بنکاک سے چنگ مائی تک کے سفر میں میں نے دو ہفتے گزار
دئیے مختلف جگہوں پر سیر بھی کی تربیتی سیشن میں بھی حصہ لیا دو باتیں جو
کم از کم میرے لئے حیران کن اور عجیب تھی ان میں ایک عادت یہی تھی کہ میں
نے کسی گھر کا دروازہ بند نہیں دیکھا دروازے کھلے ہوتے تھے کچھ عجیب سی
صورتحال تھی جس جگہ پر ہماری رہائش تھی وہاں پر اسی ادارے کے لوگوں کی بڑی
تعداد تھی ہر ایک شخص کو کمرہ دیا گیا تھا لیکن کوئی کسی کے کمرے میں نہیں
جاتا تھا واش رومز کمروں سے باہر تھے جہاں پر ہر کوئی اپنا سامان رکھتا
تھاجس میں شیونگ کے سامان سے لیکر ٹوتھ پیسٹ‘ شیمپو اور دیگر سامان پڑا
ہوتا تھا لیکن مجال ہے کہ کوئی دوسرے شخص کے سامان کو ہاتھ لگاتا یا
استعمال کرتا.
میرا پاسپورٹ‘ موبائل فون‘ بٹوہ رقم سمیت تمام ڈاکومنٹس پڑے ہوتے تھے کوئی
ہاتھ تک نہیں لگاتا تھا‘ حالانکہ کمرے ساتھ ساتھ تھے لیکن کبھی نہیں دیکھا
کہ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر کسی کے کاغذات چیک کئے‘ پاسپورٹ دیکھا‘ جو
کہ ہمارے ہاں ایک عام سی بات ہے. رات کو سوتے وقت کمرے کو اندر سے کنڈی
لگانا میری عادت ہے اسی طرح دن کو ہم تربیتی سیشن میں ہوتے تھے لیکن مجال
ہے کہ کوئی کمرے میں آیا ہو اور کسی چیز کی تلاشی لی ہو‘ وجہ شائد یہ بھی
ہوسکتی تھی کہ ہم سب صحافی تھے اور مجھ سمیت دنیا بھر سے صحافی اس تربیتی
سیشن کیلئے آئے ہوئے تھے صرف میں واحد مرد تھا باقی تمام خواتین تھی سات
مختلف براعظم سے تعلق رکھنے والے خواتین صحافی تھی حالانکہ سن گن لینے کی
خواتین کی بڑی عادت ہوتی ہیں لیکن اسی سن گن لینے کی عادت ہمارے گروپ میں
صرف بھارت کی دو خواتین کو تھی جو مجھ سے کرید کرید کر مختلف سوال کرتی تھی
اور میں بھی جواب دیا کرتا تھا لیکن اسی تربیتی سیشن میں جا کر میں اپنے آپ
کو اکیلا اکیلا محسوس کرتا جیسے کہ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ بھیڑوں میں
گدھا‘ یا گدھوں میں بھیڑ‘ اب مجھے نہیں پتہ کہ میں گدھا تھا یا بھیڑ لیکن
اس گروپ میں اپنے آپ کو اکیلا محسوس کر تا تھا.
صبح ناشتے سے لیکر رات کے کھانے تک مجھے حرام کھانے کا خوف ہوتا تھا اور یہ
اس وقت بھی تھا جب میں بنکاک میں تھا تو جنرل سٹور سے چاکلیٹ اور بسکٹ کھا
کر وقت گزارتا تھا اور اگر بہت زیادہ بھوک لگتی تو پپیتا اور دوسرے فروٹ
لیکر کھاتا کہ پیٹ ہی تو بھرنا ہے اور یہی صورتحال تربیت کے دوران بھی رہی
صبح ناشتے کے دوران صحافی خواتین اور ادارے کے لوگ پتہ نہیں کیا کیا کھاتے
اسی طرح دوپہر کے کھانے سمیت رات کے کھانے کا بھی یہی حال ہوتا جبکہ صبح کے
ناشتے سے میں ڈبل روٹی‘ جیم اور مکھن سے لیکر دن اور رات کے کھانے میں اتنے
چاول میں زندگی بھر میں نہیں کھائے جتنے ان پندرہ دنوں میں کھائے اور چاول
بھی وہی سفید چاول. جس کا نہ ذائقہ ہوتا تھا لیکن بس پیٹ بھرنا ہوتا اور
میں پیٹ بھر تا تھا جبکہ میرے مقابلے میں دنیا کے مختلف کونوں سے آئی ہوئی
خواتین جن میں دو مسلمان خواتین صحافی بھی تھی کھانے کے معاملے میں ایڈونچر
پسند تھی ہر چیز ٹھونس دیتی تھی - سوپ سے لیکر مختلف قسم کی سبزیاں لیکن
اللہ نے مجھے اس ایڈونچر سے بچائے رکھا.
تھائی لینڈ جاتے ہوئے میں نے سر پر مشین پھیری تھی یعنی کہنے کوگنجا بھی
تھا لیکن کچھ بال بھی تھے- سو میں شیمپو نہ ہونے کے ٹنشن سے آزاد تھاایک
لکس صابن مقامی طور پر اپنے لئے آٹھ بھات کا خریدا تھا جو دو ہفتے مسلسل
استعمال کے بعد بھی ختم نہیں ہوا اس وقت پاکستان میں لکس صابن کی قیمت پچیس
روپے ہوا کرتی تھی اب تو شائد پچاس روپے ہیں.ایک دن امریکی صحافی جو کہ اس
ادارے کے ساتھ تربیتی سیشن میں تھا جس کا نام ناتھن تھا سے شیمپو طلب کیا
وہ مجھے حیران نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ اس گنجے سر پر تم نے شیمپو کرنا
ہے‘ تو میں نے بھی ڈھٹائی سے کہہ دیا کہ دل بھی تو خوش کرنا ہے اور اس نے
ہنستے ہوئے شیمپو دیدیا.
تھائی لینڈ کے دو شہروں کے سفر کے دوران میں نے کہیں پر نہیں دیکھا کہ بجلی
کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہو یہاں پاکستان سے جس وقت میں جارہا تھا یہاں لوڈشیڈنگ
سے برا حال تھا ذہنی طور پر میں پاکستان میں تھا جبکہ جسمانی طور پر تھائی
لینڈ میں‘ سو ڈرتا رہتا کہ کہیں بجلی نہ چلی جائے لیکن مجال ہے کہ کہیں پر
بجلی گئی ہو‘ ابتداء میں جب میں نے بنکاک کے گیسٹ ہاؤس میں تھا تو گیسٹ
ہاؤس کے مالک سے پوچھا کہ بجلی تو نہیں جاتی لیکن میرے سوال نے اس گیسٹ
ہاؤس کے مینجر کو حیران کردیا کہ یہ کیا پوچھ رہا ہے اور جب میں نے اسے
پاکستان کی صورتحال بتا دی تو وہ ہنسنے لگا. او ر میرے دل میں اپنے آپ کو
کو س رہا تھا کہ کیوں اس کو بتا دیا اب یہ ہر جگہ پاکستان میں لوڈشیڈنگ
ہونے متعلق لوگوں سے بات کریگا.
فرانسیسی خاتون سیاح جومیرے ساتھ رہی تھی اس سے میں نے پوچھا کہ تم کب سے
آرہی ہو کبھی ایسا ہوا ہے کہ یہاں بجلی گئی ہو تو اس نے بتایا کہ دو سال سے
زائد کا عرصہ ہوا ہے میں مسلسل آتی رہی ہو‘ مختلف اوقات میں لیکن بجلی کی
لوڈشیڈنگ کا سوچنا بھی نہیں‘چنگ مائی جاتے ہوئے بجلی کا فیڈر دیکھا لیکن
چوکیدار کھڑا نہیں دیکھا ایسا لگتا تھا کہ ویرانی ہوئی ہمارے ہاں تو ماشاء
اللہ‘ بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے لوگ نکلتے ہیں اور اپنے ہی پیسوں کے بنے
ہوئے بجلی کے فیڈر کو آگ لگاتے ہیں.
تھائی لینڈ میں خواجہ سراء اور لڑکیوں کا پتہ نہیں چلتا‘ موبائل مارکیٹ میں
ونڈو شاپنگ کرتے ہوئے حیرانی ہوتی کہ دکان میں بیٹھی خاتون ہے یا شی میل‘
خدا جانے‘ اتنی میک اپ کی ہوتی ہیں کہ پاکستانی خواتین ان کے مقابلے میں
کچھ بھی نہیں‘ دکان پر بیٹھی ناخن کاٹ رہی ہوتی ہیں یا پھر ناخنو ں کو آرے
سے ٹھیک کرنے کی کوشش میں مصروف ہوتی ہیں یا پھر نیل پالش لگانے میں مصروف
عمل‘ اتنی خوشبوئیں استعمال کرتی ہیں کہ مارکیٹ میں اندر داخل ہوتے ہوئے
عجیب سی کیفیت ہو جاتی ہیں. زندگی میں دو مرتبہ گھٹن محسوس کی ہے ایک مرتبہ
بنکاک کی مارکیٹ میں اتنی زیادہ خوشبوئیں‘ کہ دل کرتا ہے کہ بھاگ جاؤں اور
دوسری مرتبہ یوکرائن کے دارالحکومت kyiv میں انڈر گراؤنڈ مارکیٹ میں گھومتے
ہوئے شراب کی بدبو نے‘ دل کرتا تھا کہ کہیں بھاگ جاؤ یہ کہاں آکر پھنس گیا
ہوں‘ تھائی لینڈ کی دکانوں پر بیٹھی سیلز گرل میں بیشتر ایسی میں نے دیکھی
ہیں کہ جن کے دانت ٹیڑھے میڑھے ہوتے تھے اور ڈینٹسٹ نے ان کے دانتوں کو
لائن میں رکھنے کیلئے ان میں سیخیں لگائی ہوتی تھیں ابتداء میں تو یہ
سمجھتا تھا کہ شائد ان کی دانتوں کا کوئی مسئلہ ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ
یہاں پر دانت آگے پیچھے کرنے کا ایک فیشن ہے..اور میں دل ہی دل میں اس فیشن
کو گالی دیتا ہوا گزرتا کہ اچھے خاصے دانت سیخوں میں پھنس کر عجیب سے لگتے
ہیں - |