امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ شاید کبھی نہ ہو۰۰۰

کیا ایران اور امریکہ کے درمیان جنگ ہوپائے گی ؟ اس سوال کا جواب صاف صاف لفظوں میں دیا جاسکتا ہے کہ امریکہ جتنا ممکن ہوسکتا ہے کہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا کیونکہ اگر امریکہ ایران پر حملہ کرتا ہے تو اسکے جواب میں ایران اسرائیل پر حملے کے ذریعہ دے سکتا ہے ، یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ امریکہ صرف دھمکیوں پر اکتفا کئے ہوئے ہے۔یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان تعلقات کس نوعیت کے ہیں کیونکہ ہمیشہ سے امریکہ ایران کو صرف دھمکیاں دیتا رہا ہے اگر واقعی امریکہ ایران کے خلاف ہوتا تو شاید اب تک اس پر حملہ کردیا ہوتا ایسا محسوس ہوتا ہیکہ امریکہ اور ایران کے درمیان اندرونی طور پر کچھ نہ کچھ ساجھے داری ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہیکہ اندرونی طور پر امریکہ اور ایران کے درمیان تعلقات اتنے کشیدہ نہیں ہے جتنے امریکہ اور ایران کے درمیان بیان بازی کے ذریعہ دکھائی دیتے ہیں۔ امریکہ عراق، افغانستان، شام،یمن، پاکستان وغیرہ میں جس طرح حملے کرکے ان ممالک کی معیشت کو تباہ و تاراج کیا اور لاکھوں بے قصور افراد بشمول معصوم بچے اور خواتین کو ہلاک کرکے اپنی ظلم و بربریت کی مثال قائم کی۔ غلط انٹلی جنس رپورٹس کی بناء پر عراق پر الزام عائد کرکے حملہ کیا گیا اور پھر دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر جس طرح ظالمانہ کارروائیاں ان ممالک میں کی گئیں ایسی کوئی بھی کارروائی امریکہ نے ایران کے خلاف نہیں کی۔ اسی وجہ سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ اور ایران کے درمیان اندرونی طور پر بہتر تعلقات ہیں یا پھر امریکہ ایران سے خوف کھایا ہوا ہے کہ اگر اس نے ایران پر حملہ کیا تو اسکے جواب میں ایران جوابی حملہ کرنے کی صلاحیت و طاقت رکھتا ہے اور یہ حملہ امریکہ پر نہیں تو اسکے حلیف ممالک خصوصی طور پر اسرائیل یا پھر سعودی عرب اس کا نشانہ بن سکتا ہے ۔ ایران اگر اسرائیل یا سعودی عرب پر حملہ کرتا ہے تو اسکی اسے بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ یہ سچ ہے کہ یمن، شام، عراق وغیرہ میں ایران اور سعودی عرب دونوں نے ہی اپنی اپنی طاقت کا اثر بتانے کیلئے کہیں پر حکمرانوں اور کہیں پر اپوزیشن کا ساتھ دیا ہے انکے اس ساتھ دینے کی وجہ سے آج بھی یمن کے حالات انتہائی خراب ہیں ۔ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر حسن روحانی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ موجود ہ حالات مذاکرات کے لئے سازگار نہیں ہے اور ایران کے پاس واحد راستہ مزاحمت ہے۔ صدر ایران کا کہنا ہیکہ تمام تر سیاسی اور معاشی دباؤ کے باوجود ایرانی عوام کسی دھمکی کے سامنے نہیں جھکیں گے۔صدر ایران حسن روحانی نے اس سے قبل کہا ہے کہ ان کا ملک اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کے لئے ہر طرح کا ہتھیار بنائے گا۔ ملکی پارلیمان سے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ ایران اسلحے کی تیاری سے جس میں بیلسٹک میزائل بھی شامل ہیں کسی بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کررہا ہے ، انہوں نے امریکہ کو خبردار کیا کہ ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان مشترکہ جوہری معاہدے کی خلاف ورزی اس کے مفادات کیلئے نقصاندہ ہوگی۔ صدر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ ایران کسی بھی بین الاقوامی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی نہیں کرتا اور یہ اقوام متحدہ کی قرار داد 2231کے خلاف نہیں ہے یعنی ایران جو بیلسٹک میزائل بنایا ، بنارہا اور بنائے گا ۔ایران کے اس سخت رویہ کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہیکہ امریکی صدر اپنی پالیسی میں تبدیلی لاتے ہوئے ایران کے ساتھ بات چیت چاہتے ہیں لیکن کیا ایران اور امریکہ کے درمیان یہ بات چیت کارگر ثابت ہوگی۔جیسا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر ایران کی قیادت چاہے تو وہ بات چیت کے لئے تیار ہیں۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق صدر ٹرمپ نے پنٹاگون کو بتایا کہ وہ ایران کے ساتھ جنگ کے حامی نہیں ہیں جس کے بعد اعلیٰ امریکی سفارتکار نے ایران کے ساتھ کشیدگی کو کم کرنے کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں۔ ایران کے وزیرخارجہ جواد ظریف کا کہنا ہے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی کے باوجود انکے خیال میں جنگ نہیں ہوگی۔ایران اور امریکہ کے درمیان حالیہ کشیدگی میں اضافہ کی اصل وجہ ہے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ایرانی تیل کی فروخت پر سخت تر پابندیاں عائد کرنا ۔ذرائع ابلاغ کے مطابق جواد ظریف نے ان خیالات کا اظہار بھی کیا کہ امریکی صدر ٹرمپ بھی لڑائی نہیں چاہتے لیکن ان کے جو مشیران کے ساتھ موجود ہیں وہ انہیں جنگ کرنے پر مجبور کررہے ہیں۔ جواد ظریف نے اپنے ایک اور بیان میں کہا ہے کہ امریکا بہت خطرناک کھیل کھیل رہا ہے، ایران امریکہ سے بات چیت نہیں کرے گا، ایران سے بات چیت کا راستہ عزت و احترام ہے۔امریکی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے جواد ظریف کا کہنا تھا کہ امریکہ خطے میں اپنی فوجی طاقت بڑھا کر بے حد خطرناک کھیل کھیل رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایران نے عالمی جوہری معاہدے پر اچھی نیت سے عمل کیا، ہم ایسے لوگوں سے بات کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے جنہوں نے اپنے وعدے توڑے ہوں۔اس طرح ایران او رامریکی قائدین کے درمیان جس طرح کے بیانات ہر روز میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر آرہے ہیں اس سے کوئی ایک نتیجہ اخذکرنا محال ہے ، خیر مجموعی طور پر حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ صاف ہوجاتا ہے کہ امریکہ اور ایران کسی صورت میں بھی جنگ نہیں چاہتے اس کے باوجود مشرقِ وسطیٰ میں ان دونوں ممالک یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ حالات ان دونوں کے درمیان انتہائی کشیدہ ہیں ۔ امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدہ حالات مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک کے لئے تشویشناک ضرور ہے اور اس سے ان ممالک کی معیشت پر برُا اثر پڑسکتا ہے ۔ اب دیکھنا ہے کہ حالات مستقبل میں کس نوعیت اختیار کرتے ہیں۔

عرب لیگ اور جی سی سی کے اجلاس
حالیہ دنوں سعودی عرب کے دو بحری جہاز اور پھر حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب میں تیل تنصیبات پر ڈرون حملے کے ذریعہ نشانہ بنائے جانے کے بعدعرب لیگ نے مکہ مکرمہ میں دو علاقائی سربراہ اجلاسوں کے دعوت نامے تمام رکن ممالک کو بھیج دیے ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے 30؍مئی کو عرب لیگ اور خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے بیک وقت دو اجلاس طلب کیے ہیں ۔ ان اجلاس طلب کرنے کا مقصد سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حالیہ حملوں سے پیدا ہونے والی صورتحال پر غور کرنا بتایا جارہا ہے۔عرب لیگ کے ایک عہدیدار کے حوالے سے منگل کو تنظیم کے رکن ممالک کو دعوت نامے بھیجنے کی اطلاع دی ہے لیکن قطر نے کہا ہے کہ اس کو یہ دعوت نامہ موصول نہیں ہوا ہے۔گذشتہ منگل کے روز سعودی عرب میں آرامکو کی تیل کی تنصیبات کو ڈرون حملوں سے نشانہ بنایا گیا تھا اور یمن کے حوثی باغیوں نے ان حملوں کی ذمے داری قبول کرنے کا دعوی کیا تھا۔اس سے دو روز پہلے گذشتہ اتوار کو متحدہ عرب امارات کے پانیوں کے نزدیک چار بحری جہازوں پر تخریبی حملے کیے گئے تھے۔ان میں دو تیل بردار بحری جہاز سعودی عرب بتائے گئے۔شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ہفتے کے روز ان حملوں کے مضمرات پر غور کے لیے مکہ مکرمہ میں عرب لیگ اور خلیج تعاون کونسل کے سربراہ اجلاس بلانے کی تجویز پیش کی تھی۔عرب لیگ کے عہدہ دار نے وضاحت کی ہے کہ مجوزہ سربراہ اجلاس تنظیم کے منشور کی دفعہ تین پر عمل درآمد کے فریم ورک کے تحت بلایا جارہا ہے۔اس کے تحت سال میں مارچ کے مہینے میں ایک مرتبہ سمٹ کی سطح پر کونسل کا اجلاس بلایا جاسکتا ہے۔اس میں یہ بھی صراحت کی گئی ہے کہ اگر عرب اقوام کی سلامتی سے متعلق کوئی پیشرفت ہوتی ہے تو عرب لیگ کسی ایک رکن ملک کی درخواست پر اجلاس منعقد کرے گی لیکن تنظیم کے دوتہائی رکن ممالک کو اس اجلاس کو طلب کرنے کی منظوری دینی چاہیے۔اب دیکھنا ہے کہ حوثی باغیوں کے خلاف ان اجلاسوں میں کس قسم کے فیصلے کئے جاتے ہیں۔

جوکوویدوودو انڈونیشیا کے دوبارہ صدر منتخب
عالمی سطح پر یہ دیکھا گیا ہے کہ انتخابات میں اپوزیشن کی جانب سے دھاندلیوں کا الزام لگانا کوئی نئی بات نہیں ایسا ہی انڈونیشیا کی اپوزیشن نے بھی صدارتی انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کیا ہے جس پر الیکشن سپروائزری ایجنسی نے دھاندلی کے الزام کو بے بنیاد قرار دیا۔انڈونیشیا میں گذشتہ ماہ صدارتی انتخابات منعقد ہوئے تھے جس کے حتمی نتائج کا جنرل الیکشن کمیشن نے اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ صدر ویدودو کو 55.5فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں اور وہ دوبارہ صدر کی حیثیت سے منتخب ہوچکے ہیں۔ ان کے حریف امیدوار پرابوواسوبیا نتو کو 44.5فیصد ووٹ ملے۔سوبیانتو نے انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے اسے منظم اور وسیع پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کیا جسے الیکشن کمیشن نے بے بنیاد قرار دیا۔

متحدہ عرب امارات میں بھی غیر ملکیوں کو مستقل رہائش
عرب ممالک میں بھی اب غیر ملکیوں کو مستقل رہائش اور دیگر کئی طرح کے سہولیات دینے کا رحجان شروع ہوچکا ہے ۔ متحدہ عرب امارات نے غیر ملکیوں کو مستقل رہائش کی اسکیم کا آغاز کیا۔اس اسکیم کو گولڈن کارڈ کا نام دیا گیا ہے جس کے تحت سرمایہ کاروں، کاروباری شخصیات، مختلف شعبوں کے ماہرین، محققین اور غیر معمولی طور پر ذہین طلبہ کو مستقل رہائش کے فوائد دیے جائیں گے۔ متحدہ عرب امارات کے نائب صدر شیخ محمد بن راشد المکتوم نے مستقل رہائش اسکیم دینے کا اعلان کیا ہے۔پہلے مرحلے میں مستقل رہائش کی اسکیم سے فائدہ اٹھانے والوں میں 6800سرمایہ کار شامل ہیں اور ان سرمایہ کاروں کی متحدہ عرب امارات میں مجموعی سرمایہ کاری 101 ارب درہم یعنی چالیس کھرب روپے سے زائد ہے۔واضح رہے کہ سعودی عرب نے بھی غیر ملکیوں کو مستقل رہائش دینے کے حوالے سے گرین کارڈ اسکیم شروع کررکھی ہے۔ان ممالک میں غیر ملکیوں کو مستقل رہائش دینے کا مقصد ان ممالک میں سرمایہ کاری اور ترقیاتی منصوبوں کو مزید آگے بڑھانا ہے تاکہ اس سے ان ممالک کی معیشت پر مثبت اثر پڑے۔

Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 358 Articles with 256421 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.