سابق رکن پنجاب اسمبلی رانا ارشد نے سابق وزیراعظم میاں
نواز شریف سے جیل میں ملاقات کرنے کے لیے جانا تھا تو میں نے اپنا نام بھی
ملاقاتیوں کی لسٹ میں شامل کروالیا میاں نواز شریف سنٹرل جیل لاہور میں
قیدکی سزا کاٹ رہے ہیں میاں نواز شریف پاکستان کی اہم سیاسی شخصیت ہونے کے
ساتھ ساتھ ایک بہت بڑے کاروباری فرد بھی ہیں اورتین مختلف ادوار میں ملک کے
وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں 25 دسمبر 1949 کو لاہور میں میاں شریف کے گھرپیدا
ہوئے میاں نواز شریف تین بھائی تھے جن میں سے ایک میاں عباس شریف اب اس
دنیا میں نہیں ہیں جبکہ میاں شہباز شریف اس وقت ملک سے باہر ہیں جو قومی
اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی ہیں اور پنجاب کے وزیر اعلی بھی رہے میاں نواز
شریف نے پنجاب یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری بھی حاصل کررکھی ہے جب جنرل ضیاء
الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو ایک قتل کیس میں پھانسی دیدی تو اسکے بعد اسے
اپنے ساتھ مختلف افراد کو نتھی کرنا تھا اور اسی سلسلہ میں پنجاب سے ایک
سادہ لوح نوجوان نواز شریف کو پنجاب کا وزیر خزانہ بنایا گیا 1981میں میاں
نواز شریف کو پنجاب مشاورتی بورڈ میں شامل کیا گیااور پھر 1985میں ضیاء
الحق نے انہیں پنجاب کا وزیر اعلی بنا دیااگست 1988میں جب ضیاء الحق
بہاولپور کے قریب طیارہ حادثہ میں اﷲ کو پیارے ہوگئے تواسکے بعد مسلم لیگ
دو حصوں میں تقسیم ہوگئی جسکی سربراہی میاں نواز شریف کو مل گئی اور پھر
یہی بعد میں مسلم لیگ ن بن گئی میاں نواز شریف اسٹبلشمنٹ کی طاقت سے ایک
بڑے کاروباری سے بڑی سیاسی شخصیت میں تبدیل ہوگئے اور پھر 1991میں جب ملک
کی مقتدر قوتوں نے آئی جے آئی کے نام سے مختلف جماعتوں کو اکٹھا کیا تو
اسکی سربراہی بھی میاں نواز شریف کے حصہ میں آئی یوں میاں نواز شریف پہلی
بار ملک کے وزیر اعظم بن گئے مگر جلد ہی اس وقت کے صدر پاکستان غلام اسحاق
خان سے انکے اختلافات پیدا ہوگئے دونوں کے اختلافات بڑھتے بڑھتے اس حد تک
جاپہنچے کہ پھر 1993میں دونوں کو اپنے اپنے عہدوں سے استعفی دینا
پڑا۔1997میں میاں نواز شریف دو تھائی اکثریت سے پھر ملک کے دوسری بار وزیر
اعظم بن گئے اس دوران بھی میاں نواز شریف کا عدلیہ اور اس وقت کے صدر
پاکستان فاروق لغاری سے پھڈا چل پڑا مگر اس بار وہ خود گھر جانے کی بجائے
چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور فاروق لغاری کو گھر بھیجنے میں کامیاب رہے اسی
دوران بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تو پھر مجبورا پاکستان نے بھی 28مئی1998
کوپہلا اور پھر 30 مئی 1998 کو دوسرا ایٹمی دھماکہ کر کے ہندوستان سمیت
پوری دنیا کے درودیوار کو ہلا کررکھ دیا اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز
شریف پر یہ دھماکے نہ کرنے پر امریکہ سمیت دوسرے ممالک کا بہت سا دباؤ بھی
تھااور معاشی پابندیوں کا ڈر بھی مگرمیاں نواز شریف نے بٹن دبا کر ایٹمی
دھماکے کرکے پاکستان کو پہلی اسلامی اور دنیا کی بڑی ایٹمی طاقت ہونے کا
اعزاز بھی دلوایا۔1999میں میاں نواز شریف کے فوج کے ساتھ تعلقات ایک بار
پھر خراب ہوگئے اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو بیرونی دورے کے بعد
پاکستان میں اترنے کی اجازت نہ دی مگر نواب شاہ ائر پورٹ پر اترتے ہی پرویز
مشرف نے اپنے جنرلز کو نواز شریف کو گرفتار کرنے اور ملک کا انتظام
سنبھالنے کا حکم دیدیا یوں ملک میں ایک بار پھر فوجی آمریت آگئی اور پھر
ملٹری کورٹ نے میاں نواز شریف کو بغاوت ،اغواء برائے قتل،ہائی جیکنگ،دہشت
گردی اور کرپشن کے سنگین الزامات میں انہیں عمر قید کی سزا سنا دی مگر
سعودی عرب کے شاہی خاندان کے میاں نواز شریف کے ساتھ اچھے تعلقات کام آگئے
اور یوں شریف خاندان 10سالہ جلاوطنی کے بدلے سعودی عرب شفٹ ہوگیا2007میں
سپریم کورٹ نے انہیں واپس پاکستان آنے کی اجازت دی تو وہ جلاطنی کاٹ کروپاس
پاکستان پہنچے تو اسلام آباد سے انکا طیارہ واپس سعودی عرب بھجوا دیا گیا
مگر اسی سال 12 نومبر کو میاں نواز شریف واپس پاکستان پہنچنے میں کامیاب
ہوگئے اور پھر2008سے 2013کے درمیان بننے والی حکومت میں مسلم لیگ ن پیپلز
پارٹی کی اتحادی رہی اسی دوران دونوں جماعتوں نے ملکر اس وقت کے صدر
پاکستان پرویز مشرف سے استعفی بھی لے لیا اور پھر ججز بحالی کے معاملہ پر
نواز زرداری اتحاد بھی ٹوٹ گیا جسکے سپریم کورٹ نے فروری 2009میں میاں نواز
شریف اور میاں شہباز شریف کو عوامی عہدہ کے لیے نااہل قرار دیدیااگلے ہی
ماہ میاں نواز شریف نے ججز بحالی تحریک کو سنبھالتے ہوئے لاہور سے لانگ
مارچ شروع کیا تو اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ججز کو بحال
کردیا اور پھر میاں برادران بھی عوامی عہدہ کے لیے اہل قرار پائے اور پھر
مئی 2013میں میاں نواز شریف پاکستان کے تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوگئے
مگر انتخابات میں دھاندلی اور فراڈ کے الزامات لگے جسکے لیے اسلام آباد
سمیت ملک بھر میں دھرنے دیے گئے اسی دوران 4اپریل2016کو پاناما پیپرز لیکس
میں وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز شریف کو دو آپ شور کمپنیوں کا بینیفیشل
مالک قرار دیا گیا اکتوبر2016میں یہ کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت آیا تو
سپریم کورٹ نے ایک جے آئی ٹی بنا دی جس نے نواز شریف کودبئی میں قائم
کیپیٹل ایف زیڈ نامی کمپنی کا چیئرمین ثابت کیا جس پر 28جوالئی 2017کو
سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62/63کے تحت صادق اور امین نہ پاتے ہوئے
نااہل قرار دیدیا یوں انہوں نے استعفی دیدیا اور پھر احتساب عدالت نے نواز
شریف کو10سال قید کی سزا سنا دی جسکے بعد سے وہ اب تک کوٹ لکھپت جیل میں
قید ہیں اور ہر جمعرات کے دن نیب کے قیدیوں سے ملاقات کا دن مقرر ہے میں
بھی جب میاں صاحب سے ملاقات کے لیے جیل پہنچا تو مجھ سے پہلے ایک گروپ
ملاقات کرکے جاچکا تھا دوسرے گروپ میں میرے ساتھ تقریبا 30افراد تھے جن میں
مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا ثنا ء اﷲ ،لاہور سے اراکین قومی اسمبلی ملک
پرویز انکی بیوی شائستہ پرویز اور انکا بیٹا علی پرویز ،جاوید ہاشمی ،حنیف
عباسی ،ملک ندیم کامران ،سائرہ افضل تارڑ سمیت اراکین قومی ،صوبائی اور ن
لیگی ورکز بھی تھے میاں نواز شریف کے ساتھ یہ ملاقات تقریبا 35منٹ جاری رہی
اور اس دوران میں نے کسی بھی فرد کو میاں نواز شریف کے ساتھ گفتگو کرتے
ہوئے نہیں دیکھا سوائے رانا ثنا ء اﷲ خان کے باقی سب افراد خاموشی سے بیٹھے
رہے اور پھر ملاقات کا وقت ختم ہونے پر اٹھ کر باہر آگئے اس دوران سابق
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ میرا بیانیہ ووٹ کو عزت دو سچ ثابت
ہو رہا ہے جبکہ نئے پاکستان کے دعوے داروں نے پرانے اور نااہل افراد کو
عوام پر مسلط کردیا تبدیلی کے نام پر عوام کو بیوقوف بنایا گیا موٹروے اور
سی پیک ہمارا کارنامہ ہے جس نے ملک کی تقدیر بدلی جبکہ پی ٹی آئی کی موجودہ
حکومت نے غریب عوام پر ٹیکسوں کی بوچھاڑ کرکے انہیں مہنگائی کی چکی میں پیس
دیا ہے رانا ثناء اﷲ خان کو مسلم لیگ ن کی تنظیم سازی جلد مکمل کرنے کی
ہدایات کرتے ہوئے 15 جون تک پنجاب بھر میں ڈویژن،ضلع اور تحصیل سطح پر تمام
عہدیداروں کی تامزدگیوں کا حکم بھی دیا میاں نواز شریف نے کہا کہ پارٹی میں
میرٹ پر عہدے دیے جائیں میری سفارش بھی ہو تب بھی میرٹ کا خیال رکھا جائے
اور مشکل وقت میں پارٹی سے بے وفائی کرنے والوں کو کسی صورت پارٹی میں
دوبارہ شامل نہ کیا جائے اور انہوں نے اپنے بیانیہ ووٹ کو عزت دو کو بھی
عوام میں ہر جگہ پھیلانے پر زور دیا انکا کہنا تھا کہ جب تک ووٹ کو عزت
نہیں دی جائیگی اس وقت تک عام عادمی کا معیاری زندگی بلند نہیں ہوسکتامیں
نے اپنی اس ملاقات میں میاں نواز شریف کو مطمئن اور حوصلے میں پایا ہے شائد
عید کے بعد حکومت کے خلاف جو احتجاج شروع ہونے جارہا ہے اس وجہ سے ہمارے
بعد میاں نواز شریف سے جیل میں تیسری ملاقات کرنے والوں میں سابق وزیر اعظم
شاہد خاقان عباسی ،سعدیہ عباسی ،نجم سیٹھی ،جگنو محسن سمیت متعدد ن لیگی
اراکین اسمبلی اور ورکرز بھی تھے۔
|