انتخابی نتائج اور مسلمانانِ ہند

بی جے پی کے اقتدار میں آتے ہی مسلمانوں کی سیاسی بےوزنی ایک بہت بڑا سوال بن جاتی ہے اور اپنے پرائے سب اس پر مختلف انداز میں اظہار خیال کرنےلگتے ہیں ۔ اس انتخاب میں سب سے برا حال کمیونسٹ پارٹیوں کا ہوا ہے جو ایک زمانے میں ہندوستان کی سب سے بڑی حزب اختلاف ہوا کرتی تھی اور کم ازکم تین صوبوں میں برسہا برس تک ان کی حکومت تھی لیکن اس کا کہیں ذکر نہیں ہوتا ۔روشن خیال دانشور بھی اپنی ناکامی پر پردہ داری کے لیے مسلمانوں کا رونا لے کر بیٹھ جاتے ۔ اس کی تازہ مثال وائر اردو پرمسلم نمائندگی کے جائزے کو منفی سرخی ہے۔ ویسے ہندی اور اردو خبروں کی ہر ویب سائٹ پر اس حوالے سے کوئی نہ کوئی تبصرہ موجود ہے۔ اس کے اثرات تو مرتب ہوتے ہیں لیکن جب ایک جہاندیدہ صحافی دوست نے بے حد مایوس کن واٹس ایپ پیغام لکھا تو جواب دینا پڑا بھائی ایسی مایوسی بی جے پی میں اس وقت بھی نہیں تھی جبکہ وہ دو نشستوں پر سمٹ گئی تھی اور اس کے دونوں اعلیٰ ترین رہنما اٹل و اڈوانی شکست فاش سے دوچار ہوگئے تھے ۔ مسلمانوں کے دو نمائندے تو اتحاد المسلمین اور اور تین مسلم لیگ سے ایوان میں منتخب ہوئے ہیں نیز کل تعداد ۲۷ تک پہنچ گئی ہے۔

بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی چونکہ مسلم دشمنی کے گرد گھومتی ہے اس لیے مسلمان اس کو ووٹ نہیں دیتے ۔۲۰۱۴؁ میں بی جے پی نے ۷ مسلمانوں کو کمل تھمایا تھا لیکن وہ سب ہار گئے ۔ اس بار بھیبی جے پی نے ۶ لوگوں کو اپنے ٹکٹ پر انتخاب لڑنے کا موقع دیا وہ بھی ہار گئے۔ مسلمانوں کا کمل پر مہر نہیں لگانا فطری امر ہے اور بی جے پی کا مسلمانوں کو ٹکٹ نہیں دینا بھی ویسا ہی ہے ۔ وہ لوگ تو ان ہندووں کا بھی ٹکٹ کاٹ دیتے ہیں جن کی کامیابی کا امکان نہیں ہوتا ۔ اس لیے بی جے پی ٹکٹ کا نہ ملنے پر مغموم ہونا بے معنیٰ ہے بلکہ بی جے پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے مسلم امیدوار افسوس کے لائق ہیں ۔ امت مسلمہ تو اپنے سابق نمائندوں کو بھی بی جے پی کے ساتھ جانے کی سزا اس طرح دیتی ہے کہ سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کو سابق ارکان سمیت شکست فاش سے دوچار کردیاجاتاہے ۔ ۲۰۱۴؁ میں چونکہ اتر پردیش سےسارے مسلم امیدوار ہار گئے تھے۔ اس بار شاہ جی سے لے کر یوگی جی تک بی جے پی کا ہر ایرا غیرا نتھو خیرا فرقہ پرستی کو ہوا دے رہا تھا اس لیے سیاسی افق سے مسلمانوں بالکل غائب ہوجانے کا اندیشہ لگنے لگا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس بار مسلم ارکان پارلیمان کی تعداد ۲۲ سے بڑھ کر ۲۷ ہو گئی ۔ اس دگر گوں صورتحال میں یہ قابلِ ذکراضافہ ہے۔

اترپردیش میں ایس پی و بی ایس اتحاد کا سب سے بڑا فائدہ مسلمانوں کو ملا اور علی اور بجرنگ بلی کا نعرہ لگانے والے یوگی کے اپنے صوبے میں ۶ مسلم ارکان پارلیمان کامیاب ہوگئے ۔ ملائم اور اکھلیش کے علاوہ یادو خاندان کے سارے امیدوار ہار گئے لیکن مسلمانوں کے سبب ایس پی پانچ سے نیچے نہیں اتری بلکہ اکھلیش کی کامیابی کا سہرہ بھی اعظم گڈھ کے مسلمانوں کے سر ہے ۔ فی الحال ایس کے پارلیمانی بورڈ میں اکثریت مسلمانوں کی ہے ۔ بی ایس پی کے ۱۰ میں تین مسلمان ہیں یعنی اگر وہ ایک ساتھ بی ایس پی سے کنارہ کشی کا ارادہ کریں تو اینٹی ڈفیکشن کا قانون ان کے پیروں کی زنجیر نہیں بنے گا۔ بہار جہاں ایک کے سوا ساری نشستیں این ڈی اے کی جھولی میں چلی گئی ہیں یوپی اے کی نمائندگی کا شرف کانگریس کے واحد مسلمان امیدوار کو حاصل ہے۔ مہاراشٹر سے کانگریس کے سربراہ اشوک چوہان کو ناندیڑ اور ونچت اگھاڑی کے رہنما پرکاش امبیڈکر کو دو مقامات سے شکست کا منہ دیکھنا پڑا برسوں بعد ایم آئی ایم کے امتیاز جلیل کوصوبے کےمسلمانوں کی نمائندگی کرنے کا منفرد امتیاز حاصل ہونا معمولی بات نہیں ہے۔

گزشتہ ایوان میں چونکہ مسلم ارکان کی اکثریت غیر ہندی و اردو داں تھی اس لیے ان کی بات دب جاتی تھی ۔ ویسے وہ فطرتاً بھی خاموش طبع لوگ تھے لیکن اب کی بار امتیاز جلیل اور اعظم خان جیسے بلند آہنگ رہنماوں کی آواز کو نظر انداز کرنا مشکل ہوگا۔ ویسے باہو بلی افضال انصاری بھی اگر کسی بی جے پی کے رکن پارلیمان کی جانب بڑھیں گے تو وہ اس پر لرزہ طاری ہوجائے گا۔ سادہ لوح دانشور عام طور پر مسلمانوں کی آبادی کا ارکان پارلیمان کی تعداد سے موازنہ کرکے مایوسی پھیلاتے ہیں ۔ وہ لوگ اس حقیقت کوبھول جاتے ہیں کہ ہمارے ملک میں آبادی کے تناسب سے یا کسی پارٹی کو ملنے والے ووٹ کے تناسب میں ارکان پارلیمان منتخب نہیں ہوتے ۔ یہاں تو حلقۂ انتخاب میں جس کو سب سے زیادہ ووٹ مل جاتے ہیں وہ جیت جاتا ہے چاہے اس کو ۳۰ فیصد یا اس سے کم ووٹ بھی کیوں نہ ملے ہوں۔ وادیٔ کشمیر کے علاوہ چونکہ مسلمان ملک بھر میں بکھرے ہوے ہیں اس لیے عام حالات میں ان کا اپنی آبادی کے لحاظ سے نمائندگی حاصل کرلینا تقریباً ناممکن ہے۔ غیر معمولی صورتحال کی بات دوسری ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ صرف ۱۸ حلقہ ہائے انتخاب میں مسلما ن ۵۰ فیصد سے زیادہ ہیں ۔ ان میں ووٹ کی تقسیم کے باوجودصرف ۲ جگہ بی جے پی کامیاب ہوسکی لیکن دس مقامات پر کانگریس اور دیگر ۶ حلقوں میں ملی و علاقائی جماعتوں کو کامیابی ملی ۔ گیارہ حلقوں میں مسلمانوں کی آبادی ۴۱ سے ۵۰ فیصد کے درمیان ہے ۔ ان میں ۵ سیٹیں بی جے پی کے حصے میں گئیں اور ۶ علاقائی جماعتوں کو ملیں کانگریس پوری طرح محروم رہی۔ مسلمانوں کی آبادیجن ۶۵ سیٹوں پر ۲۰ تا ۴۰ فیصد کے درمیان ہے وہاں بی جے پی کو ۳۸ اور کانگریس کو ۸ نشستوں پر کامیابی نصیب ہوئی۔ یعنی کانگریس کو مسلمانوں کے ووٹ کا فائدہ ملا۔ ووٹ کی تقسیم کو روکنا ایک ناممکن امر ہے۔ مغربی بنگال میں بہرام پور کی مثال لیں تو وہاں ۶۵ فیصد مسلمان ہیں لیکن کبھی بھی مسلم امیدوار کامیاب نہیں ہوسکا ۔ اس لیے کہ ہر پارٹی مسلمان کو ٹکٹ تھما دیتی ہے۔

مسلمانوں کو ہمیشہ ووٹ کی تقسیم کا نقصان ہی نہیں کبھی کبھار فائدہ بھی ہوتا ہے اس کی تازہ مثال امتیاز جلیل کی کامیابی ہے ۔ اورنگ آباد میں شیوسینا اور بی جے پی کے مشترکہ امیدوار چندرکانت کھیرے صرف ۱۵ ہزار ووٹ سے ہارے لیکن عام رائے یہ ہے کہ بی جے پی کی در پردہ حمایت سے آزاد امیدوارہرش وردھن جادھو کو ۲ لاکھ ۸۴ ہزار ووٹ مل گئے۔ کانگریس کے سبھاش جھامبڑ نے ۸۹ ہزار ووٹ لے کر ایم آئی ایم کا نادانستہ تعاون کردیا۔ یہ ایک استثنائی صورتحال ہے اس لیے کہ کوئی ہم خیال پارٹی کا اپنے ہی ساتھی جماعت کی پشت میں چھرا گھونپ دینے کا عمل شاذو نادر ہی ممکن ہے ۔ بی جے پی اور شیوسینا اپنے اتحاد کو ہندوتوا کے نظریہ سے جوڑ تے ہیں ۔ اس کے باوجود آئندہ اسمبلی انتخاب میں مفاد کے پیش نظر اپنے پارٹنر کو اگر کوئی کمزور کرے گا تو اس کا فائدہ مخالف ہوگا ۔اتحادِباہمی ہر طبقہ کے لیےیکساں طور پر مفید ہے ۔ انتشار کا شکار ہونے والا بلا تفریق مذہب و ملت خمیازہ بھگتے گا۔ ارشادِ ربانی ہے ’’اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں اختلاف نہ کرو کہ تم پست ہمت ہوجاؤ اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے اور ثابت قدم رہو ۔ بیشک اللہ ثابت قدموں کے ساتھ ہے ‘‘۔ (انفال ۴۶)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1217157 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.