وطن عزیزکی موجودہ صورتحال پرنظردوڑائی جائے تووہ مقبول
زدعام شعربے اختیارلبوں پرگردش کرنے لگتاہے کہ میرے وطن کی سیاست کاحال مت
پوچھو ۔۔۔۔۔ گزشتہ جمعرات کواچانک یہ خبرآئی کہ شہبازشریف نے صحت کی
بنیادپرپبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی چھوڑدی ہے خبرتوکوئی خاص نہیں تھی
شہبازشریف کواس کمیٹی کی سربراہی کے حوالے سے اس قدرمتنازعہ بنایاگیاتھاکہ
انہیں جلدیابدیراس عہدے سے ہٹناہی تھاانکے اب اسطرح ہٹ جانے سے طرح طرح کی
چہ مہ گوئیاں شروع ہوچکی ہیں کوئی انکے واپس نہ آنے کی پیشنگوئیاں کررہاہے
توکوئی اسے کسی ڈیل یاڈھیل کانتیجہ قراردے رہاہے اصل صورتحال جوبھی ہواس
کااندازہ توآنے والے چنددنوں میں ہوہی جائیگامگرپاکستان میں دورکی کوڑی
لانے والوں کے ہاتھ ایک ’’ہاٹ ایشو‘‘لگ چکاہے اصل ایشوزپرناہی بات ہوتی ہے
اورناہی انکاحل کسی جانب سے پیش کرنے کی زحمت گواراکی جارہی ہے لائیوٹیلی
کاسٹ نے اس ملک کاسیاسی کلچرتباہ کردیاہے یہاں کابینہ میں ردوبدل ہو، پنجاب
حکومت کی کارکردگی ہو، آئی ایم ایف سے مذاکرات ہوں،عدالتوں میں زیرسماعت
مقدمات ہوں ،جے ٓئی ٹی کی کارروائی ہو،احتساب ادارے میں کسی کی پیشی
ہو،گرفتارہوناہو یاجیل سے باہرآناہو،کہیں آناہو،جاناہو،مہمان کی آمدہو،کتنے
ارب ملیں گے یہ خوشخبریاں ہوں بھارت کیساتھ کشیدگی ہویانیشنل ایکشن پلان
پرعملدرآمدہویہ سب لائیوہوتاہے ان پرہرکس وناکس کی جانب سے تبصرے سننے کومل
رہے ہیں چاروں جانب سے ماہرانہ آراء پیش کی جارہی ہیں اورمفت مشوروں کی
بھرمارہے جس میں کوئی مشورہ اس قابل ہی نہیں ہوتاجس پرعمل ہوسکے آئی ایم
ایف سے مذاکرات کامسئلہ اس قدراچھالاگیاجیسے اس ملک میں اسکے علاوہ تمام
مسائل حل ہوچکے ہوں اسدعمرکی کابینہ سے رخصتی پروہ واویلامچایاگیاکہ کان
پڑی آوازسنائی نہیں دے رہی تھی ان حالات میں سنجیدہ لوگ انگشت بدنداں ہیں
کہ یہ ملک اوریہ قوم کس جانب محوِ سفرہیں ساری دنیامیں بین الاقوامی
مالیاتی اداروں سے قرضے لئے جاتے ہیں دنیاکے بڑے بڑے صنعتی ممالک ان
مالیاتی اداروں سے قرضے لیکراپنی معیشت کی سمت درست کرنے کی سعی کررہے ہیں
مگرہمارے ہاں بین الاقوامی قرضوں کواس قدرمتنازعہ بنایاگیاان پراس اندازسے
لعن طعن کی گئی کسی جانب سے آئی ایم ایف کے منہ پرپیسے مارنے کی باتیں کی
گئیں تودوسری جانب سے آئی ایم ایف سے قرضے کی بجائے خودکشی کوترجیح دینے کی
لایعنی باتیں سامنے آئیں میری نظرمیں حکومت اس وقت جن مشکلات ومصائب
کاشکارہے اس میں حکومتی اکابرین کی طفلانہ باتوں کاعمل دخل بدرجہء اتم
موجودہے تیسری دنیاکی قرضوں میں جکڑی ہوئی ایک معیشت اگربین الاقوامی
مالیاتی اداروں سے قرضے لیکرکاروبارِ مملکت نہ چلائے توانکے پاس
ایساکونساآلہ دین کاچراغ ہے جسے رگڑکرنمودارہونے والے دیوکے ذریعے ملک میں
سونے چاندی کی بارش ہونے لگے گی ؟ مالیاتی اداروں سے قرضے کواس قدرحساس
مسئلہ بنایاجاچکاہے کہ اب حکومت کے پاس بھی اپنی ہی ماری گئی بونگیوں
کاکوئی جواب موجودنہیں اوپرسے حکومت کی ناقص اقتصادی پالیسیوں اوربیڈ
گورننس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے حکومتی پالیسیوں
کی اس سے بدترین مثال اورکیاہوگی کہ گنے کی کرشنگ سیزن کے دوران ہی چینی کی
قیمتوں میں ہوشربااضافہ ہواگندم کی کٹائی کے دوران ہی بیس کلوآٹے
کاتھیلاسوروپے سے زیادہ مہنگاہوامگرحکومتی وزرامحض بیانات پراکتفاکئے بیٹھے
ہیں اب حکومتی وزرایاناتجربہ کاراکابرین کوکون سمجھائے کہ حکومتیں اخباری
بیانات اورٹی وی ٹاک شوزکے ذریعے نہیں چلائی جاتیں حکومتیں حکم دیتی ہیں
اورسرکاری مشینری کے ذریعے اپنے احکامات پرعملدرآمدکرایاجاتاہے چینی کی
قیمت حکومت مقررکرے اورحکومتی مشینری کواس قیمت پردستیابی یقینی بنانے میں
لگ جاناچاہئے رمضان المبارک کے دوران اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کوخودساختہ ،
ناجائزاورظالمانہ طورپربڑھادیاگیاجس کاحل سستابازاروں کے کاسمیٹکس اقدامات
میں ڈھونڈاگیااگرلیموں بازارمیں پانچ سوروپے کلوہوگیاتوحکومت اس کانرخ
مقررکرے کہ لیموں کی قیمت پاکستان میں سوروپے کلوہوگی اب اگرکوئی دوکاندار،
ریڑھی بان ،تھوک فروش یامنڈی کابیوپاری اس حکومتی حکم کی خلاف ورزی کامرتکب
ہوتاہے توحکومت اس کاتمام مال ضبط کرے اوراسے رمضان کے پورے ایام کیلئے
شیطان کی طرح جیل بھیج دے تربوزجواس ملک کی اپنی پیداوارہے اسکی قیمتیں اس
مرتبہ تاریخ کی بلندترین سطح پرپہنچ گئیں کیاحکومت اسکی مناسب اورقابل قبول
قیمت مقررکرکے اس پرعملدرآمدکرانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ؟ گوداموں
پرچھاپے مارنے ، پکڑدھکڑکرنے اورسینکڑوں بیانات داغنے سے بہترنہیں کہ حکومت
پرائس کنٹرول کمیٹیوں کوفعال بنائے تمام اشیائے خوردونوش کی قیمتیں حکومت
کی جانب سے مقررکی جائیں اورجوچھوٹابڑا اعلیٰ وادنیٰ اسکی خلاف ورزی کرے
حکومتی مشینری اسکے خلاف حرکت میں آئے اوراسے عبرت ناک سزادی جائے اسطرح
حکومتی رٹ بھی قائم ہوجائیگی اورعوام کوبھی ریلیف مل جائیگامگرحکومتی
کارپردازکرنے کے اصل کاموں کی بجائے فروعی باتوں میں اپناوقت ضائع کرکے
سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے عوام کی بڑی خدمت کرلی اسی طرح کسی بین الاقوامی
مالیاتی ادارے کیساتھ مذاکرات کی صورت میں حکومت ان تمام باتوں کواپنے تک
محدودکرلے، اسے یوں سرعام بحث ومباحثے کی نذرہونے سے بچائے، دنیامیں کہیں
بھی کسی مالیاتی ادارے کیساتھ بات چیت یوں لائیواورسرعام نہیں ہوتیں
،ہرایرے غیرے کوحکومتی معاملات پررطب السانی سے روکاجائے، حکومتی معاملات
حکومت دیکھے ،وزراکوبے جا،فضول اورلغوبیان بازی سے سختی کیساتھ
روکاجائے،کابینہ اوردیگرممبرانِ پارلیمنٹ قانون سازی پرتوجہ دیں،قرضے کی
مدمیں ملنے والی رقوم کادرست استعمال یقینی بنایاجائے ،حکومتی معاشی ٹیم
اپناکام تندہی کیساتھ انجام دینے کی جانب توجہ دے اوراپوزیشن کیساتھ مشاورت
سے آ گے بڑھاجائے توکوئی وجہ نہیں کہ ہم مختصرعرصے میں معاشی بحران سے
نکلنے میں کامیاب ہوجائیں اوردردرکی بھیک مانگنے سے ہماری گلوخلاصی ہو
مہنگائی سمیت کسی بھی مسئلے کاحل لائیونشریات نہیں ۔
|