کسی ملک کی ترقی کا اندازہ اس کی شرح خواندگی سے لگایا
جا سکتا ہے۔ دنیا میں وہ ممالک جو ترقی یافتہ ہیں عموماََ سو فیصد شرح
خواندگی کے حامل ہیں ۔اگر پاکستان کے حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان میں
تعلیم کے اظہاریے منفی صورت حال پیش کرتے ہیں۔صرف واجبی خواندہ افراد ،یعنی
جو اپنا نام پڑھنا اور لکھنا جانتے ہوں انہیں خواندہ تسلیم کر کے شرح
خواندگی کے اعداد و شمار نکالے جائیں تو بھی کھینچ تان کر بمشکل ستر فیصد
تک پہنچتے ہیں۔ 2013 میں پیش کردہ یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق شرح
خواندگی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کے 221ممالک کی فہرست میں 180ویں نمبر پر
تھا۔ اسی طرح پاکستان کی بالغ شرح خواندگی لگ بھگ 57 فیصد ہے۔ہمیں ہر شعبے
میں چیزیں انگریزوں سے وراثت میں ملی ہیں، تعلیمی نظام ان میں سے ایک
ہے۔انگریزوں نے ہمیں منشی اور کلرک پیدا کرنے کیلئے ایک تعلیمی نظام دیا
تھا اور ہم آج تک اسی کو پکڑے ہوئے ہیں۔انگریزوں نے بھی اپنے بچوں کیلئے
کچھ سکول بنائے ہوئے تھے آج ہمارا اشراف طبقہ بھی یہی کر رہا ہے۔وہ ہائی
سکول کے بعد اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کیلئے باہر بھیجتے ہیں اور انہیں
پاکستان کے تعلیمی نظام سے لگاؤ ہی نہیں ہے۔ملک میں واضح طور پر دو طبقے
ہیں ایک وہ جو گرائمر کی پیداوار ہیں اور دوسرے وہ جن کی قسمت خراب تھی اور
قدرت نے انہیں پرائمری سکولوں میں پہنچا دیا۔ملک میں تعلیم اس قدر عام ہے
کہ ہر گلی محلے میں دس بارہ سکول موجود ہیں ۔لیکن ان متعدد سکولوں کا
تعلیمی معیار کیا ہے؟ دوغلا تعلیمی نظام دوغلی نسل پروان چڑھا رہا ہے۔ سندھ
میں تعلیم کے حوالے سے ابتر صورتحال پر بات کی جائے تو یہی محسوس ہوتا ہے
کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔نہ ہی سندھ حکومت اور نہ ہی عوام اس ضمن میں
اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں اپنے نقصان کا ادراک ہو سکتا
ہے۔تعلیم پر سرمایہ کاری ہی قوموں کو عالم میں ممتاز کرتی ہے جبکہ ہم اپنے
ملک میں دیکھیں تو تعلیم کیلئے برائے نام بجٹ مختص کیا جاتا ہے۔ غرضیکہ پست
شرح خواندگی ، نظام تعلیم کی بربادی ، تعلیمی اداروں میں داخلے کی پست جبکہ
ترک مدرسہ کی بڑھتی ہوئی شرح ، سرکاری شعبے میں تعلیمی اداروں کی کمی ،
تعلیمی سہولیات کا فقدان ، تربیت یافتہ اساتذہ کا نہ ہونا ، غربت ، امن و
امان کی صورت حال ، تعلیمی مساوات کا فقدان، معیاری نصاب کا نہ ہونا ،
تعلیم کا دینی و دنیاوی دو دھڑوں میں منقسم ہونا سمیت کئی ایسے باہم مربوط
مسائل ہیں جو سندھ کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ سندھ کا حال چاروں صوبوں
کی نسبت بدتر ہے ۔چاہے وہ شعبہ تعلیم ہو ، چاہے حفاظت ہو یا صفائی ستھرائی
،یعنی آپ کو گورننس کی بد ترین شکل اگر کہیں نظر آئے گی تو وہ صوبہ سندھ
میں! ۔ یہاں کے سکولوں میں سے ہزاروں سکول ایسے ہیں جو ایک کمرے پر محیط
ہیں،اور ہزاروں بند پڑے ہیں ۔عوام سرکاری سکولوں میں اپنے بچوں کو تعلیم نہ
دلوا کر سندھ حکومت پر عدم اعتماد کا واضح پیغام دے چکی تھی۔سندھ گورنمنٹ
کی طرف سے تجرباتی طور پر آئی بی اے کے زیر اہتمام ہیڈ ماسٹروں کو کنٹریکٹ
کی بنیاد پر تعینات کیا گیا ۔وسائل نہ ہونے کے باوجود یہ ہیڈ ماسٹرز
انقلابی تبدیلی لانے میں کامیاب ہوئے اور سرکاری سکولوں میں کوالٹی
ایجوکیشن ، جدید تقاضوں کے مطابق مختلف تکنیکس کا استعمال ٹیچرز کی اپنے
طور پر ٹریننگز ، پہلی بار کلاسوں کو ٹیچر سنٹر سے سٹوڈنٹس سنٹر بنانے پر
بھرپور توجہ دی اور کامیاب ہوئے۔اس سے نا صرف عوام کا اعتماد بحال ہوا بلکہ
انرولمنٹ کی بڑھتی ہوئی تعداد سے اندازہ ہوتا ہے کہ سندھ کے تعلیمی نظام
میں زندگی دوبارہ لوٹ آئی ہو۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ان کی تعیناتی سے
پہلے تک سندھ میں محکمہ تعلیم کے پاس اپنے ادارے کا ڈیٹا ہی جعلی تھا جس کا
اعتراف خود سیکرٹری ایک سیمینار میں اور وزیر تعلیم نے اسمبلی کے فلور پر
کیا۔ آج محکمہ تعلیم حقیقی ڈیٹا کی موجودگی بھی انہیں ہیڈ ماسٹرز کی محنت و
لگن اور فرض شناسی کی مرہون منت ہے۔لیکن ان کی ایمانداری، دیانتداری اور
فرائض کی حلال ادائیگی خود اپنے لئے سب سے بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ سرکاری
سکولوں کی پوزیشنیں نکلوانے اور انہیں نئی اور حقیقی سمت کی جانب گامزن
کرنے کی وجہ سے اب ان آئی بی اے کے ہیڈ ماسٹروں کے سروں پر کنٹریکٹ کی
تلوار لٹک رہی ہے جس سے یہ لوگ پریشان ہیں۔کوئی فرض شناس شخص جب ملک و ملت
کی خدمت پوری لگن سے کر رہا ہوتا ہے تو اس کے ساتھ بلا وجہ ایسا سلوک روا
رکھنا واقعی تکلیف دہ امر ہے۔صرف سکولوں کے نظام میں ہی نہیں بلکہ بچوں پر
بھی اس کا گہرا اثر پڑے گا ،کیونکہ بچوں کی مانوسیت ان کی سوچ و توانائی پر
گہرا اثر ڈالتی ہے۔ہیڈ ماسٹروں کے جانے سے بچوں کے ذہنوں پر جو اثرات رونما
ہوں گے اس سے ہو سکتا ہے کہ بچے پڑھنا چھوڑ دیں یا اس دوڑ میں بہت سست ہو
جائیں۔ سندھ حکومت دیگر ملازمین کیلئے تو دیری نہیں کرتی ، لیکن میرٹ پر
بھرتی ہونے والے اور میرٹ دکھانے والوں کو ریگولر کرنے میں کیوں دلچسپی
نہیں رکھتی؟سندھ حکومت کو چاہئے کہ کنٹریکٹ پالیسی پر نظر ثانی کرے اور ان
محنت کش ملازمین کو مزید ملک و ملت کی خدمت کا موقع دے تاکہ سندھ کے لوگ
بھی سرکاری سکولوں میں معیاری تعلیم تک رسائی حاصل کر سکیں۔موجودہ حکومت
بھی کنٹریکٹ کے اس فیصلے پر نظر ثانی کرے اور سندھ کی عوام کیلئے بنیادی
سہولیات کی فراہمی میں ہر ممکن مثبت اقدامات کرے۔
|