جمہوریت ایک یونانی لفظ " ڈیماکریٹاس" سے اخذ کیا گیا ہے
جس کے معنی ہیں عوام کی حکومت۔ جمہوریت کو جمہور سے بھی منسوب کیا جاتا ہے
جس سے مراد وہ طرز حکومت جس میں حاکمیت اور اقتدار جمہور کے نمایندوں کو
حاصل ہو اور جمہوری نمایندوں سے مراد وہ نمایندے جن کو ریاست میں اختیارات
اور فیصلہ سازی کا حق عوام نے خود اپنے ووٹ سے دیا ہو۔ اس میں عوام اس بات
کا فیصلہ کرتی ہے کہ انہیں کس طرح کا حکومتی، انتظامی، عدالتی، معاشی اور
معاشرتی نظام پسند ہے۔ درحقیقت اتفاق رائے سے سیاسی، اخلاقی، معاشی اور
معاشرتی ڈھانچے کی تشکیل کا نام جمہوریت ہے۔
پاکستان 14 اگست 1947 کو دنیا کے نقشے پر ایک اسلامی ریاست کی حیثیت سے
معرض وجود میں آیا۔ دنیا کے اندر کل ممالک کی تعداد 245 ہے جن میں سے 192
ممالک ایسے ہیں جو اقوام متحدہ کا حصہ بن چکے ہیں۔ پوری دنیا میں پاکستان
واحد ایسا ملک ہے جس نے 70 سال کے عرصہ میں سارے حکومتی تجربات کر کے دیکھ
لیے ہیں جبکہ باقی ممالک میں 300،400 اور 700 سال تک کا عرصہ بھی لگا ہے۔
پاکستان کا آغاز سب سے پہلے گورنر جنرل سسٹم کے تحت ہوا۔ قائداعظم پہلے
گورنر جنرل تھے اس دوران مسائل تو بے پناہ تھے مگر حوصلے جوان تھے۔ پاکستان
نے 1935 کے آئین میں ہی تبدیلی کر کے اس کے تحت ہی وقتی طور پر حکومتی پہیہ
رواں کیا۔
اس کے بعد پاکستانی عوام صدارتی نظام کے روبرو ہوئی۔ پاکستان میں سب سے
پہلے مارشل لاء لاہور میں احمدیوں کے خلاف تحریک کو کچلنے کی غرض سے لگایا
گیا اور پاکستان کا یہ پہلا مارشل لاء تھا۔ غلام محمد کے دور میں آرمی چیف
جنرل ایوب کو وزیر دفاع لگا دیا گیا یوں اقتدار کے ایوانوں میں فوجی بوٹوں
کی گونج سنائی دینے لگی اور صدارتی نظام آرمی کے نیچے مارشل لاء کی صورت
میں چلنے لگا۔ یاد رہے کہ پاکستان میں پہلا مارشل لاء ایک فوجی نہیں
بیوروکریٹ نے لگایا تھا جس کا نام سکندر مرزا تھا۔ اس کے بعد عوام نے
پاکستان کے اندر پرائم منسڑ یا ویسٹ منسٹر سسٹم دیکھا اور جمہوریت دیکھی
اور پھر اس کے بعد جنرل زیا کے دور میں اسلامک سوشل لزم کو نافذ کر کے بھی
دیکھا۔ انہی ایوانوں میں شورا بھی جنرل زیا کے دور میں بنائی گئی اور اس کے
بعد ایک بار پھر سے پارلیمانی جمہوریت نے اپنے پنکھ پھیلا لیے اور ایک بار
پھر جمہوریت کا دور دورہ شروع ہو گیا۔
ہم جانتے ہیں کے پاکستان میں آج تک چار مارشل لاء لگائے جا چکے ہیں مگر اس
معاشرے نے ان مارشل لاء کو خود ختم بھی کر کے دیکھایا جو کہ ایک بہت ہی
نایاب بات ہے۔ اگر ہم دوسرے ممالک کئ مثالیں لیں تو پتہ چلتا ہے کہ مشرقی
یورپ اور مصر میں مارشل لاء ان کے حکمرانوں کی موت کے ساتھ ہی ختم ہوا۔
افریکہ کو دیکھ لیں یہاں مارشل لاء تقریبا 30، 35 سال تک نافذ رہا اور بڑے
لمبے عرصے کے بعد ختم ہوا۔ لیکن پاکستان ایک واحد ایسا ملک ہے جس کی عوام
کے دباوء کی وجہ سے کوئی دیکٹیٹر اپنے پاوں پر زیادہ دیر تک نہ ٹک سکا۔ ہم
پانامہ ایشو کی بات ہی کر لیں جس میں 542 کے قریب سیاستدان پوری دنیا کے
ملوس تھے۔ پاکستان ایک ایسا واحد ملک جس کا وزیر اعظم کے خلاف مکمل اور
باقاعدہ عدالتی ٹرائل چلا کر پارٹی کی حکومت ہونے کے باوجو اسے منصب سے ہٹا
دیا گیا اور یہ مثال ہے کہ کسی دوسرے ملک میں ایسا کبھی نہیں ہوا بے۔ بے شک
جیسے تیسے بھی اس کام کو سر انجام دیا گیا۔ بقول شاعر:
تنقید کا اصول ہے جمہوریت کی جان
مسلک ہے ناقداں وطن کا مگر غلط
پاکستان کے معاملے میں بڑی دلچسپ اور نئی قسم کی چیزیں آپ کو ملیں گی۔
پاکستان آج سے 70 سال پہلے عام عوام کا ووٹ حاصل کر کے جمہوریت کے تحت معرض
وجود میں آیا۔ آپ دنیا پر نظر ڈال لیں اندازہ لگا لیں کہ ایسے کتنے ملک ہوں
گے جو ووٹ سے بنائے گئے۔ پاکستان کی تاریخ میں کوئی بھی اس ملک پر زیادہ
دیر تک قابض نہ رہ سکا کیونکہ جب ایسا ہونے لگتا ہے تو ایک پبلک پریشر آتا
ہے جو کسی بھی حکومت کو اپنا اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ حقیقت میں
پاکستان ایک بہت زیادہ جمہوری ملک ہے اور ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ
پاکستان پیدائشی طور پر جمہوری ہے جس نے کبھی بھی جمہوریت کو چھوڑا نہیں۔
پاکستان جمہوریت کے لحاظ سے اتنا سمجھدار ملک ہے کہ مولوی حضرات کو چندہ
پیسے اپنی جان تک دے دیں گے مگر ووٹ نہ دیں گے یہی وجہ ہے جو بھی جماعتیں
جمہوری نظام کے خلاف یا اسے بدلنا چاہتی ہیں وہ اسے ہر گز قبول نہیں کرتے۔
جمہوریت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے پاکستان کا مستقبل بڑا روشن
ہے کیونکہ یہاں عام آدمی ووٹ کی حرمت کو پامال نہیں کرتا اور ہمشہ بڑے جوش
و خروش سے اپنے پسندیدہ لیڈر کو ووٹ دیتا ہے اور میرے خیال سے اب وہ دور ہے
کہ جب پاکستان جمہوریت کے بغیر چل نہیں سکتا اور فوج کے بغیر بچ نہیں سکتا۔
اس لیے آئیندہ ہمیں اور بھی زیادہ احتیاط کے ساتھ اس جمہوریت کو آگے لے کر
چلنا ہے اور یہی پاکستان کے نئے اور روشن مستقبل کی نوید ہے۔ اس کی ایک بڑی
وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی کل 5 اکائیاں ہیں جو ایک دوسرے کی زبان تک نہیں
سمجھتے اور جس جگہ پر اکائیاں زیادہ ہوں گی وہاں اتحادی قوت بھی زیادہ
ہوگی۔آپ پچھلے 15 سال کا جائزہ لے لیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی جمہوری
مدت پوری کی جو آگے آنے والی جمہوریت کے لیے فائدہ مند اور سمت ثابت ہوئی۔
اس کے بعد میاں صاحب کو فارغ کیا گیا لیکن مدت ان کی پارٹی کی حکومت کو بھی
پوری کرنے کا موقع دیا گیا اور اب پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں بھی لوگ
سمجھتے ہیں کہ ان کا بھی پورا پورا حق ہے کہ وہ اپنی مدت پوری کریں اور اس
حوالے سے عوام ان کے ساتھ بھی ہے۔ اس لیے ہم ان تمام حالات کو مد نظر رکھ
کر پاکستان میں جمہوریت کی پوزیشن کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ |