ٹرک کی بتی

پانامہ لیکس کے بعد بے نامی اکاؤنٹس نے ایسا کھڑاک کردیا کہ ہر کسی نے ہاتھ دھو کر اس بارے میں اظہار ِ خیال کرنا اپنافرض سمجھ لیاہے کچھ جامے میں رہ کر اور جامے سے باہر ہوکر الزامات پہ الزامات لگائے چلے جارہے ہیں واقعی ان سکینڈلز نے حکمرانوں کا کچا چٹھہ کھول کررکھ دیاہے پہلے شیرکی دم پر پاؤں آیا اب خود کو ہاتھی سمجھنے والے اس کی زدمیں ہیں جس اندازسے ان کی چیخیں نکل رہی ہیں عوام میں یہ احساس شدید ہوتاجارہاہے کہ سابقہ کئی حکمران واقعی مشکل میں ہیں لیکن شیدے میدے کا خیال ذرا وکھڑی ٹائپ کا ہے کل جب شید ا میدے کو ملنے گیا اس کی سانس پھولی ہوئی تھی اس کی ناگفتہ بہ حالت دیکھ کر میدا بڑا پریشان ہوا پانی کا گلاس پیش کرتے ہوئے اس نے کہا تھا شیدے! خیریت ہے کوئی کالا کتا تو پیچھے نہیں پڑگیا جو سانس دھونی کی موافق چل رہی ہے
’’نہیں یار! ہے تو خیریت ہی۔مگرمیری پریشانی کا تعلق قومی سلامتی سے ہے اسی لئے میں متفکرہوں
’’قومی سلامتی اور تو۔ میدا ہنسا تو ہنستا ہی چلا گیا لگتا تھا اس پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا ہو
’’کیوں کسی بے وقوف کی مانند ہنستے چلے جارہو شیدا گرمی کھاکر بولا جاہل کہیں گے۔ایک بات بتا دوں جتنی فکر ہم جسے جاہل مطلق اور غریب آدمی کو پاکستان کی ہے حکمران طبقہ کو ہو ہی نہیں سکتی
’’یار ۔۔ آج تو تو باتیں دانشوروں جیسی کررہاہے شیدے نے بڑی سنجیدگی سے کہا یار مجھے بھی اپنے وطن کی بڑی فکر لاحق ہے کبھی کبھار تو سوچتے سوچتے آنکھوں سے نیند اڑ جاتی ہے
’’اب یہی دیکھ لو ۔۔۔میدے نے اپنے گول گول دیدے گھماکر کہا یار بے نامی اکاؤنٹس نے تو ہنگامہ برپا کررکھاہے ایسا پانامہ لیکس کے سنسنی خیز انکشافات کے دوران بھی ہوا تھا تب سے پاکستان میں ایک کہرام مچارکھا ہواہے سابقہ حکمرانوں کے درباریوں کی پوری فوج قطار اندرقطار وضاحتیں اور صفائیاں دے رہی ہے بلکہ وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں جو بھی منہ میں آئے بکتے چلے جارہے ہیں اصل مسئلے کی طرف کوئی نہیں آنا چاہتا اس لئے پنجاب حکومت نے 35ترجمان مقررکردئیے ہیں اسے کہتے ہیں نہلے پہ دہلہ۔
’’ابے تیری نظر میں اصل مسئلہ ہے کیا ؟۔۔ شیدے نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کرپوچھا
’’سامنے کی بات بھی تیرے بھیجے میں نہیں آرہی میدے کا انداز برا منا نے جیسے ہوگیا عقل گھاس چرنے چلی گئی ہے کیا ؟
’’مجھے تو کچھ سمجھ نہیں پرآہی۔۔شیدے نے جزبزہوکر کہا تم ہی کچھ بتادو فلاسفرکی اولاد
’’یار یہ لوگوں کو کیا ہوگیاہے جو کبھی سب ہاتھ دھوکر پانامہ لیکس کے پیچھے پڑ گئے جاتے ہیں اور کبھی بے نامی اکاؤنٹس کا رولا ڈال دیتے ہیں لیکن ان سینکڑوں افراڈکی بات کوئی نہیں کرتا جن کی غیرممالک میں اربوں کھربوں کی پراپرٹی نکل آئی ہے ۔ میدے نے جواب دیا لیکن سامنے کی بات یہ ہے کہ ملکی سرمایہ بیرون ِ ممالک کیسے پہنچا؟ اس پر ٹیکس بھی اداکیا گیا تھا یا نہیں؟
’’یار !تمہاری بات دل کو لگتی ہے سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف الزام در الزام لگاکر اصل معاملہ گول کرنا چاہتے ہیں عین نے کوئی غلط کام کیا ہے تو اس کو جواز بناکر میم کو رعائت نہیں دی جا سکتی ویسے آف شور کمپنیاں اور فیک بنک اکاؤنٹس والی بات سمجھنے کیلئے کل میں پروفیسرکی طرف گیا تھا ان سے اس بارے میں پوچھنے ہی والا تھا کہ ان کے دوستوں نے اسی پر بات شروع کردی
’’ کیا بتایا پروفیسرنے۔۔۔ میدے کا اشتیاق دیدنی تھا
’’ان کا کہنا تھا غیرقانونی سرمائے سے بنائی جانے والی کمپنیوں کی اصطلاح ہی آف شور کمپنیاں کیلئے استعمال کی جاتی ہے
’’اچھا تو یہ بات ہے۔۔ شیدے نے سرہلاتے ہوئے کہا جب ایسی کمپنیاں بنانے والوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ ہم نے آف شور کمپنیاں بنائی ہیں توپھر شورکیسا؟
’’جہاں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادارہوں وہاں ایسا ہی ہوتا ہے بھولے شاہ
’’مطلب مال کسی اور نے کھایا وضاحتیں کوئی اور کررہاہے اس گناہ کو گناہ بے لذت کہتے ہیں پر یار یہ جعلی بنک اکاؤنٹس والا معاملہ کیاہے کوئی تندور والا یا فالودہ فروش یا پھر دس پندرہ ہزار کے ملازم کے اکاؤنٹس سے اربوں کھربوں کیسے نکل آتے ہیں ؟ کاش میرے بھی ایسے بھی اکاؤنٹس نکل آتے
’’ ابے وہ کیوں ؟
’’ اس لئے وہ سنجیدہ سے لہجے میں کہنے لگا چلو کاغذوں میں ہی سہی کم از کم میرے جیسے بندے پر کروڑپتی ہونے کا لیبل لگ جاتا ۔ایمان سے مجھے کروڑ پتی کہلوانے کا بہت شوق ہے لیکن مولبی صاحب کہتے ہیں یہ گناہ بے لذت ہے۔
’’یہ گناہ۔۔ گناہ بے لذت کیسے ہوگیا شاہ کے مصاحب بن کر کوٹھی ، گاڑیاں اوربھرپورسرکاری وسائل ،پروٹوکول تمہیں مل جائے تو دل کو یقین ہے تم بھی ہرحدسے گذرجاؤ گے
’’ نہیں یار۔ میں اس حد تک نہیں گرسکتا ۔۔ میں تو بالکل ان فٹ ہوں۔۔ ایک مرتبہ ایک بزنس مین دوست مجھے ایکVIP پروگرام میں لے گیا ایک اہم شخصیت نے سرمایہ کاری کانفرنس سے خطاب کرنا تھا ہمیں منتظمین نے پہلی قطار میں بٹھا یا بڑی آؤ بھگت کی انہوں نے اتنی شاندار تقریب کہ میں بھی اپنے آپ کو بزنس مین سمجھ بیٹھا مہمان ِ خصوصی اتنے پروٹوکول کے ساتھ آئے شاید وہ مغل ِ اعظم کوبھی نصیب نہیں ہوا ہوگا انہوں نے اپنے خطاب میں پاکستان میں سرمایہ کاری کی فیوض وبرکات پر بڑی دل پذیرتقریر کی میں سوچ میں گم تھا ان حکمرانوں کی اپنی غیر ممالک میں اربوں کھربوں کی سرمایہ کاری اور دوسروں کو اپنے ملک میں انوسٹمنٹ کی تر غیب ۔۔ اتنی مکاری اتنی ڈھٹائی،اتنی دیدہ دلیری اور اتنی بے شرمی کہ میں دنگ رہ گیا عین اس وقت جب وہ ڈائس پر الفاظ کی جادو گری کے پر خچے اڑارہے تھے نہ جانے کیا ہوا بے ساختہ، بلا ارادہ میں نے حلق پھاڑکرقہقہے لگانا شروع کردئیے انگلی کے اشارے سے جو کچھ کہا وہ اتنا بے ربط تھا کہ مجھے آج تک خود بھی سمجھ نہیں آئی ۔۔۔ منطمین کے ایک شارے پر نہ جانے کہاں سے کمانڈوز میرے چاروں طرف آکھڑے ہوئے انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ مجھے اٹھاکر اتنی گجی مار ماری کہ بیان نہیں کرسکتاپھر تقریب کے عقبی حصہ میں کچرے کے ڈھیر پر پھینک کرچلتے بنے
’’تم جیسے نامعقول کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا کم بخت کس نے کہا تھاشاہی معاملات میں دخل دو میں تو پانامہ لیکس اور فیک بنک اکاؤنٹس کے بارے میں تبادلہ ٔ خیال کررہا تھا تم اپنا دکھڑا لے بیٹھو
’’ حکمرانوں کی کرتوتوں کے انکشافات سے پہلے را کے ایجنٹ کلبھوش یادیو کی گرفتاری کا بڑا چرچا تھاہرکوئی اس پراظہارکرتا دکھائی دیتا تھا اب حکمران خاندانوں کی کرپشن کی طلسم ِ ہوشربا کہانیوں نے پاکستانی قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیاہے اب کوئی را کے ایجنٹ کل بھوش یادیو کی بات نہیں کررہا شایدقومی سلامتی کے حساس معاملات سے توجہ ہٹانے کا اس سے بہتر اور تیزبہدف نسخہ یا کوئی اور طریقہ ا یجاد نہیں ہوا اور ہم ہیں سمجھتے ہی نہیں۔

Sarwar Siddiqui
About the Author: Sarwar Siddiqui Read More Articles by Sarwar Siddiqui: 462 Articles with 339317 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.