معیشت کی بحالی کا رودڈ میپ۔۔۔۔۔ اشرافیہ کو لگام دینا ضروری

 پاکستانی معیشت کے سربراہ جناب مشیر خزانہ صاحب نے انتہائی مثبت انداز میں ملکی معیشت کی بحالی کا روڈ میپ بیان کا ہے اِس حوالے سے یقینی طور پر اچھی امید رکھنی چاہیے اور مشیر خزانہ کے لیے بھی دُعا کرنی چاہیے کہ وہ ڈوبی ہوئی معیشت اور حوصلہ ہارتی ہوئی حکومت کو سنبھالا دیں گے۔گو کہ اپوزیشن نے عید کے بعد سٹرکوں پر تحریک چلانے کاعلان کردیا ہے اور ساتھ ہی چیئرمین نیب کا بھی دھٹرن تختہ ہونے والا ہے یوں ملک میں ہلچل مچنے کے قریب ہے۔ عمران خان نے سرگودہا، خوشاب، چکوال کے ہنگامی دورے کرکے مایوس عوام کے اندر جان پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔خطے کے حالات بھی بہتر نہیں ہیں مودی کی جیت ، امریکہ کی ایران کو دھمکی نے بھی حالات میں بے چینی پیدا کر رکھی ہے۔اِن حالات میں بجٹ کی تیاری سے پہلے مشیر خزانہ نے جو کچھ بھی بیان کیا ہے وہ اعداد و شمار کی حد تک تو بہت اچھا نظر آرہا ہے لیکن حقیقت سب کے سامنے ہے۔ ہم آئی ایم ایف کی تمام باتیں مان چُکے ہیں اور اِس لیے بجلی ، پٹرول، گیس کی قیمتیں عوام کے لیے ڈروانا خواب بنتے جارہی ہیں۔

کیا پاکستانی عوام کو ایسی قیادت میسر نہیں آسکی جو کہ اِس کا قبلہ درست کرسکے ہمارے معاشرے میں ریجنل ڈسپیرٹی نے جس طرح قومی یک جہتی کو پارہ پارہ کر رکھا ہے اس بات کا ادراک لیڈر شپ کو بھی ہے عدلیہ اور فوج کے ادارے بھی اِس حقیقت سے آشنائی رکھتے ہیں،اُس کے باوجود کہیں سے بھی خیر کی خبر نہ آنے کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ بھی قومی یک جہتی کے حوالے سے ماضی قریب میں کیا گیا وہ ٹیبل ٹاک اور میڈیا کی حد تک رہا ۔قانون کے طالب علم ہونے کے ناطے راقم کی رائے میں پاکستان کے تمام خطوں کے ساتھ برابری کی بنیادوں پر معاشی سلوک نہ ک رکے ایسا بیج بویا گیا ہے کہ اِس کا شاخسانہ ہم ماضی میں سقوطِ ڈھاکہ کی شکل میں دیکھ چکے ہیں۔ انسانی آزادیوں کے حوالے سے ہمارے ملک کا ٹریک ریکارڈ کسی صورت بھی تسلی بخش نہیں ۔ہمارے ایک طرف عیار دشمن بھارت جو تقسیم ہندکو پاپ کہتا ہے دوسری طرف امریکی سرکردگی میں پوری دنیا کی افواج افغانستان میں خون کی ہولی کھیلنے کے بعد اب کسی اور شکا رکی طرف دیکھ رہی ہیں۔ کشمیر کا معاملہ ہنوز حل طلب ہے۔ ان حالات میں تو پاکستانی معاشرے کو اندرونی معاذ پر انتہائی مضبوط ہونا چاہیے۔لیکن حالات ہیں کہ ناقابلِ بیان ہیں۔ بے روزگاری عروج پر ہے۔تعلیم کا میدان ہو یا صحت عامہ کی سہولتیں ہر طرف ہی لٹیا ڈوبی ہوئی ہے۔ ایسے میں نئی حکومت سے کسی چھو منتر کی توقع رکھنا عبث ہے یقینا یہ بات قابل اطمینان ہے کہ پاک فوج کا مورال بلند ہے اور وہ ہرو قت دفاع وطن کے لیے تیار ہے اور گزشتہ کئی سالوں سے حالتِ جنگ میں ہے۔ اِس کے باوجود کہ حالات کسی جانب بھی تسلی بخش نہیں ہیں لیکن معاشرے کو ہر صورت میانہ روی کی ضرورت ہے۔

حکومت کرنے والوں کی یقینا اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں لیکن پاکستان کے چاروں صوبوں، بشمول گلگت بلتستان و آزاد کشمیر کو ہر حال میں ترقی کے یکساں مواقع ملنے چاہیں۔ اس مقصد کے لیے آئینِ پاکستان مشعلِ راہ ہے تاکہ کسی ایک بھی فرد کو کسی بھی طرح سے اُس کے حق سے محروم نہ رکھا جائے۔ سکول کالج، ہسپتال، کارخانے، پارک، سڑکیں ڈیم پُل، ذرائع نقل وحمل، روزگار کے مواقع وغیرہ پاکستان کے ہر خطے میں رہنے والے ہر فرد کا حق ہیں۔ بلوچستان کا دور افتادہ گاؤں، سندھ کا گوٹھ، خیبر پختون خواہ کا قبائلی علاقہ، کشمیر دھرتی کے سنگلاخ چٹانوں میں رہنے والوں، گلگت بلتستان کی وادیوں سب کے رہنے والوں کا پاکستان کی ایک ایک انچ پر برابر کا حق ہے پاکستان کے تمام وسائل سب کے لیے ہیں۔ میڈیا کی آزادی نے کافی حد تک آگاہی دی ہے اور اب کسی بھی علاقے کے افراد کو اُن کے بنیادی حقوق سے محروم رکھنا مشکل ہے۔

معاشرتی رہن سہن اور رواجات میں معاشی حالات کا بہت گہرا تعلق ہے اور معاشی حالات درست سمت تک اُس وقت تک نہیں کیے جاسکتے جب تک ملکی عوام امن وسکون کی زندگی بسر نہ کر رہے ہوں۔ انسانی بنیادی ضروریات عوام کے مفادات کی ذمہ داری جن محکموں پر قانونی طور پر لاگوہے اُن کی طرف سے چشم پوشی اور کوتاہی موجودہ دور میں بہت بڑا المیہ ہے۔ جب قانون پر عملدرآمد نہ ہورہا ہو تو پھر معاشرئے کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔ اس لیے حکمران حاکمیت کے مزے لوٹنے کی بجائے عوامی خدمت کو پیشِ نظر رکھیں کیونکہ اگر اب بھی موجودہ حکمرانوں نے سابقہ حکمرانوں کی طرح عوام کو نوچنا بند نہ کیا تو پھر معاشرتی زوال اُن کا مقدر ہوگا تب اُن کی حکمرانی قائم نہ رہ سکے گی کیونکہ حکمرانی کرنے کے لیے سابقہ حکمرانوں نے پورے ملک کو میں افراتفری کی جو آگ لگا رکھی تھی جس میں اب تو عوام جل رہے ہیں اُس کے بعد اِس آگ میں جلنا ِاُن سابقہ حکمرانوں کا مقدر ٹھر گیا ہے۔ کس قدر المیہ ہے کہ جب کوئی بھی شخص آئین کی پاسداری کی بات کرتا ہے تو اُسے سازشی گردانا جاتا ہے۔ قران جیسا کوڈ آف لائف رکھنے کے باوجود اور نبی کریمﷺ کے پیروکار کہلوانے کے باوجود ہمارے معاشرے میں جو درگت عام آدمی کی بنی ہوئی ہے اس سے تو یہ بات قرین قیاس ہے کہ خدانخواستہ یہ انسانی معاشرہ ہی نہیں ہے بلکہ حیوانات کی حیوانیت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ہمار ا معاشرے تو بیچارہ جنگل کے قانون سے بھی محروم ہے یہاں تو انصاف بکتا ہے اور اشرافیہ اِس کی خریدار ہے۔ طاقت کے نشے میں دھت اشرافیہ ملک کے غریب طبقے کو کچلنے پر تُلی ہوئی ہے۔ عام انسان کی نہ تو عزت محفوظ ہے اور نہ زندگی۔ معاشرتی طور پر دیکھا جائے جس طرح کا نظام ہمارے ہاں پنپ چکا ہے ایسے نظام سے یہ توقع لگائے رکھنا کہ یہ نظام عام آ دمی کی حالت بدلے گا، دن میں خواب دیکھنے کے مترادف ہے۔ ہمارے معاشرے میں بغاوت سی کی صورت حال پیدا ہوتی جارہی ہے۔بیروزگاری کا جن کسی طور بھی قابو میں نہیں آرہا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان کسی طور بھی اپنے آپ کو حقیقی معنوں میں لیڈر ثابت نہیں کر پارہے لیڈر وہ نہیں ہوتا جو کہ صرف اپنے پیٹ پر ہی ہاتھ پھیرے۔ لیڈر عوام کے لیے باپ جیسا ہوتا ہے اور باپ کا کام صرف محبتیں بانٹنا اور احساس کرنا ہوتا ہے۔ ہماری سوسائٹی میں کاش محمد علی جناحؒ کی شخصیت جیسا رہنماء ہمیں کوئی میسر آجائے۔تو یقیناً پاکستانی عوام ان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے چُنگل سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔

مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے معاشی استحکام کے روڈ میپ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ بجٹ میں ایسے فیصلے ہوں گے جو ملک کو مستقل پائیدار ترقی کی راہ پر ڈالیں گے،بجٹ کے بعد بھی اہم فیصلے کئے جائیں گے،کفائت شعاری اختیار کی جائے گی،2020تک سرکلر ڈیٹ کو زیرو کر دیا جائے گا،بجٹ میں ریونیو کا ہدف 5550ارب روپے رکھا ہے،پہلے سے ٹیکس نیٹ میں موجود لوگوں پر اضافی بوجھ نہیں ڈالا جائے گا،کوشش ہو گی کہ جو بھی نیٹ سے باہر ہیں ان کو اندر لایا جائے اور بوجھ ڈالا جائے،دقتوں کے دن ختم ہونے جا رہے ہیں 6سے 12ماہ میں استحکام کے پروگرام کو مکمل کرنا ہے،اس کے بعد بحالی اور تیز رفتار گروتھ کا وقت ہو گا،بجلی کی قیمت میں اضافہ کرتے ہوئے 300یونٹ تک استعمال کرنے والوں پر قطعی اثر نہیں پڑے گا،بجٹ میں اس کے لئے 216ارب روپے رکھے جائیں گے، زراعت کے شعبے کے ترقی کے لیے 250 ارب روپے مختص کررہے ہیں،آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالر کا سہہ سالہ پروگرام 3.2فی صد کی شرح سود پر لے رہے ہیں،ابھی سٹاف لیول ایگریمنٹ ہو اہے جب تک اس کا بورڈ منظوری نہ دے اس کی تفصیلات ظاہر نہیں کر سکتے،چند ہفتوں میں پروگرام آپریشنل ہو جائے گا،سعودی آئل کی سہولت یکم جولائی سے متحرک ہو جائے گی اس سے زر مبادلہ پر دباؤ کم ہو گا،آئی ایم ایف پروگرام سے دنیا کو سگنل ملے گا کہ پاکستان معیشت کو منظم انداز میں لے جا رہا ہے،،ایمینسٹی سکیم آسان بنائی گئی ہے،اس سے رئیل ایسٹیٹ اور مردہ اثاثے رسمی معیشت کاحصہ بنیں گے،30جون تک کا وقت ہے اس کے بعد ایکشن لیا جا سکتا ہے،یہ حکومت کے اختیار میں نہیں ہے کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت کیا ہے،اگر مجبور ہو کر قیمت بڑھانا پڑے تو کمزور طبقے کی حفاظت کی جائے گی،افراط زر کو نگاہ میں رکھیں گے،،احساس پروگرام کے لئے180ارب روپے،فاٹا کے لئے46ارب رکھے ہیں،زوز گار میں اضافہ کے لئے نجی سیکٹر کو متحرک کریں گے،جو نجی ادارے روز گار دیں گے ان کو ٹیکس میں رعائت ملے گی،ہمیں اختلافات سے ہٹ کر پاکستان کے لئے بہتر سوچنا ہو گا،ہم مشکل خطے اور پڑوس میں ہیں،ملک کی عزت اور وقار پہلی چیز ہے،لوگوں اور سرحدوں کی حفاظت کرنا ہوتی ہے،خود مختاری کے بعد باقی چیزیں ہیں،ہم سب ایک پیج پر ہیں،ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت نے اچھے معاشی فیصلے کرکے ملک کے گردشی قرضوں میں ماہانہ 12 ارب روپے تک کی کمی کی ہے،ا ئندہ چند ماہ میں معیشت کی بہتری کیلیے مزید اچھے فیصلے کیے جائیں گے اور آئندہ 6 سے 12 ماہ میں حالات مزید بہتر ہوں گے۔ حکومت سے قبل گردشی قرضوں میں ماہانہ 36 ارب روپے کا اضافہ ہو رہا تھا لیکن وزیر اعظم عمران خان کی پالیسیوں کی وجہ سے ان میں ماہانہ 12 ارب روپے کی کمی لائی گئی ہے۔ اس وقت گردشی قرضوں میں ماہانہ 26 ارب روپے کا اضافہ ہو رہا ہے اور آئندہ کچھ ماہ میں اسے کم کرکے ماہانہ 8 ارب روپے تک لایا جائے گا اور پھر 2020 کے آخر تک اسے صفر پر لایا جائے گا، یہ تاثر غلط ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض لینے پر بھاری سود ادا کرنا پڑتا ہے۔آئی ایم ایف سے قرض لینے پر شرح سود نسبتاً کم ہوتی ہے جب کہ عالمی مالیاتی ادارے سے قرض لینے کے بعد ملک میں سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ غریب اور متوسط طبقے کو ریلیف فراہم کیا جائے گا۔ ملک کی ٹیکس آمدن صرف 11 فیصد ہے اور ملک میں فقط 20 لاکھ لوگ ٹیکس بھرتے ہیں جن میں سے 6 لاکھ وہ تنخواہ دار افراد ہیں جن کا ٹیکس خود ہی کاٹ لیا جاتے ہے جبکہ ٹیکس کا 85 فیصد حصہ صرف 350 کمپنیاں دیتی ہیں۔ 'ہم چاہتے ہیں کہ جو لوگ ٹیکس ادا کر رہے ہیں ان پر اضافی بوجھ نہیں ڈالا جائے اور جو نہیں بھر رہے ہیں یا آمدن کے حساب سے کم دے رہے ہیں ان پر اضافی بوجھ ڈالا جائے اور اس فلسفے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حکومت نے نئے ڈیٹا حاصل کیے ہیں'۔ ' ملک میں 3 لاکھ 41 ہزار بجلی اور گیس کے صنعتی کنیکشن ہیں جن میں سے صرف 40 ہزار ہی سیلز ٹیکس کے لیے رجسٹرڈ ہیں جس کا مطلب ہے کہ 3 لاکھ ٹیکسس ادا نہیں کر رہے'۔ ملک میں 5 کروڑ بینک اکاونٹ ہیں اور جب ایک بینک میں دیکھا گیا تو وہاں 40 لاکھ اکاونٹ تھے اور ان میں سے صرف 4 لاکھ بینک اکاونٹ ہولڈرز ٹیکس دیتے ہیں جو مجموعی کا 10 فیصد بنتا ہے۔ ملکوں سے 1 لاکھ 52 ہزار پاکستانیوں کے ریئل اسٹیٹ اور ان کے بینک اکاونٹ پر نیا ڈیٹا حاصل کیا گیا اور اس کے مطابق 1 لاکھ کمپنیاں ایس ای سی پی میں رجسٹرڈ ہیں مگر ان میں سے آدھی ہی ٹیکس ادا کرتی ہیں۔ملک میں بڑھائی گئی تیل قیمتوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس میں حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے، عالمی مارکیٹ میں تیل کی فی بیرل قیمت 79 ڈالر ہو چکی ہے۔ حکومت کے پچاس لاکھ گھروں کے منصوبے سے 28 سیکٹر میں روزگار کے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں، اس کے علاوہ کامیاب نوجوان پروگرام کے تحت نوجوانوں کو کم شرح سود پر قرضے ملیں گے۔ گزشتہ دو سال میں زراعت سیکٹر کی صورتحال مزید ابتر ہوئی ہے، ہم تاکہ اس سے روزگار بھی میسر ہو۔ ہم ٹریڈنگ کے بجائے مینوفیکچرنگ سیکٹر کو ترجیح دے رہے ہیں۔ حکومت کو روزگار پیدا کرنے کا ذمہ دار سمجھنے کے بجائے نجی سیکٹر کو اس جانب پابند کریں گے کہ وہ زیادہ سے زیادہ روزگار دیں اور حکومت نجی سیکٹر کی حوصلہ افزائی کے لیے ایسی کمپنیوں کو مختلف ٹیکس میں چھوٹ دے گی۔ ملک میں بہت ساری ایسی شاہراہیں اور سڑکیں ہیں جن کی تعمیر کے لیے نجی سیکٹر سے مدد لیں گے، حکومت سڑکوں پر سرمایہ خرچ کرنے کے بجائے اہم کاموں پر خرچ کرے گی۔ مشکل دن ختم ہونے جارہے ہیں، معاشی طور پر مستحکم ہونے کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے، یہ وقت اختلافات کا نہیں ہے،کہا جارہا ہے کہ آْئی ایم ایف پروگرام سے متعلق کچھ بتایا نہیں جارہا اور پھر یہ بھی کہا جارہا ہے کہ شرائط بہت سخت ہیں، اگر بتایا نہیں جارہا تو پھر انہیں یہ کیسے پتہ چل گیا کہ آئی ایم ایف پروگرام سخت ہے۔انہوں نے کہا کہجب موجودہ حکومت اقتدار میں آئی تو حکومت اقتصادی مشکلات کا شکار تھی،کل اندرونی قرضہ 31 ہزار ارب روپے اور بیرونی قرضہ100 ارب ڈالر تھا،ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر 10 ارب ڈالر سے کم تھے،برآمدی شعبہ کی کارکردگی صفر تھی۔مالیاتی خسارہ 2.3 کھرب روپے تھا جبکہ گردش قرضہ 38 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا۔ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 2017 سے کم ہونا شروع ہوگئی تھی، حالات پر قابو پانا تھا حکومت نے فوری نوعیت کے اقدامات کئے چین،متحدہ امارات اور سعودی عرب سے 9.2 ارب ڈالر کی امدادلی گئی جس سے ادائیگیوں میں توازن کو یقینی بنایا گیا شرح سود کو بھی مینج کیا گیا،درآمدات کی شرح میں کمی لائی گئی اور اس میں کمی کا حجم 2 ارب ڈالر ہے،ترسیلات میں اضافے پر توجہ دی گئی،انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کے پاکستان کی معیشت پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے اس کے نتیجے میں عالمی بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک سے 2 سے 3 ارب ڈالر مالیات کے پروگرام قرضے پاکستان کو ملیں گے،اسی طرح اسلامی ترقیاتی بنک بھی موخر ادائیگی پر 1.2 ارب ڈالر کی فیسیلٹی دے گا کئی ممالک جاچکے ہیں پاکستان بھی ماضی میں آئی ایم ایف کے پاس جاچکا ہے، ہمارا پروگرام تین سال کا ہے اس کے تحت پاکستان کو 3.2 فیصد کی شرح سے قرضہ دیا جائے گا،اس پروگرام سے دیگر اداروں کو بھی پاکستان کی فنانسنگ کی طرف راغب کرنے میں مدد ملے گی، انہوں نے کہا کہ گیس قیمتوں میں اضافے کی صورت میں 40 فیصد صارفین کو تحفظ فراہم کیا جائے گا،مشیر خزانہ نے کہا کہ نئی ملازمتوں کی فراہمی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہیں،معیشت کی بڑھوتری اگرچہ اچھی نہیں لیکن اگر ہم پالیسیاں بہتر بنائیں تو اس سے ملازمتوں کے زیادہ مواقع حاصل ہوسکتے ہیں،2008 سے2013 تک گروتھ ریٹ کم تھا لیکن پالیسیاں بہتر ہونے سے لاکھوں کی تعداد میں ملازمتیں پیدا ہوں گی،2013 سے 2018 تک اگرچہ گروتھ ریٹ اچھا تھا لیکن پالیسیاں اچھی نہ ہونے سے ملازمتوں کے مواقع کم پیدا ہوئے،انہوں نے کہا کہ ہاؤسنگ پروگرام کے تحت 28 شعبوں میں ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔ خد ا کرئے ہماری معاشی حالت بہتر ہوجائے۔ پاکستان زندہ باد
 

MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 453 Articles with 430805 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More