ٹکا سا جواب نہیں ،عملی اقدامات کی ضرورت !

سپریم کورٹ کے احکامات میں کراچی میں ناجائز تجاوزات و غیر قانونی تعمیرات کے خاتمے کے علاوہ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی بھی شامل ہے ۔ کراچی سرکلر ریلوے کے ٹریک پر لینڈ مافیا نے قبضہ کررکھا ہے، جس کو ختم کرنے کے لئے حکومت سندھ اور کے ایم سی، ریلوے ٹریک سے50؍50فٹ کے اندر تمام غیر قانونی تعمیرات کو گرا رہے ہیں۔ بیشتر جگہوں پر ریلوے ٹریک کئی فٹ نیچے زمین میں دفن ہوچکی ہے جسے دوبارہ نکالا جارہا ہے۔ لیکن کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے حوالے سے وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان اختلافات بھی کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ وفاقی وزیر ریلوے کا کہنا ہے کہ ان کے ذمے صرف ریلوے اراضی کو تجاوازت سے صاف کرنا ہے ، سندھ حکومت خود کے ایس آر چلائے گی ۔ جبکہ سندھ اور کے ایم سی کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ تجاوزات کے خاتمے کے بعد بھی کے ایس آر کا بحال ہونا ممکن نہیں ، کیونکہ کراچی کے پاس ریلوے انجن و دیگر انتظامات نہیں ۔ ان حالات میں کے ایس آر کی بحالی تنازعات کا شکار نظر آتی ہے۔ میئر کراچی اور صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ وفاق کے ایس آر کی بحالی و چلانے کے لئے انجن و بوگیاں فراہم کرے ۔ تاحال وفاقی وزیر ریلوے کی جانب سے اپنے موقف میں تبدیلی نظر نہیں آرہی ان کا کہنا ہے کہ عید کے15روز کے بعد تجاوزات ختم کراکے اراضی کراچی سرکلر ریلوے کے لئے حکومت سے واگزار کرکے اپنا ٹاسک مکمل کرلیں گے۔ یہ اہل کراچی کی بدقسمتی ہے کہ مملکت کو 70فیصد ریونیو دینے کے باوجود عوام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ کے ایس آر کی بحالی سے لاکھوں افراد کو براہ راست فایدہ پہنچے گا ۔ ٹریفک کے مسائل میں کمی ہوگی۔ کے ایس آر کو کرایئے کی مد میں نقصان بھی ہوسکتا ہے لیکن مفاد عامہ کے منصوبوں میں نقصانات کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ جب ریلوے میں کھربوں روپے کا نقصان عشروں سے چل رہا ہے تو صرف اس بات پر کے ایس آر کی بحالی کے لئے پیچھے ہٹ جانا مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ حکومت سندھ کی جانب سے بس سروس شروع کرنے کے معاہدے تو کئے گئے ہیں لیکن عوام کب ٹرانسپورٹ کے مسائل سے باہر نکل سکے گی اس کی کوئی حتمی تاریخ نہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے شروع کئے جانے والا منصوبہ لیاری ایکسپریس وے اور گرین لائن بس سروس بھی تاخیر کا شکار ہیں۔ خاص طور لیاری ایکسپریس وے جیسے اہم ترین منصوبے کو سرد خانے میں ڈالے جانے کی وجہ سے ہیوی ٹریفک اور پرائیوٹ ٹرانسپورٹ کے ازدحام سے اہل کراچی کو شدید تکالیف کا سامنا ہے۔ ترقیاتی منصوبے بروقت مکمل نہ کئے جانے کے سبب بھی گرد وغبار اور ٹریفک کے مسائل سے نفسیاتی مسائل میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ۔ اس حوالے سے وفاق و صوبائی حکومت کو اہل کی مشکلات کا ادارک کرنا چاہیے۔

وزیر اعظم نے کراچی کے ایک روزہ دورے میں واضح طور سندھ کی انتظامی تقسیم کے حوالے سے بیان دیا کہ پی ٹی آئی سندھ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے خلاف ہے ۔ انہوں بلدیاتی نظام کو اس کا متبادل قرار دیا کہ، حکومت نیا بلدیاتی نظام لا رہی ہے جس کے بعد سندھ میں تقسیم کی ضرورت نہیں رہے گی۔ نئے بلدیاتی نظام سے انتظامی معاملات حل ہوجائیں گے ۔ وزیر اعظم کے اس بیان کو لے کر سندھ کی انتظامی تقسیم کا مطالبہ کرنے والوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ۔ ایم کیو ایم کے سابق رہنما و تنظیم بحالی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ وزیر اعظم نے ٹکا سا جواب دیا ہے ‘‘۔ علاوہ ازیں متحدہ قومی موومنٹ متعدد بار سندھ کی انتظامی تقسیم کے مطالبے کرچکی ہے ، کبھی جنوبی سندھ ، کبھی سندھ ون ، ٹو تو کبھی کراچی صوبہ کے نام سے ان کی سیاست کبھی ہاں کبھی ناں کی شکل میں سامنے آتی رہی ہیں۔ تحریک انصاف کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم پاکستان سندھ کی انتظامی تقسیم کے حوالے سے اپنے تحفظات و مطالبے کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ وزیر اعظم کی جانب سے سندھ کی عدم تقسیم کے بیان کے بعد ایم کیو ایم پاکستان نے کہا ہے ، سندھ اسمبلی میں جنوبی سندھ صوبے کے قیام کے لئے اسمبلی جلد قرار داد جمع کرائی جائے گی ، ایم کیو ایم کے رہنما فیصل سبزواری نے حکومتی اتحادی ہونے کے باوجود وزیر اعظم کے بیان کو رد کرتے ہوئے پی ٹی آئی کا موقف قرار دیا ہے۔ تاہم پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کی تقسیم کو اپنے زندگی و موت کا مسئلہ قرار دیتی ہے ۔ سندھ قوم پرست جماعتوں کی جانب سے بھی سندھ کی انتظامی تقسیم کے حوالے سے شدید ردعمل سامنے آتا رہا ہے ۔ تاہم پنجاب کی انتظامی تقسیم کو لے کر سندھ کی انتظامی تقسیم کے مطالبے میں بھی شدت پیدا ہو رہی ہے۔ صوبائیت کی اس سیاست کو وزیر اعظم نے اپنے سے سے دفن کرنے کی کوشش کی ہے ، لیکن ان کا بیان اہل کراچی کے احساس محرومی کو اس وقت تک ختم نہیں کرسکتا جب تک کراچی کے حقوق انہیں دے نہیں دیئے جاتے۔ سندھ میں دیہی و شہری تقسیم میں سیاسی ترجیحات کا بڑا عمل دخل رہا ہے۔ گو کہ دونوں جانب سے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں کہ شہری آبادیوں کو ترقی دی گئی ، زندگی کی بنیادی ضروریات بڑے شہروں کو فراہم کی گئی ۔ دیہی آبادیاں ، ترقی و بنیادی سہولیات سے محروم رہیں۔ پی پی پی ، ایم کیو ایم پر الزام لگاتی ہے تو ایم کیو ایم پی پی پی پر الزامات لگاتے ہیں۔ جبکہ ان دونوں پر سندھ کی قوم پرست تنظیمیں اور دیگر سیاسی جماعتیں الزامات عاید کرتی ہیں کہ انہوں نے اپنے حکمران اتحاد کے دوران دیہی و شہری دونوں طبقات کو اہم ضروریات سے محروم رکھا اور سیاسی تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے من پسند علاقوں کو ترجیح دی۔پی پی پی اور ایم کیو ایم ماضی میں اتحادی جماعتیں رہ چکی ہیں۔ یہ بات نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ اگر کراچی کو اس کے جائز حقوق دینے میں کوتاہی ہوئیں تو دیہی سندھ کے علاقے تو بُری طرح متاثر رہے ہیں۔ اسپتال ، اسکول ، کالج ، یونیورسٹی اور انفرا سٹرکچر کی بحالی و بنیادی ضروریات کی فراہمی میں دیہی علاقوں کے ساتھ کی جانے والی نا انصافی کا نوحہ اہل کراچی سے بھی بدتر ہے۔ کراچی کی آبادی مردم شماری سے کئی گناہ زیادہ ہے ۔ ڈھائی کروڑ کی آبادی والا شہر جہاں بلدیات میں منقسم ہے تو دوسری جانب کنٹونمنٹ بورڈز کی وجہ سے بھی کراچی میں طبقاتی تفریق نمایاں نظر آتی ہے۔ کراچی میں زیادہ تر کچی آبادیاں ہیں جہاں رہائشیوں کو کئی دہائیوں سے بلدیاتی ضرورت میسر نہیں ہیں۔
 
کراچی کے لئے سندھ حکومت کی جانب سے نئی انتظامی تقسیم پر تحفظات سامنے آئے ہیں کہ کراچی کو دوحصوں اور 9اضلاع میں تبدیل نہ کیا جائے ۔ اس حوالے سے حکومت سندھ کو کراچی کی تمام اسٹیک ہولڈر جماعتوں کے ساتھ بیٹھ کر نیا بلدیاتی نظام پر مزید غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بے اختیار بلدیاتی نظام کو نافذ کرنے کے بجائے اختیارات و وسائل کو نچلی سطح تک منتقلی بھی ضروری ہونی چاہیے۔ نئے بلدیاتی میں تمام طبقات کی نمائندگی کو یقینی بنانے کے لئے حلقوں کی غیر جانبدارنہ بنایا جانا سب سے اہمیت کا حامل ہے۔ جعلی ڈومی سائل و پی آر سی کے حوالے سے ایم کیو ایم پاکستان نے شدید تحفظات ظاہر کئے ہیں کہ کوٹہ سسٹم کے تحت بھی اہل کراچی کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ رشوت دے کر جعلی ڈومی سائل و پی آر سی بنادیئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ہزاروں سرکاری نوکریاں اہل کراچی کو کوٹے کے مطابق بھی نہیں مل سکی۔ یقینی طور پر یہ معاملہ کراچی کے نوجوانوں کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اور اس سے شدید احساس محرومی و عدم تحفظ کا احساس پیدا ہورہا ہے جسے دور کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔اہل کراچی کے ساتھ وعدے و دعوی تو مسلسل کئے جا رہے ہیں لیکن ابھی تک سب کچھ برعکس ہورہا ہے۔ ایسی صورتحال وفاقی و صوبائی حکومتوں کے لئے مشکلات کا سبب بن سکتی ہے۔ لہذا اہل کراچی کے مسائل کی سنگین صورتحال پر’’ ٹکا سا جواب‘‘ دینے کے بجائے عملی اقدامات کی ضرورت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔

Qadir Afghan Khan
About the Author: Qadir Afghan Khan Read More Articles by Qadir Afghan Khan: 399 Articles with 283448 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.