سعودی عرب نشانہ ۔۔۔؟

حرمین شریفین کے امور کے صدر شیخ ڈاکٹر عبدالرحمان السدیس کا سعودی آئل پمپنگ اسٹیشنوں پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماہ مقدس میں اس طرح کی کارروائیاں بھٹکے ہوئے لوگوں کا عمل ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ آئل پائپ لائن اور تنصیبات کو نشانہ بنانا دہشت گردی اور اسلامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔

مشرق وسطی میں اس وقت ہلچل مچی ہوئی ہے ،ایران کی طرف سے امریکہ اوردیگرعالمی اداروں کے ساتھ 2015 میں کیے گئے جوہری معاہدے سے دستبرداری کے اعلان کے بعد خلیج میں کشیدگی بڑھ رہی ہے ، امریکا نے ایران پر نئی معاشی پابندیوں کے فوری بعد مشرق وسطی میں طیارہ بردار جہاز اور بی 52 بمبار طیارے تعینات کردیئے ہیں اس کشیدگی کے ماحول میں سعودی عرب اوراس کی معیشت کونشانہ بنانے کی مذموم مہم بھی شروع ہوگئی ہے ،اس وقت کشیدگی ایران اورامریکہ کے درمیان ہے مگرنشانہ سعودی عرب بن رہاہے یہ وہی صورتحال ہے جس طرح جنگ امریکہ اورافغانستان کے درمیان تھی مگرنشانہ پاکستان تھا ۔
شیخ سدیس کایہ بیان ان حملوں کی مذمت میں ہے جوگزشتہ چنددنوں میں سعودی عرب میں کیے گئے ہیں ،بھٹکے ہوئے یہ دہشت گرد سعودی عرب کونشانہ بناکرمسلمانوں کے دلوں کوزخمی کررہے ہیں ان دہشت گردوں نے پہلے مشرقی ساحل کے قریب الفجیرہ سے ملحقہ عالمی پانیوں میں سعودی عرب سمیت متعدد دیگر ملکوں کے بحری جہازوں پرحملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں تیل بردار جہازوں کو نقصان پہنچا ہے۔ امریکا کی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کاکہناہے کہ متحدہ عرب امارات کے قریب سمندر میں تیل بردار بحری جہازوں پر تخریب کاری کے حملے کے پیچھے ایران نواز عناصر کا ہاتھ ہے۔امریکی حکومت کے ایک سینیر عہدیدار نے کہا کہ امارات کے قریب دو سعودی، ایک اماراتی اور ایک ناروے کے بحری جہازپر حملوں میں ایران کے حامی جنگجو گروپ ملوث ہیں۔اس حملے کے فورابعدسعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے قریب تیل سے مالامال مشرقی صوبے صوبے سے لے کربحیرہ احمرتک ( الدوامی اور عفیف کمشنریوں میں) واقع آرامکو کمپنی کے دو پمپنگ اسٹیشنز کو نشانہ بنایا گیا۔سعودی اتحاد کے خلاف جنگ میں مصروف حوثی باغیوں نے ان ڈرون حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اورکہاہے کہ اور ایسے حملے مستقبل بھی جاری رہیں گے۔ سعودی پریس ایجنسی کے مطابق اس بڑی پائپ لائن میں یومیہ کم از کم 50 لاکھ بیرل کی گنجائش ہے۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ خلیج اور تیل کے پمپنگ اسٹیشنوں کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں کا مقصد دنیا بھر میں تیل کی سپلائی کو نشانہ بنانا ہے۔سعودی کابینہ نے اپنے اجلاس میں کہا کہ "حال ہی میں خلیج عربی میں ہونے والی تخریب کاری میں مملکت کو نشانہ نہیں بنایا گیا بلکہ یقینا دنیا کے لیے توانائی کی سپلائی کی سیکورٹی اور عالمی معیشت کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ سعودی عرب ان حملوں سے عالمی معیشت نشانہ کیسے بنی ؟ کیوں کہ مشرق وسطی میں آئل ٹینکراورپائپ لائنوں پر ہونے والے حملوں کے بعدعالمی معیشت پر دباؤ کے بعد سرمایہ کاروں اور تاجروں میں تشویش کی صورتحال پیدا ہونے پر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔سعودی عرب یورپی ملکوں کو ماہانہ 10 ملین بیرل تیل فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس وقت سعودی عرب کی طرف سے یورپی ملکوں کو 3 ملین بیرل تیل ماہانہ فراہم کیا جا رہا ہے۔سعودی عرب روزانہ 1.07 کروڑ بیرل خام تیل پیدا کرتا ہے۔ جبکہ اس کے پاس روزانہ 13 لاکھ اضافی بیرل پیدا کرنے کی بھی گنجائش ہے جس کا استعمال وہ جب چاہے کر سکتاہے۔ اس طرح خام تیل کی عالمی پیداوار میں سعودی عرب کا حصہ تقریبا 12% ہے۔

تیل برآمد کرنے والے ممالک کے ادارے (اوپیک)میں سعودی عرب دنیا کا سب سے بڑا اور متحدہ عرب امارات تیسرا بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک ہے۔ تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کے 2015 کے اندازوں کے مطابق سعودی عرب کے پاس 266 ارب بیرل تیل کے ذخائر موجود ہیں۔اگر یہ اعداد و شمار درست ہیں تو سعودی عرب کا تیل آئندہ 70 سالوں میں ختم ہوگا اس حساب کے لیے اوسط روزانہ 12 لاکھ بیرل کے استعمال کا اندازہ لگایا گیا ہے مگرایران مخالف قوتیں اس سے پہلے اس ذخیرہ کو تباہ کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہیں۔۔سعودی عرب میں تیل کے ذخائر کتنے ہیں اور کب تک چلیں گے، یہ اب بھی ایک راز ہے۔

علاقائی معیشت میں سعودی عرب کا کردار سادہ سا نہیں ہے۔ سال 2016 میں سعودی عرب کی معیشت کی نمو میں کمی آئی جس کے اثرات پورے خطے پر پڑے۔ اس نے عالمی کمپنیوں کے فیصلے پر بھی اثر ڈالا کہ آیا وہ خطے میں رہیں یا کوچ کر جائیں۔مگرگزشتہ دوسالوں سے سعودی عرب نے نہ صرف اپنے آپ کو سنبھالا ہے بلکہ دیگرممالک کی معیشت کوبھی سہاردہ دیاہے جس میں پاکستان ،بحرین ،اردن اورمصرشامل ہیں ۔ مختصر یہ کہ سعودی عرب کی معیشت کا اثر صرف سعودی عرب تک محدود نہیں رہتا اور اس کو پہنچنے والے کسی بھی ضرر کے نتائج علاقائی اور عالمی سطح پر مرتب ہوتے ہیں ۔

پاکستان میں متعین سعودی سفیرنواف سعیدالمالکی کی طرف سے دیئے گئے افطارڈنرمیں ملک کی قومی قیادت نے سعودی عرب پرحالیہ حملوں پرتشویش کااظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ یہ حملے صرف سعودی عرب کوکمزورکرنے کی سازش نہیں بلکہ عالمی معیشت پرحملے ہیں میں اپنے بھائی عارف قریشی کے ساتھ اس افطارپارٹی میں شریک تھا افطارپارٹی میں شریک وزیراعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان ،وزیرسائنس فوادچوہدری ،زبیدہ جلال،شیخ رشید،راجہ ظفرالحق ،سلیم مانڈی والا،قاسم سوری ،پیرنورالحق قادری ،مولاناعبدالغفورحیدری ،مولانافضل الرحمن خلیل ،علامہ شاہ اویس نورانی،سینیٹرفیصل جاوید ودیگرقائدین کے علاوہ غیرملکی سفراء نے سعودی عرب کے ساتھ یکجہتی کااظہارکیا ہے دفترخارجہ کی طرف سے بھی ان حملوں کی مذمت کی گئی ہے اوروزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاہے کہ امریکہ ایران تنازعے میں پاکستا ن غیرجانب داررہے گا ۔

افطارڈنرمیں سعودی سفیرکی طرف سے یہ خوشخبری بھی دی گئی کہ سعودی عرب نے تارکین وطن کو گرین کارڈ دینے کا اعلان کیاہے ،سعودی عرب نے تاریخی اقدام اٹھاتے ہوئے اسپیشل پریولیجڈ اقامہ کا قانون منظور کرلیا جس سے ملک میں خصوصی اہلیت والے غیر ملکی افراد متعدد رہائشی سہولیات سے مستفید ہوسکیں گے۔ اس نئی اسکیم سے تارکین وطن مخصوص فیس ادا کرکے سعودی عرب میں رہائش رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے اہلِ خانہ کو اپنے ساتھ رکھ سکتے ہیں، رشتہ داروں کے لیے ویزا لے سکتے ہیں اور گھریلو ملازمین کے ساتھ ساتھ جائیداد بھی خرید سکتے ہیں،۔سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے 3 سال قبل اس اسکیم کو لاگو کرنے کے لیے پیش رفت کا آغاز کیا تھا۔

سرمایہ کاروں میں تشویش تھی کیونکہ لوگ کفیل کی وجہ سے اپنا کاروبار کھو رہے تھے۔سعودی کابینہ کی منظورکے بعد اب اس نظام کے تحت تارکین وطن کو کفیل کی ضرورت نہیں رہے گی اور سفارتخانوں میں طویل قطاروں کا بھی خاتمہ ہوگا۔واضح رہے کہ سعودی عرب میں غیر ملکیوں کو کفیل کی صورت میں کاروبار میں شراکت دار رکھنا ضروری ہوتا ہے اور اس کے بغیر کاروبار کی اجازت نہیں۔اس نئی اسکیم کا سب سے بڑا فائدہ ان پاکستانیوں کو ہوگا جو وہاں کی زبان جانتے ہیں، وہ اپنا چھوٹا درمیانے درجے کا کاروبار کرسکیں گے اور بغیر مقامی شراکت داروں پر بھروسہ کیے دیگر پاکستانیوں کو اپنے پاس روزگار دے سکیں گے۔ وزارتِ خارجہ کے مطابق اس وقت سعودی عرب میں 26 لاکھ پاکستانی ریاض، دمام، طائف اور جدہ میں مقیم ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے آسانی سے سعودی عرب آمد ورفت اور وہاں جائیدادوں کی خرید و فروخت اچھا اقدام ثابت ہوگا۔

Umer Farooq
About the Author: Umer Farooq Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.