں نقصان بال
آخر عوام ہی کا ہونا ہے ۔
|