گلوبلائزیشن کے جدید اور تیز ترین دور میں خارجہ پالیسی
کی اہمیت پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے اورخارجہ پالیسی نظام تعلیم و صحت سے لے
کر ملکی معیشت پر بھی بہت زیادہ اثر انداز ہونے لگی ہے اس لئے یہ کسی بھی
ملک کے لئے بہت زیادہ حساس اور اہم شعبہ ہے ،ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ دنیا
کے ایک کونے میں ہونے والا واقعہ دوسرے کونے میں واقع ملک کو متاثر کرتا ہے
سو اس میں جتنی احتیاط اور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جائے کم ہے۔
خلاق عالم نے کائنات ہستی میں اپنے سب سے زیادہ محبوب پیغمبر محسن انسانیت
حضرت محمد الرسول اﷲ ﷺ کو عالم کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے مبعوث فرمایا
تو فرد کی زندگی کے جمیع پہلو سے لیکر ملک و ملت کی حیات جاوداں کے سنہری
اصول تک ان کی مبارک زندگی سے امت کو مرحمت فرمائے اب دیکھنا یہ ہے کہ
تاریخ انسانیت کے سب سے سنہری دور یعنی نبی کریم ﷺ اور آپﷺ کے خلفائے اربعہ
کے دور حکومت میں خارجہ پالیسی کی بنیاد کن اصولوں پر مبنی تھی اور ان کا
طرز کیا تھا؟اسلام اس معاملہ میں ہماری رہنمائی کیسے کرتا ہے ؟اسلامک خارجہ
پالیسی کن خطوط پر استوار ہے اورایک آزاد و خود مختار اسلامی ریاست کی
خارجہ پالیسی کیا ہونی چاہئے؟موجودہ دور میں کہ جب دنیا ایک کالونی بن کر
رہ گئی ہے اسلام کے درخشندہ اصولوں کو اپنا کر کیسے اپنے دین و ملت کی صحیح
رہنمائی کی جاسکتی ہے۔
سیدنا امیر معاویہ ؓ اور سیدنا علی المرتضیٰ ؓ کا جب کسی مسئلہ میں اختلاف
ہوا اور اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رومی بادشاہ نیسیدنا معاویہ ؓ کو یہ پیشکش
کی کہ وہ مرکز اسلام پر چڑھائی کریں ہم آپ کی مکمل مدد کریں گے تو سیدنا
معاویہ ؓ نے انتہائی جرات سے جواب دیا کہ اگر تم نے علی ؓ کی طرف لشکرکشی
کی تو سیدنا علی ؓ کی طرف سے جو پہلا سپاہی تمہارے مقابلے میں آئے گا وہ
امیر معاویہ ؓ ہوگا،اس سے ثابت ہوا کہ آپسی اختلافات جتنے بھی ہوں کبھی بھی
مسلمانوں کے خلاف دشمنوں کا ساتھ نہیں دینا چاہئے چنانچہ قرآن پاک میں
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
’’مومن لوگ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا یارو مددگار نہ بنائیں اور
جو ایسا کرے گا اس کا اﷲ سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔
(سورۃ آل عمران 28)
خارجہ پالیسی کا ایک نہایت ہی نازک پہلو یہ بھی ہے کہ انٹرنیٹ اور
الیکٹرونک میڈیا کی روز افزوں افادیت اور مختلف اقوام سے میل جول نے بہت سی
قباحتوں کو بھی جنم دیا ہے اور باقاعدہ کوئی سنسر بورڈ نا ہونے کی وجہ سے
نوجوان نسل بغیر کسی مقصد کے اس کا بہت غلط استعمال کر رہی ہے حکومتی سطح
پر اس کا پورا اہتمام کیا جانا چاہئے بلکہ دفتر خارجہ اور داخلہ میں
باقاعدہ اس کا شعبہ بنایا جائے کہ انٹر نیٹ اور میڈیا کے ذریعہ کوئی بھی
غلط چیز عوام کو گمراہ اور مس گائیڈ نا کرسکے ففتھ جنریشن وار بھی اسی کا
حصہ ہے، اسلام ایک اسلامی حکومت کی اولین ذمہ داری مقرر کرتا ہے کہ اس کے
زیر اہتمام علاقہ میں بسنے والے لوگوں کی کردار سازی مضبوط ہاتھوں میں
ہواور اس کا اسلامی حکومت خاص خیال رکھے نبی کریم ﷺ کے دور حکومت میں
بیشمار ایسے واقعات پیش آئے جس میں آپ نے غیر مسلموں کی بہت سی چیزوں کو
جاری رکھا اور بہت سی چیزوں پر سختی سے پابندی لگا دی تامسلم قوم اخلاقی
پستی ،جسمانی لاغر پن اور معاشی اپاہج ہونے سے محفوظ ہوجیسا کہ سود ،شراب
،جنگ میں دھوکہ دہی،کسی سے بھی وعدہ خلافی وغیرہ کو سختی سے منع کیا بلکہ
کئی غیر اخلاقی حرکات پر سزائیں بھی مقرر فرمائیں اور بہت سی چیزوں پر قد
غن نہیں لگائی تاکہ مسلم قوم دنیاوی لحاظ سے کسی سے بھی پیچھے نا رہے، سو
ہمیں بھی چاہئے کہ ہمارے پڑوسی غیر مسلم ممالک اور خاص کر یورپ کی ہر اچھی
بری چیز کو فری ہینڈ دینے کی بجائے باقاعدہ سنسر شپ سے گزارہ جائے اور ملک
و ملت کے لئے نقصان دہ چیزوں کو کسی بھی صورت ملک کے انٹرنیٹ اور میڈیا سے
دور رکھا جائے تاکہ ہماری تہذیب و تمدن اور اخلاقیات برقرار رہیں اور آئندہ
آنے والی نسلیں ان کی امین بن سکیں اور اسلامی ملک اپنے تشخص ،وقار اور
اپنی عزت کو برقرار رکھ سکے۔
وقت کی تقاضہ ہے کہ پوری دنیا کے ممالک سے بنا کر رکھی جائے خاص کر ان
ممالک سے جو دنیا پر معاشی اور جنگی بنیادوں پر راج کررہے ہیں تاکہ ہمیں
کسی بھی قسم کی مشکلات کا سامنا نا کرنا پڑے مگر اس معاملہ میں اسلام ایک
جرات مندانہ قدم اٹھانے کا اسلامی حکومت کو پابند کرتا ہے چنانچہ قرآن پاک
میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
’’یعنی اور (اے مسلمانوں)تمہارے پاس کیا جواز ہے کہ اﷲ کے راستے میں ان بے
بس مردوں ،عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو یہ دعا کررہے ہیں کہ اے ہمارے
پروردگار!ہمیں اس بستی سے نکال لایئے جس کے باشندے ظلم توڑ رہے ہیں اور
ہمارے لئے اپنی طرف سے کوئی رکھوالا کھڑا کردیجئے اور ہمارے لئے اپنی طرف
سے کوئی مدد گار کھڑا کردیجئے‘‘۔(النساء :75)
کسی بھی ایسے ملک سے تعلقات استوار نا کئے جائیں جو ملک اپنے ہاں بسنے والے
مسلمانوں پر ظلم و ستم کرے بلکہ اس ملک سے ان کے تحفظ کی گارنٹی لینی چاہئے
تاکہ مسلم یونٹی قائم ہو اور برقرار رہ سکے سوچنے کی بات ہے کہ اگر ہم کسی
کی اشک شوئی نہیں کرینگے ، کسی کے مشکل وقت میں ساتھ نہیں دینگے توپھر
ہمارے مشکل وقت میں کون ہماری اشک شوئی کرنے آئے گا ،اسلام تو اس معاملہ
میں اتنا حساس ہے کہ ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے فرمایا نبی کریم ﷺ نے’’
مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں بدن کا کوئی ایک حصہ تکلیف میں ہو تو پورا بدن
بے چین ہوتا ہے ‘‘مگر اس میں کتنی احتیاط سے کام لینا ہے قرآن پاک میں ایک
دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
’’اور کسی قوم کے ساتھ تمہاری دشمنی کہ انہوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا
تھا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان پر زیادتی کرنے
لگو‘‘۔(المائدہ:1)
بلکہ قرآن پاک میں ہے
’’اور اگر وہ لوگ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی اس کی طرف جھک جاؤ اور اﷲ پر
بھروسہ رکھو‘‘۔(الانفال :61)
اور جو ممالک مسلم دشمنی میں شریک نہی ہیں ان سے تعلقات قائم کرنے کے بارہ
میں قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
’’اﷲ تعالیٰ تم کو منع نہیں کرتا ان سے جو لڑتے نہیں تم سے دین پر اور
نکالا نہیں تم کو تمہارے گھروں سے کہ ان کے ساتھ احسان اور انصاف کا سلوک
کرو‘‘۔(الممتحنہ:8)
یعنی اسلام کہتا ہے کہ خارجہ پالیسی کا لازمی حصہ ہونا چاہئے کہ کسی بھی
غیر مسلم ملک سے تعلقات استوار کرنے سے پہلے یہ جائزہ لیا جائے کہ اس کے
مسلمانوں کے بارے میں کیاا قدامات اور خیالات ہیں پھر اس کے حساب سے ان کے
ساتھ برتاؤ کیا جائے چاہے وہ وقت کی کتنی ہی بڑی سپر پاور کیوں نا ہو پھر
فیصلہ کرنے کے بعد معاملہ اﷲ پاک پر چھوڑ دے اﷲ پاک سے بڑا دانا اور کارساز
کوئی نہیں ہے۔
خارجہ پالیسی کا ایک مستقل حصہ اسلامی ممالک سے بہتر تعلقات بنانا ،ان میں
موجود غلط فہمیوں کا ازالہ کرنااورمسلم اتحاد کی سنجیدہ کوششیں کرنا ہونا
چاہئے آج کے اس نازک دور میں باوجود سب سے زیادہ وسائل ہونے کے پوری دنیا
میں صرف اور صرف مسلمان ہی پس رہے ہیں ،ان کی لاشیں ہر طرف بکھری پڑی ہیں
اور آپس میں شدید اختلافات کا شکار ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت پہلے سے
کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے کہ اپنی چھوٹے چھوٹے اختلافات کو بھلا کر ایک پلیٹ
فارم پر متحد ہوکر ایک فوج ،ایک کرنسی ،ایک مشترکہ بنک اور پورے مسلم ممالک
میں مسلمانوں کے لئے ویزہ فری سسٹم متعارف کروانا چاہئے تاکہ مسلم تعلقات
بہتری کی طرف گامزن ہوں اور امت سے غم اور خون کے سائے ختم ہوجائیں۔
خارجہ پالیسی میں اس بات پر بہت زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے کہ پوری دنیا
میں رہائش پذیر اپنے ملک کے باشندوں کی ہر ممکنہ مدد کی جائے ،انہیں مکمل
سپورٹ کیاجائے ،پوری دنیا میں قائم ایمبیسیز کو روزانہ کی بنیادوں پر
مانیٹر کیا جائے اور بہتر سے بہتر سروسز فراہم کی جائیں اس کے ساتھ ساتھ
قومی تشخص کو برقرار رکھنے کے لئے نئی سے نئی پالیسیز لائی جائیں،اپنے
اسلامی کلچر کے فروغ کے لئے سرکاری سرپرستی میں پوری دنیا میں مختلف معاشی
،سماجی فیسٹیولز کا اہتمام کیا جانا چاہئے اور سود کے مقابلے میں اسلامی
معیشت و تجارت کے فروغ کا ذریعہ بننا چاہئے۔
یہ چند ایک تجاویز و آراء اپنے قارئین اور حکومت وقت کے ارباب حل و عقد تک
پہنچانا ضروری سمجھا اس سلسلہ میں مزید بہت زیادہ محنت اور تحقیق کی ضرورت
ہے تاکہ ہمارا پیارہ ملک عزیز پاکستان خارجہ پالیسی کے بحرانوں سے نکل کر
پوری دنیا کے لئے ایک روشن چراغ اور راہنمابن سکے ۔
|