عمران خان کے برسر اقتدار آنے میں مبینہ طور پر خلائی
مخلوق کی مدد کے ساتھ ساتھ صوبہ خیبر پختو نخوا میں ان کے پانچ سالہ حکومت
نے ایک رول ماڈل کا کام کیا ،میرٹ پر نوکریاں ،افسر شاہی پر کنٹرول ،پولیس
کو سیاسی مداخلت سے آذاد کرنا ،ترقیاتی کاموں کا جال ،ڈی آر سی کاقیام اور
بعض دیگر اقدامات ایسے تھے جن کے باعث نہ صرف دوبارہ پی ٹی آئی کو خیبر
پختونخوا میں واضح اکثریت ملی جبکہ مرکز میں بھی اس صوبہ کی کارکردگی کو
نمونہ بنا کر دیگر صوبوں خاص کر پنجاب ،کراچی وغیرہ میں کامیابی حاصل ہوئی
اب پی ٹی آئی کی مرکز ،پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومتیں قائم ہوئے 9
ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیاہے ۔معلوم ایسا ہوتا ہے کہ عمران خان اور ان کی
جماعت کا مقصد صرف اقتدار کا حصول تھا ۔صرف پاکستان کے وزیر اعظم کی فہرست
میں اپنا نام درج کروانا تھا کیونکہ مہنگائی ،افراط زر ،ڈوبتی ہوئی معیشت
اور سٹاک ایکسچینج کے علاوہ ہمیں گڈ گورننس کا فقدان بلکہ حالات انتہائی
گرواٹ کی طرف جاتے نظر آرہے ہیں ۔میں ان سطور میں صوبہ خیبر پختونخو ایسے
امور کا ذکر کروں گا جس سے یہ بات عیاں ہوگی کہ پی ٹی آئی کی حکومت ایک
ناکام حکومت ہے جو ہر سطح پر ناکام ثابت ہورہی ہے ۔اور جس صوبے کو رول ماڈل
بنا کر انہوں نے مرکز میں کامیابی حاصل کی وہ زبوں حالی اور بیڈ گورننس کی
آخری حدوں کو چھورہا ہے۔1 ۔حکومت تعلیم پر خصوصی توجہ دینے کا ڈھنڈورا پیٹ
رہی ہے گزشتہ دنوں وزیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس
تعلیم کی بہتری کے لئے اقدامات اٹھانے کا ذکر کیا لیکن حال یہ ہے کہ صوبہ
خیبر پختونخو ا میں خاص کر اور دیگر صوبوں میں بھی ہماری یونیورسٹیاں اربوں
کے خسارے کے علاوہ مالی ،انتظامی ،تعلیمی ،علمی بحران کا شکار ہیں ۔فیسوں
میں بے پناہ اضافوں نے اب صرف مال دار طبقے کے لئے تعلیم کا حصول ممکن
بنادیاہے خیبر پختونخوا میں مالا کنڈ،گومل یونیورسٹی ،ہزارہ یونیورسٹی
،باچا خان یونیورسٹی ،چارسدہ اور صوابی یونیورسٹی میں ہونے والی غیر قانونی
بھرتیوں ،وائس چانسلرز کے اپنے اختیارات سے تجاوزکرنے جیسے اقدامات ،ناجائز
ترقیوں ،تقرریوں کے خلاف فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز (Fapwasa )نے
ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے ذریعے گورنر خیبر پختونخوا جو کہ تمام اداروں
کے چانسلر بھی ہیں شاہ فرمان سے اصلاح احوال کا مطالبہ کیا بصورت دیگران کے
احتجاج کو تمام پاکستان کی یونیورسٹیز تک پھیلانے کے عزم کا اظہار کیاگیا
لیکن گورنر کی جانب سے کوئی خاطر خواہ کاروائی دیکھنے میں نہیں آرہی
۔تعلیمی درسگاہیں تباہی وبربادی کی طرف اپنا سفر طے کررہی ہیں لیکن حکومت
تعلیم کی بہتری کے اقدامات کا ڈھنڈورا پیٹنے میں مصروف ہے ۔2 ۔حال ہی میں
ایک سروے کے مطابق سابقہ پانچ سالوں کی طرح اس سال بھی خیبر پختونخو ا
حکومت اپنے ترقیاتی بجٹ کو استعمال نہیں کر پائی پچاس فیصد سے زائد بجٹ
استعمال میں لانے کا منتظر ہے ۔الیکشن سے پہلے نکاسی آب ،سڑکوں ،گلیوں
ودیگر ترقیاتی کام شروع کیے گئے وہ ٹھیکیدار وں نے فنڈز نہ ہونے کے باعث
بند کررہے ہیں ۔ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود عوام الناس کا
خصوصاًبارش کے دنوں میں سڑکوں گلیوں سے گزرنا دشوار ہوگیا ہے ۔پشاو ر بی آر
ٹی منصوبہ ،ڈی آئی خان گرڈ روڈ ،سرکلر روڈ ،ملتان روڈ ،انڈس ہائی وے روڈ
،ڈیرہ تاکوہاٹ ،ڈیرہ بائی پاس روڈ اور ان کے ساتھ ملحقہ نکاسی آب کے منصوبے
اس کا واضح ثبوت ہیں اب ماہ جون سے قبل عوامی نمائندے اور صوبائی حکومت خوا
ب خرگوش سے جاگی ہے ۔سڑکوں کی تعمیر کے سلسلے میں کچھ ریل پیل نظر آرہی
ہے۔3۔ دیگر صوبوں کی طرح خیبر پختونخوا کے آٹھ بڑے شہروں میں حلال فوڈ
اتھارٹی کاقیام مورخہ 21.3.18 کو عمل میں لایاگیا جس کے بعد تمام تر
اختیارات جو کہ محکمہ فوڈ ،ٹی ایم اے ،ایکسائز ،ضلعی انتظامیہ اور ڈی ایچ
او کے پاس لائسنسنگ اتھارٹی کے تھے وہ اب حلا ل فوڈ کو مل گئے لیکن اس کے
باوجود کاروباری طبقے کو دیگر تمام محکمہ جات خاص کر محکمہ فوڈ ،ٹی ایم اے
کی جانب سے بھی فوڈ کا لائسنس بنانے کا کہا جارہاہے نہ بنانے پر بھاری
جرمانے کے علاوہ تھانے کچہری کے چکر لگوائے جارہے ہیں ۔تمام صوبہ میں یہ
حالت ہے اختیارات کا تعین کروانا حکومت اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے لیکن
ہر ادارہ کہتا ہے کہ میں بااختیار ہوں میری مانی جائے ۔راقم نے اس سلسلے
میں کمشنر ڈیرہ اور ڈی سی ڈیرہ کو کئی مرتبہ مشترکہ اجلاس بلوا کر مسئلہ کے
حل کے لئے کہا لیکن ہنوز دلی دور است ،انتظامیہ کو کوئی دلچسپی نہیں ہے
۔تاجر طبقہ جو پہلے ہی کاروباری حالات خراب ہونے کے باعث پس رہا ہے ۔اس
صورت حال میں مذید پریشان ہے ۔4 ،ڈی آر سی کا قیام صوبہ بھر میں سابق آئی
جی پی خیبر پختونخوا ناصر خان درانی کا وہ کارنامہ ہے جس کا کریڈٹ عمران
خان اور ان کی جماعت اپنی الیکشن مہم میں لیتی رہی لیکن یہ ادارہ سیاسی
بھرتیوں ،مداخلت کے باعث تقریباًاپنی افادیت کھو چکا ہے ۔پولیس کے افسران
اور عملہ اپنے ہی ادارے کے سب سے بڑا دشمن ہیں ایک ایسا ادارہ جہاں لوگوں
کے خاندان ،جائیداد ،کرائے ،اراضی کے مسائل بغیر بھاری رقم خرچ کیے حل
ہورہے تھے اب چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے اور غلط اقدامات کے باعث اہمیت کھوتا
جارہا ہے ۔5 ۔خیبر پختونخوا میں احتسابی ادارے کے خاتمے کے بعد سے انتظامیہ
،بلدیاتی اداروں ،عوامی نمائندوں پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام بری طرح متاثر
ہے ۔اینٹی کرپشن کا ادارہ ہمیشہ کی طرح عضو معطل ہے ۔کرپشن ،کمیشن مافیا
،رنگ سسٹم زوروں پر ہے تھانہ کلچر جوں کا توں ہے ٹارگٹ کلنگ چوری ،ڈکیتی
،راہزنی ،اقدام قتل کی وارداتوں میں اضافے نے پولیس کی کارکردگی کا پول
کھول دیا ہے۔6 ۔پشاور میں بی آر ٹی کا منصوبہ حکومت اور پشاور کے عوام کے
لئے وبال جان بن گیا ہے ۔اجلت اور کمیشن کی خاطر شروع کیے جانے والے خطیر
رقم منصوبے کی لاگت تیس ارب اور مدت چھ ماہ میں مکمل ہونا تھا لیکن کوئی
صحیح منصوبہ بندی نہ ہونے کے باعث یہ منصوبہ اب سو ارب کی لاگت کے قریب
جاپہنچا ہے اس منصوبے کے باعث پورا پشاور شہر اور بالخصوص تاجر برادری شدید
پریشانی اور آمد ورفت کے مسائل کا شکار ہے ۔تاحال بیڈ گورننس کے باعث اس کی
فوری تکمیل کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ۔7 ۔پی ٹی آئی کی حکومت ہسپتالوں
میں بہتری کے لئے انقلابی اقدامات اور اصلاحات کا دعویٰ کرتی چلی آرہی ہے
لیکن اس کے اثرات غربت کی چکی میں پیسے ہوئے غریب عوام تک نہیں پہنچ پارہے
۔سینئرز ڈاکٹرز ڈیوٹی سرانجام نہیں دیتے ،ہسپتالوں میں ادویات ناپید ہیں
۔اوپر سے ڈاکٹروں کی ہڑتالوں اور ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے
جلتی پر تیلی کا کام کیاہے۔ ان حالات میں پی ٹی آئی کی حکومت کے لئے آئندہ
کسی بھی الیکشن میں صوبہ خیبر پختونخوا رول ماڈل کی بجائے اپوزیشن جماعتوں
کے لئے بری کارکردگی ،بیڈ گورننس ،کرپشن کا منہ بولتا ثبوت ہوگا۔ |