تبدیلی سرکار کو سب سے بڑا دھچکا اُس وقت لگا جب کراچی کے
سمندر میں 10کروڑ ڈالر کی خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود تیل و گیس کے ’دنیا
کے سب سے بڑے ذخائر‘ نہ مل سکے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پٹرولیم
ندیم بابر نے مایوس کن خبر کی تصدیق کی کہ سمندر میں 15ارب روپے خرچ کرنے
کے باوجود ڈرلنگ میں کامیابی نہیں ملی۔ حکومت نے عوام کو بہت بڑی خوش خبری
سنانے کا وعدہ کیا تھا، یہاں تک کہ وفاقی وزیر صاحب نے لاکھوں نوکریوں سمیت
بڑے بڑے دعوے کیے تھے لیکن زمین میں چھپے خزانے دریافت نہ ہونے پر قبل
ازوقت بڑے بڑے دعوے زمیں بوس ہوگئے۔ حکومت کو سنجیدہ ہوجانا چاہیے کہ جب تک
کوئی کام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ جاتا، اُس وقت تک قوم کو مزید خوش فہمی
میں مبتلا کرنے سے گریز کیا کرے۔ اُس نے معاشی بحران سے نکلنے کے لیے اپنی
معاشی ٹیم کو تبدیل کردیا اور اسی معاشی ٹیم کے رکن چیئرمین ایف بی آر شبر
زیدی نے کراچی چیمبر آف کامرس میں تاجروں سے خطاب کے دوران اعتراف کیا کہ
ایف آئی اے وغیرہ کی جانب سے تاجروں کو خوف زدہ کیا جاتا ہے۔ چیئرمین نیب
جسٹس(ر) جاوید اقبال نے اگلے دن ہی پریس کانفرنس کی اور تاجروں کو یقین
دلایا کہ نیب قانون کے مطابق کام کرے گا، انہیں نیب سے خوف زدہ ہونے کی
ضرورت نہیں۔ انہوں نے اپنی طویل پریس کانفرنس میں نیب کی کارکردگی اور خود
پر اعتراضات و تحفظات پر بھی اپنی پوزیشن واضح کی اور کھل کر نیب کا دفاع
کیا۔ تاہم مہنگائی و معاشی بحران اُس وقت تک ختم یا کم نہیں ہوسکتا جب تک
تاجر برادری اپنے کاروبار کو آگے نہ بڑھائیں۔ قرضے لے کر کچھ وقت تک ہی
حکومت چلائی جاسکتی ہے لیکن 100ارب ڈالرز سے زائد بیرونی قرضے رکھنے والی
حکومت کو اگر سیاسی بحران بھی درپیش ہو تو تدبر اور مصلحت کے ساتھ کام کرنے
کی ضرورت دوچند ہوجاتی ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کی افطار ڈنر کی بیٹھک سے حکومتی وزراء کے سخت اور جارحانہ
بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماضی میں سخت ترین و شدید مخالف سیاسی جماعتوں
کے ابتدائی دستر خوان سے اٹھنے والی تبدیلی کی خوشبو سے حکومت پریشان سی
ہونے لگی ہے۔ گو حکومت کا بارہا کہنا ہے انہیں سیاسی دستر خوان سے کوئی
پروا نہیں لیکن جس طرح جارحانہ انداز میں سیاسی حملے کیے جارہے ہیں اور
نیوز چینلز اپوزیشن رہنماؤں کے ایک دوسرے کے بارے میں دیے گئے سخت بیانات
کو بار بار دکھا رہے ہیں۔ اس سے مقصد سے آگاہی نہیں بلکہ کوئی مخصوص ایجنڈا
معلوم ہوتا ہے۔ ملک میں اس وقت معاشی و سیاسی فضا انتہائی گمبھیر ہوچکی ہے۔
حکومت اپوزیشن جماعتوں کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کے بجائے انہیں بار بار
مشتعل اور الزام تراشیاں کرتی ہے، اس سے سیاسی ماحول کی حدت بڑھتی جارہی ہے۔
تاہم یہ موقع خود حکومت کی ناقص پالیسیوں کے سبب اپوزیشن کے لیے پیدا ہوا
ہے۔ اگر حکومت کی پالیسیاں ناقص و ابہام پر مبنی نہیں ہوتیں تو حکمران
جماعت مملکت کو درپیش مسائل حل کرنے کے لیے ایک مقبول معاشی پروگرام دے چکی
ہوتی۔
تمام سیاسی حلقے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی سیاسی ملاقات کو بڑی اہمیت
دی گئی ہے۔ بظاہر یہ افطار ڈنر کی دعوت تھی لیکن اس کا ایجنڈا سب کے علم
میں ہے کہ عید کے بعد حکومت مخالف تحریک چلانے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے
درمیان اتفاق رائے پیدا کرنا اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اس سیاسی دستر خوان
سے قبل اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر
احتجاجی تحریکوں پر تیار نظر نہیں آتی تھیں، تاہم اس وقت مہنگائی اور معاشی
بحران کے ساتھ حکومت کی جانب سے نئی مالیاتی پالیسیوں کی وجہ سے صورتحال
نازک ترین ہوتی جارہی ہے، اس نسبت گمان یہی کیا جاتا ہے کہ عوام میں موجود
اضطرابی کیفیت کو سڑک پر لانے کے لیے موجودہ اسباب کا تسلسل ہی کافی ہوگا۔
اپوزیشن جماعتوں کا اپنے کارکنان کے ساتھ دھرنا یا جلسے جلوس کرلینا اتنی
اہمیت کا حامل نہیں جتنا عوام کو احساس ہونا کہ موجودہ حکومت کی وجہ سے
مہنگائی کا سونامی سب کچھ بہا لے جائے گا۔ عوام اس وقت گومگو کی کیفیت میں
مبتلا ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات، گیس اور بجلی کے نرخوں میں ہوش ربا اضافے کے
ساتھ جب موجودہ حکومت اپنا بجٹ پیش کرے گی تو اس سے عوام کو براہ راست
معاشی تکالیف کے ناقابل برداشت جھٹکے لگ سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ حکومت
عوام کے لیے بجٹ میں کوئی ایسا خصوصی پیکیج رکھ کر انہیں اپوزیشن جماعتوں
کے سیاسی احتجاجوں سے دور رکھنے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔ تاہم جس طرح
بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ روپے کی قدر
مسلسل گر رہی ہے اور مملکت کے قرضوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے، وہ
ایک تشویش ناک صورت حال ہے۔
حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف سے معاہدہ معاشی مسائل کو کتنا حل کرنے میں
کامیاب ہوگا، اس کا اندازہ تو عوام نے لگا ہی لیا ہے کہ 39ماہ میں قسطوں
میں ملنے والا قرض ملکی معاشی بحران کو دور کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔
ورلڈ بینک اور ایشین بینک کی جانب سے بھی قرضے ملنے کے بعد بھی حکومت کے
پاس کوئی ایسا منصوبہ نہیں جس میں تمام طبقات کو معاشی بحران سے نکالنے کے
لیے مدد مل سکے۔ ہر نئے دن بڑھتی مہنگائی تحریک انصاف کے لیے کڑے امتحان کا
سبب بن رہی ہے۔ عوام صرف یہ کہنے سے کہ ’’گھبرانا نہیں‘‘ مطمئن نہیں ہوسکتے،
بلکہ انہیں موجودہ حالات سے نکالنے کے لیے مختصر المدت فعال منصوبہ بندی کی
ضرورت ہے۔ منی لانڈرنگ سے جانے والا بیرون ملک سرمایہ لانے میں ناکامی
حکومت کے گمان میں نہ تھا۔ ایمنسٹی اسکیم متعارف کرانے کے بعد اس کی
کامیابی سے ناکامی کے خدشات زیادہ ہیں کیونکہ وزیراعظم کب اور کس وقت اپنی
پالیسی بدل دیں اس کا اعتبار کرنا بڑا مشکل و دقت طلب کام ہے۔
حکومتی وزراء کا تمام زور اپوزیشن جماعتوں کے خلاف اپنی ہر ناکامی پر
جارحانہ بیان ہی رہ گیا ہے۔ اس وقت ملکی سیاسی صورتحال میں خاموشی بہت بڑے
طوفان کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد سے حکمراں
جماعت کا خائف ہوجاناظاہر کررہا ہے کہ اگر حزب اختلاف کی جماعتوں نے ملک
گیر پیمانے پر احتجاجی مظاہروں اور جلسے جلسوں کا سلسلہ شروع کردیا تو
سرمایہ دار طبقہ اپنا سرمایہ لگانے کا رسک نہیں لے گا۔ اسٹاک مارکیٹ جس
تیزی کے ساتھ گراوٹ کا شکار ہے وہ اس بات کی جانب اشارہ کررہا ہے کہ سرمایہ
کاروں کا اعتماد صرف بیانات سے بحال نہیں ہوسکتا۔ ملکی تاریخ کے بڑے ٹیکس
شارٹ فال کے بعد مالیاتی خسارے کو کم کرنے کے لیے تمام اقدامات ابہام کا
شکار ہیں۔ کیونکہ اعزازی چیئرمین ایف بی آر خود کہہ چکے ہیں کہ گورنر اسٹیٹ
بینک اپنی پالیسی کو واضح کریں۔ حکومتی معاشی ٹیم کے درمیان مربوط منصوبہ
بندی کے فقدان کا یہ اظہار پریشان کن ہے کہ کون سا ادارہ کیا اور کیوں
کررہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی مالیاتی ادارہ حکومت کو جواب دہ نہیں۔ اگر
ڈالر کی قیمت بڑھتی اور روپے کی قدر کم ہوتی ہے تو اس کی ذمے داری اسٹیٹ
بینک پر عائد ہوتی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کا تعلق اوگرا سے ہے۔
بجلی اور گیس کی قیمتوں میں45 فیصد ابتدائی اضافے کا اختیار بھی حکومت کے
پاس نہیں رہا، کیونکہ آئی ایم ایف کی جانب سے ڈکٹیشن میں بجلی اور گیس میں
اضافے کو ناگزیر قرار دیا جاچکا تھا، اب اس کا براہ راست اثر یقینی طور
صنعت کے ساتھ ساتھ عوام پر ہی پڑے گا۔ اب حکومت اپوزیشن کے سیاسی دستر خوان
پر جارحانہ بیانات دینے کے بجائے ریاستی مفاہمت کے دستر خوان کا اہتمام
کرنے پر غور کرے، تاکہ ملک کے اجتماعی مسئلے کا حل نکلنے کی سبیل ہوسکے۔
|