حالات کی سنگینی

ریاستی امور کو احسن انداز میں چلانا پی ٹی آئی کے بس کی بات نہیں ہے۔وہ مسائل کا ایک کونہ پکڑتی ہے تو دوسرا کونہ اس کے ہاتھ سے سرک جاتا ہے ۔ اس میں کسی کے خلوصِ نیت پر انگشت نمائی مقصود نہیں ہے بلکہ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت انتہائی خلوصِ نیت سے ملکی معاملات کو پٹری پر لانا چاہتی ہے لیکن وہ جتنی کاوشیں کرتی ہے اس کے نتائج اس کی توقع کے بالکل الٹ نکلتے ہیں ۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی سے حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے،سٹاک ایکسچینج میں اربوں روپوں کے نقصان نے حکومت کو پریشان کیا ہوا ہے،مہنگائی کے سونامی نے عوام کی نیندیں اچک لی ہیں،برآمدات میں مسلسل کمی حکومت کیلئے دردِ سر بنی ہوئی ہے ، درآمدات کا جن قابو سے باہر ہو چکا ہے،ٹیکس میں مسلسل کمی سے حکومتی خزانہ خالی ہوتا جا رہا ہے،اور قانون کی عملداری میں بیوو کریسی کی بے حسی حکومت کو ناکوں چنے چبوا رہی ہے۔یہ ہے وہ منظر نامہ جس کے حصار سے حکومت کا بچ نکلنا انتہائی مشکل ہے۔عوامی دباؤ،ناقص منصوبہ بندی ،ناتجربہ کاری،بے سمتی اور اپوزیشن کا دباؤ حکومتی کارکردگی کو متاثر کر رہا ہے اور اسے آئیں بائیں شائیں کے سوا کچھ نہیں سوجھ رہا ۔ عمران خان کا کرشمہ دھیرے دھیرے اپنی افادیت کھوتا جا رہا ہے کیونکہ عوام کو کسی بھی جانب سے کوئی ریلیف نہیں مل رہا۔رہی سہی کسر آئی ایم ایف معاہدہ نے پوری کر دی ہے ۔ جس طرف نگاہ اٹھا ئیں مہنگائی کی باز گشت ور عوامی اضطراب کی لہر دکھائی دیتی ہے۔ ہر کوئی شکوہ سنج ہے لیکن وفاقی وزراء اپنی بے سری راگنی سنانے سے باز نہیں آر ہے ۔گزرے زمانوں کے افسانے سنانا اور سابقہ حکمرانوں کو کوسنے کے سوا ان کا کوئی دوسرا کام نہیں جبکہ عوام افسانے نہیں بلکہ مسائل کا حل چاہتے ہیں۔انھیں تبدیلی کی جو نوید سنائی گئی تھی وہ اس کو لباسِ مجاز میں دیکھنے کے متمنی ہیں لیکن حکومت فقط وعدہِ حور پر انھیں ٹرخا رہی ہے جس سے وہ مزید مشتعل ہوتے جا رہے ہیں اور ان کا لہجہ تلخ ہو تا جا رہا ہے ۔

اس سیاسی پسِ منظر میں بلاول بھٹو زرداری نے ۱۹ مئی کو اپوزیشن جماعتوں کو افطارکی دعوت دے دی ہے جس نے حکومتی ایوانوں میں زلزلہ پیدا کر دیاہے۔ میاں محمد نواز شریف نے سیاسی بساط کا نیا مہرہ متعارف کروا دیا ہے اور اپنی لاڈلی سپتری مریم نواز کو پارٹی کی بھاگ ڈور تھما دی ہے ۔ مریم نواز پہلی بار سیاسی قائد کی حیثیت سے اس افطار ڈنر میں شرکت کریں گی۔یہ بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کے درمیان پہلا ڈائرکٹ رابطہ ہو گا جس کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے ۔یہ ایک غیر معمولی صورتِ حال ہے جس میں حکومت کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنا ہو گا ۔میں چھوڑں گا نہیں اور میں این آر او نہیں دوں گا جیسے نعروں کی بجائے ملکی معاملات کی ناؤ کو سلیقے سے معاشی طوفان سے نکانے کی منصوبہ بندی کی جانی چائیے جس کا حکومتی حلقوں میں مکمل فقدان نظر آ رہا ہے۔حکومت کنفیوژن کا شکار ہے اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے ۔پاکستان کی بڑی سیاسی جما عتوں پی پی پی، مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام کا ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہو جانا حکومت کو مزید دباؤ کا شکار کر دے گا اور اگر اپوزیشن نے عوامی رابطہ مہم کا فیصلہ کر لیا تو پھر ڈوبتی معیشت کے رہے سہے کس بل بھی نکل جائیں گے ۔ مولانا فضل الرحمان تو شروع دن سے ہی پی ٹی آئی حکومت کو کسی بھی قسم کی رعائت دینے کے قائل نہیں تھے لیکن میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری ان کی سیاسی سوچ کا ساتھ دینے کیلئے تیار نہیں تھے ۔وہ جمہوی نظام کی راہ میں روڑے اٹکانے کے حامی نہیں تھے ۔ وہ لولی لنگڑی جمہوریت کو چلتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے لیکن جب پی ٹی آئی نے مہنگائی کے سونامی سے عوام کو جینا دوبھر کر دیا اور اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ لگانے کا بیڑہ اٹھا لیا تو پھر ان قائدین کو بھی اپنی سوچ میں بنیاد ی تبدیلی لانا پڑی ۔ مولانا فضل الرحمان تو پہلے ہی اسلام آباد پر ملین لانگ مارچ کی منصوبہ بندی کر کے بیٹھے ہوئے ہیں ۔مسلم لیگ (ن) ،پی پی پی اور اپوزیشن جماعتوں کی حمائت انھیں مزید حوصلہ عطا کرے گی۔ان کے اس ملین لانگ مارچ کے نتیجے میں انتشار کا ایک ایسا بگولہ اٹھے گا جس میں ملکی سلامتی داؤ پر لگ سکتی ہے ہے لہذا پی ٹی آئی کو ہوش کے ناخن لینے چائیں اور معالات کو ایسی نہج پر لے کر نہیں جانا چائیے جہاں پر ملکی استحکام کو خطرات کا سامنا ہو ۔ ،۔

پی ٹی آئی جس کی پارلیمنٹ میں بڑی معمولی اکثر یت ہے اس نئی صورتِ حال سے خوفزدہ ہے کیونکہ اس سے اس کی بقا کو سنگین خطرات لا حق ہو سکتے ہیں ۔مینگل گروپ اور چند آزاد اراکین کی حکومتی حمائت سے دستبرداری حکومت کے خاتمہ کا باعث بن سکتی ہے لہذا پی ٹی آئی کو حالات کی سنگینی کا ا حساس کرتے ہوئے اپوزیشن کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرنی چائیے اور دھمکیاں دینے کی بجائے معاملات عدالتوں پر چھوڑ دینے چائیں ۔اپوزیشن جماعتوں کا پارلیمنٹ میں متحد ہونا کوئی حیران کن امر نہیں ہے ۔ اپوزیشن ہمیشہ حکومت کے خلاف متحد ہوتی رہی ہے کیونکہ اسی میں اس کی بقا ہو تی ہے ۔ذولفقار علی بھٹو کی حکومت میں پی پی پی کے سب سے بڑے حریف خان عبدالولی خان اپوزیشن لیڈر تھے اور ساری جماعتیں ان کی ہمنوا تھیں۔خود پی ٹی آئی اور پی پی پی مسلم لیگ (ن) کے خلاف یکجا تھیں۔شاہ محمود قریشی اور خورشید شاہ میں گاڑھی چھنتی تھی اور وہ پاناما لیکس پر حکومت کو ناکوں چنے چبوا تے تھے ۔سینیٹ کے انتخابات میں پی ٹی آئی اور پی پی پی یکجا تھیں اور دونوں کے ووٹوں سے پی پی پی کا نامزد امیدوار سلیم مانڈی والا ڈپٹی چیرمین منتخب ہو ا تھا ۔ اس وقت پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کو کرپشن کے سنگین الزامات کا سامنا ہے اور ان کیلئے سانس لینا مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔مسلم لیگ (ن) کی اعلی قیادت جیلوں میں بند ہے۔اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف حکومتی دباؤ کی وجہ سے انگلینڈ میں جلا وطن ہو چکے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف تا حیات نا اہل قرار پائے ہیں اور اڈیا لہ جیل میں سزا بھگت رہے ہیں ۔اس بات کے روشن امکانات ہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ان کی ضمانت منظور کر کے انھیں ریلیف دے دے۔اگر ایسا ہو گیا تو عمران خان کی حکومت کو سخت عوامی مزاحمت کا سا منا کرنا پڑے گا لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر میاں محمد نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں دی گئی سزا کے مطابق جیل کی چار دیواری میں قید و بند سے گز رنا پڑے گا۔پی ٹی آئی یہی چاہے گی کہ ان کا سب سے بڑا حریف جیل کی چار دیواری میں محبوس رہے تا کہ وہ سکون سے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرلے لیکن مریم نواز کی جارحانہ مہم حکومتی منصوبوں کو غارت کر سکتی ہے ۔پی پی پی کی کہانی بھی میاں برادران کی کہانی سے مختلف نہیں ہے۔ جعلی اکاؤنٹس کیس میں خطرات کی تلوار ان کے سروں پر بھی لہرا رہی ہے۔انھیں اس کا ادراک ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ انھوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی مسلم لیگ (ن) کی جانب مفاہمت کا ہاتھ بڑھا دیا ہے۔آصف علی زرداری کل تک نواز شریف کے خلاف سخت زبان استعمال کر رہے تھے لیکن اپنی سیاسی مجبوریوں نے انھیں مفاہمت کی نئی ڈگر پر گامزن کر دیا ہے۔پی ٹی آئی جعلی اکا ؤ نٹس کیس کی بنیاد پر سندھ حکومت کا بستر گول کرنا چاہ رہی تھی لیکن بلاول بھٹو زرداری کے جارحانہ انداز سے اسے منہ کی کھانی پڑی ۔آج پی پی پی کی قیادت آصف علی زرداری کے ہاتھوں میں ہے جو کرپشن الزامات میں پہلے ہی گیارہ سال جیلوں کی ہوا کھا چکے ہیں لہذا زندانوں سے وہ خوفزدہ نہیں ہیں۔نیب پر مخالفین کو دیوار کے ساتھ لگانے اور امتیازی سلوک کرنے کا ریاستی دباؤ نہیں ہو نا چائیے بلکہ نیب کو آزادانہ فیصلوں کا اختیار ہو نا چائیے ۔کرپشن اور لوٹ کھسوٹ پر کوئی مفاہمت نہیں ہو نی چائیے بلکہ جو شخص بھی اس میں ملوث ہو اسے بلا تخصیص عبرتناک سزا ملنی چائیے لیکن اگر مدعا مخالفین کی کردار کشی، ان کو نیچا دکھا نا اور میڈیا ٹرائل ہو تو پھر کوئی ایسے احتساب کو احتساب تسلیم نہیں کرتا۔احتساب کا شفاف ہو نا انتہائی ضروری ہے لیکن مہربان ہاتھ ایسا ہونے نہیں دیتے کیونکہ ان کی ذاتی انا قانون و انصاف سے بڑی ہوتی ہے لہذا کئی بے گناہ بھی شکنجے کی زدمیں آ جاتے ہیں۔،۔

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 448052 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.