ساجدہ نے افسردگی سے کہا۔ سب کی شادیاں ہو رہی ہیں ۔
بس۔۔۔۔۔۔۔کنول نے مسکراتے ہوئے کہا۔ امی پلیز ۔ کسی جگہ تو چھوڑ دیا کریں
نا ۔
موسم کی خرا بی کی وجہ سے فلائیٹ کے ٹائم میں ردوبدل کیا گیا تو ساجدہ نے
غصے سے کہا، کوئی چیز وقت پر ہو جائے مجال ہے۔ کنول نے مسکراتے ہوئے کہا۔
امی چائے لے آوں سب کے لیے۔نانی جان نے اس بار فوراً سے حامی بھری ۔
نانی جان کی انکھوں میں ہلکی سی چمک تھی ،ان کا جھریوں سے بھرا چہرہ اس چمک
کی وجہ سے اپنےاندر نیا رنگ لیے تھے۔ کنول چائے اور بسکٹ لے کر واپس آئی
تو اس نے سب سے پہلے نانی کو ہی چائے دی ۔ انہوں نے محبت سے اس کی طرف دیکھ
کر کہا۔ اللہ تجھے بھی تیرا جوڑ دے ۔ کنول نے ہنستے ہوئے کہا۔ نانی،آپ کی
اورامی کی کوئی اور خواہش بھی ہے۔ کیا؟
نانی نے ایک لمبی سی آہ بھری اور ان کے گال دانت نہ ہونے کی وجہ سے اندر
کو گھس گئے۔انہوں نے بسکٹ کو منہ کی ایک طرف رکھ کر چبایا تو کنول کو ان کے
چہرے کی جھریاں ایک دوسرے کو توڑنے کی کوشش میں مصروف نظر آئیں ۔ انہوں نے
دھیرے سے کہا۔جسم میں روح کے نکل جانے تک تمنائیں رہتی ہیں ۔ یہ کمبخت بعض
اوقات تو صرف کپڑے بدلتی ہیں ،جیسے تیری شادی کے بعد تیرا بچہ دیکھنے کی
تمنا۔ کنول نے ان کی بات سن کر بے اختیار کہا۔ مطلب آپ لوگوں کی ساری
تمنائیں مجھ سے وابستہ ہیں ۔ نانی نے بھی قہقہ لگا دیا۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر
بولیں ۔ نہیں نہیں ۔ تم نے وہ شعر نہیں سنا ہزاروں خواہشیں ایسی ہر خواہش
پر دم نکلے۔ کنول نے ان کے ہاتھ کو دھیرے سے دباتے ہوئے کہا۔ کیوں نہیں۔
نانی آپ کی وجہ سے ہی تو مجھے یہ مرض لگا ہے ۔مجھے تو حیرت ہے کہ امی کو
آپ کا اثر کیوں نہ ہوا۔ نانی کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے کنول نے جب سوال
کیا تو ساجدہ جو ان کی باتوں کو سن رہی تھی فوراً سے بولی ۔بارش ہر جگہ
ہوتی ہے۔کہیں پھول کھلتے ہیں تو کہیں چھتوں میں سوراخ کر دیتی ہے۔ ان کے
چہرے پر افسردگی کی جھلک تھی۔کنول نے ان کی انکھوں میں عجب سی اداسی دیکھی۔
ساجدہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔بارش سے ہریالی باغوں میں آیا کرتی
ہے ۔بنجر زمین میں نہیں ۔ ساجدہ کو اداس دیکھ کر کنول نے فوراً ان کے گلے
میں بائیں ڈالتے ہوئے کہا۔ امی آپ کو کس نے کہا آپ بنجر زمین ہیں ۔ میرے
لیے تو آپ ہی سب کچھ ہیں ۔ سب کچھ۔
ساجدہ نے تنگ پڑ جانے والے لہجے میں کہا ،ابھی بھی آدھا گھنٹہ رہتا ہے۔
مسافر ادھر اُدھر بیٹھے انتظار کی کھڑیاں گن رہے تھے۔ بچے بھاگ دوڑ کر
ایرپورٹ کی چیزوں کا جائزہ لے رہے تھے۔ کچھ مائیں اپنے روتے ہوئے بچوں کو
بہلانے کی کوشش کر رہی تھی۔کنول کو اچانک سے لکھنے کی سوجھی۔ کچھ الفاظ اس
کے دماغ کی دیواروں سے ٹکرا رہے تھے ،وہ باہر نکلنے کے لیے بے تاب تھے
،کنول نے کاپی پن نکالا ،جو وہ اپنے پرس میں ہی رکھتی تھی ،لکھنا شروع کیا۔
زندگی ایک سفر کی طرح ہم پر مسلط ہے۔
ہم چاہیں نہ چاہیں اس کے ہر دن کو جینا ہی ہوتا ہے۔
ہم ہر آنے والے لمحے سے بے خبر ،جینے کے لیے آگے بڑھتے ہیں ۔
یہ پیاز کی پرتوں کی طرح اندر سے باہر کی طرف جاتے جاتے ختم ہو جاتی ہے۔
ہر پرت اپنے اوپر چھلکا نہیں چاہتی۔
نہ چاہتے ہوئے بھی چھلکا تو قبول کرنا ہی ہوتاہے۔
اس نے نانی کے جھریوں سے بھرے چہرے کی طرف دیکھا۔ان کے ہاتھوں کو دیکھا۔
پھر اپنے ہاتھوں کو دیکھا ۔ کیسے قدرت وجود سے دھیرے دھیرے وہ تازگی لے
لیتی ہے ۔جو عطا کی جاتی ہے۔ ساجدہ کے ہاتھوں میں ابھی بھی ان کا چھوٹا سا
قرآن تھا ،جس کی وہ تلاوت میں مصروف تھیں۔ ان کے ہاتھوں کی جلد سخت ہو چکی
تھی مگر کسی جھری کا نام و نشان نہ تھا۔ اگرچہ ان کےماتھے پر بنی لکیروں کو
کنول نے غور سے دیکھا۔ کیسے وقت انسان پر اپنے نشان لگا کر اپنے گزر جانے
کی دلیل دیتا ہے۔ پھر اس کا پن ورق پر تیزی سے چلنے لگا۔
جی چاہتا ہے اپنا وجود تجھ کو سونپ دوں۔
میں جانتی ہوں تجھے میری ضرورت نہیں۔
ہر انسان میں نظر آتی ہے،صورت تیری۔
اگرچہ کہنے کو تیری کوئی مورت نہیں۔
تجھے چاہ کر تجھ سے سوال تو ممکن ہےفقط۔
تجھ کو پانے کی کنولؔ کوئی صورت نہیں۔
ساجدہ نے اسے شعر لکھتے پایا تو گھور کر بولی ۔ کسی وقت تو چھوڑ دیا کرو۔
انہوں نے ہاتھ کا سامان سمیٹنا شروع کیا۔ ساجدہ نے تیزی سے کہا ۔ وہ بلا
رہے رہے۔ بلارہے ہیں ،چلو چلو۔
کنول نے بھی جلدی جلدی پن اور کاپی پرس میں ڈالی ۔ نانی کو اُٹھنے میں مدد
کی ۔وہ سب تیزی سے چلتیں ہوئیں جہاز کی طر ف جانے لگی۔ جہاں پہلے ہی لوگ
اپنے ٹکٹ ہاتھ میں لیے تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے۔ ایک گاڑی میں انہیں جہاز
تک لے جایا گیا۔ گاڑی میں بیٹھنے کی جگہ بہت کم تھی ، ایک عورت جو بیٹھی
تھی، اس نے کنول کی نانی کو دیکھ کر کھڑا ہونے کو ترجیح دی ۔اپنی سیٹ نانی
کو آفر کی۔ کنول نے مسکراتے ہوئے اس عورت کی طرف دیکھا۔ جو کافی ماڈرن لگ
رہی تھی۔ اس کے بال شانوں تک تھے اور اس نے بلیو جین سفید شرٹ زیب تن کر
رکھی تھی۔ اس کی کلائی میں پریسلٹ اور ہاتھ میں پتلی سی سونے کیاانگوٹھی
تھی۔ جس پر چھوٹا سا انگریزی لیٹر این بنا تھا۔ کنول اسے غور غور سے دیکھ
رہی تھی۔ اس کی بڑی وجہ جین تھی۔ ایسی جین لینے کی خواہش ایک بار اس نے
ساجدہ سے ظاہر کی تھی ۔ جس پر ساجدہ نے اسے ڈانٹ کر کہا تھا۔ اسلام میں
لڑکوں کا لڑکیوں اور لڑکیوں کا لڑکوں کی طرح رہنا منع ہے۔ آدمی دوپٹہ لیتے
ہیں جو تم جین پہنو گی۔ گاڑی رُک چکی تھی۔ اس جین والی لڑکی کے پیچھے پیچھے
ساجدہ اور پھر نانی کو لیے کنول اُتری۔
جہاز میں داخل ہوتے ہی ،کنول نے ایک خوف محسوس کیا۔ ساجدہ اور نانی پہلے
ایک بار جہاز کا سفر کر چکی تھیں ۔ وہ اطمینان سے بیٹھ گئیں ۔ نانی نے ونڈو
سیٹ پر بیٹھ کر ساجدہ سے بیلٹ باندھنے کو کہا۔ ساجدہ ان کے ساتھ بیٹھ گئی۔
کنول بھی اپنی ونڈو سیٹ پر بیٹھ چکی تھی۔ اچانک سے اسے اپنے قریب وہی سونے
والی رنگ والا ہاتھ نظر آیا ، جو اوپر سامان رکھنے کے بعد نیچے آیا تھا۔
اس نے سر نیچے کیا تو وہ وہی عورت تھی۔ کنول کے پاس والی سیٹ پر ایک
مسکراہٹ چھلکاتی ہوئی بیٹھ گئی۔
کنول نے جہاز سے باہر جھانکا اور پھر اپنے اندر ۔اسے اپنے ہاتھوں پیروں میں
بھاری پن محسوس ہو رہا تھا۔ اس عورت نے مسکرا کر کہا۔ آپ پہلی بار سفر کر
رہیں ۔ کنول نے مسکرانے کی کوشش کی اور جی کہا۔
اس نے خود اعتمادی سے کہا۔ کچھ نہیں ہو گا۔ آپ کا نام کیا ہے۔ کنول نے
بڑھتی ہوئی دل کی دھڑکنوں پر قابو پانے کی کوشش کی اور ہلکی سی آواز میں
کہا۔ کنول۔اس نے کنول کوبغور دیکھتے ہوئے کہا۔ مائی نیم اِذ نویرہ۔ نویرہ
جمال۔کنول نے کوشش کر کے کہا۔ آپ سے مل کر خوشی ہوئی ۔ جہاز نے اُڑان بھری
۔کنول نے سیٹ کو کسَ کر پکڑ لیا۔نویرہ نے مسکرا کر کہا ہو گیا۔ کنول
آنکھیں کھول لیں ۔ کنول کو اپنی دھڑکن اور سانسیں بحال ہوتی ہوئی محسوس
ہوئیں ۔ اس عورت نے اپنے پرس سے کتاب نکالی اور پڑھنے لگی۔کنول نے کتاب کا
نام پڑھا ۔ مین سرچ فار مینگ۔
نویرہ نے کنول کو اپنی کتاب کی طرف دیکھتے ہوئے دیکھا تو مسکرا کر کہا۔ آپ
کو ریڈنگ میں انٹرسٹ ہے ۔ کنول نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔جی۔ نویرہ
نے کتاب میں اپنی انگلی رکھتے ہوئے کنول کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ کیسی
کتابیں پڑھتی ہیں آپ۔کنول نے فخریہ انداز میں کہا۔میں نے تقریباً تمام
صوفیا کی سوانح عمریا ں پڑھی ہیں ۔ مولانا روم کی مثنوی کے بارے میں نے تو
آپ نے سنا ہی ہو گا۔ نویرہ نے تعجب سے کہا۔ کون مولانا روم ۔سوری ۔
کنول نے عجیب سا محسوس کیا۔ نویرہ نے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر خوش دلی
سے کہا۔ آپ بتائیں کچھ مولانا روم کے بارے میں ۔ کنول نے فوراً کہا ۔ وہ
بہت بڑے عالمِ تھے ۔ علامہ اقبال رحمت اللہ کے بارے میں تو آپ نے سنا ہی
ہو گا۔ وہ ان کو اپنا پیرو مرشد مانتے تھے ۔ مولانا روم کے لاکھوں شاگرد
تھے۔ نویریہ دلچسپی سے کنول کی باتیں سن رہی تھی۔اس نے سوال کیا کہ وہ شاعر
تھے علامہ اقبال کی طرح۔ کنول نے بتاتے ہوئے کہا۔جی ہاں ۔
کنول نے پوچھا ۔ آپ کوئی ناول پڑھ رہی ہیں ۔ انگلش۔ نویرہ نےکنول کی
انکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔ ناول ہی سمجھ لیں مگر فکشن نہیں سچائی ہے۔ کسی
انسان کی آپ بیتی ۔ کنول نے سوال کیا ، کیا موضوع ہے۔
نویرہ نے کچھ سوچنے کے بعد کہا ۔ انسان کی بے بسی اور جستجو۔ آپ نے ہٹلر
کا نام سنا ہے ،جس نے لاکھوں یہودیوں کو موت دی۔ کنول نے کہا۔ جی جی ۔
ہمارے ہاں کسی کو ظالم کہنا ہو تو ہٹلر کہہ دیتے ہیں ۔ نویرہ ہنس دی۔ پھر
اس نے کتاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ یہ کتاب ایک یہودی قیدی کی ہے جو
اس کیمپ میں رہا جہاں یہودیوں کو قیدی بنا کر رکھا جاتا۔ پہلے دن ان کے
کپڑے اتار لیے جاتے ۔ بہت کمزوراور لاغرجسم والوں کو زندہ جلا کر مار دیا
جاتا۔
کنول نے افسردہ سے چہرے کے ساتھ نویرہ کی طرف دیکھا۔ بہت دکھی کر دینے والا
ناول ہے ۔ کیا واقعی سچا ہے۔ نویرہ نے سنجیدگی سے کہا۔ بلکل سچا۔ ڈاکٹر
فرینکل وہ قیدی ہیں ۔جنہوں نے اپنی زندگی کی داستان سے لوگوں کو اطمینان
دیا ہے کہ وہ زندگی سے شکائت نہ کریں اور بُرے سے بُرے حالات کو کوئی اچھا
مطلب دینے کی تر غیب دی ہے۔ دُکھ اور مصیبت میں جینا کیسے چاہیے ڈاکٹر
فرینکل یہ سکھاتا ہے۔ مجھے سیلف ڈیولپمنٹ سے متعلقہ کتابیں پڑھنا پسند ہے۔
کنول نے مسکرا کر کتاب کا کور دیکھاپھر سوال کیا۔ اگر واقعی یہ تکلیفیں ملی
،تو پھر انہوں نے کتاب کیسے لکھی۔ نویرہ ہنسی ۔یہی تو کمال ہے۔ آپ ضرور یہ
کتاب پڑھیے گا۔ کنول نے مسکرا کر اچھا کہا۔ نویرہ پھر سے کتاب پڑھنے لگی۔
کنول اپنے کزن کی شادی سے متعلق سوچنے لگی۔
|