عمران خان وقت کی ضرورت؟

 تحریر :مہک سہیل،کراچی
1958 کے پہلے مارشل لاء سے لیکرآج تک ہم اسی بحث میں لگے ہوئے ہیں کہ جمہوریت بہتر ہے یا آمریت؟ نظام حکومت کیا ہونا چاہیئے؟ یہ جماعت اچھی ہے یا وہ بری؟ لیکن ملکی حالات کیسے صحیح ہوں گے؟ ہم کب درست اقدامات اٹھائیں گے اس کے لیے کسی نے نہیں سوچا؟ یعنی اجتماعی کاوشیں کہیں نظرنہیں پاکستان کے موجودہ حالات اس وقت سب کی نظر کے سامنے ہیں ایسے میں ملک کے ساتھ کھڑے ہونے اور ایک قوم بنے کے بجائے متحدہ اپوزیشن کا حکومت کیخلاف آئینی اور قانونی جنگ لڑنے کا اعلان حکومتی سطح پر محض ایک افطار پارٹی سے متعلق جس قدر واویلا ہوا ، اس سے محسوس ہوتا ہے کہ کچھ نہ کچھ ہونے جا رہا ہے اور یہ محض نشست و برخاست والا معاملہ نہیں ہے۔ ابھی تو حکومت کو محض نو یا دس مہینے ہوئے ہیں،کیا حکومت کو کچھ کرنے کا موقع دیئے بغیر سڑکوں پر آنا نہیں زیادتی ہوگی؟ سوال یہ ہے کیا سابق حکمرانوں نے اب تک پاکستان کا جو حال کیا ہے اگر عمران خان سب کو کھول کر رکھنے کی ذمہداری خود پر نہ لیتے اور دھرنوں کے زور پر عوام میں یہ شعور اجاگر نہیں کرتے تو کیا کبھی عوام جان پاتی کہ کتنے ارب عوام کے منہ سے چھین کر باہر اثاثے بنائے گئے؟ حال ہی میں اپوزیشن جماعتوں نے متحد ہونے کا فیصلہ کیا ہے تو جیسے اپوزیشن میں نئی جان پڑ گئی حال ہی میں اپوزیشن بھی حکومت کے خلاف متحد ہوگئی ہیں لہٰذا یہ متحدہ اپوزیشن حکومت کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ اپوزیشن اتحاد کیوں بنا؟ کیا یہ صرف حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے بنایا گیا ہے یا پھر حکومت گرانے کی کوشش بھی کی جائے گی؟ متحدہ اپوزیشن سے نمٹنے کیلئے حکومت کا کیا لائحہ عمل ہوگا؟ اس طرح کے بیشتر سوالات عوام کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں۔بلاول کی افطار پارٹی میں جماعت اسلامی کی نمائندگی بھی تھی۔ مولانا فضل الرحمن بھی حاضر تھے اور دیگر علاقائی جماعتوں کے سربراہ بھی! یہ سب بلاول کے ہم نوا ہیں اور مریم صدر کے بھی۔ دوسری جانب بھارت کے انتخابی نتائج میں جیتنے کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور عمران خان کے درمیان ملاقات 13 یا 14 جون کو کرغزستان میں متوقع ہے ، دونوں رہنماؤں میں یہ ملاقات شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں سائیڈ لائن کا حصہ ہو گی جسے پاکستان اور بھارت کے دمیان بات چیت کیلئے بڑا بریک تھرو قرار دیا جارہاہے۔مودی سے بات چیت اسکی ماننے کے لیے نہیں بلکہ اس بار اپنی منوانے کے لیے کی جائے گی نہ کہ جیسے نواز شریف نے دوستی میں کیا میاں صاحب ذاتی تعلقات بنانے کی جستجو میں یہ بھی بھول گئے تھے کہ پاکستان اور بھارت کے بڑے بنیادی اختلافات ہیں اور بی جے پی کا فلسفہ کیا ہے۔ اسی موقع پر جسے ستم ظریفی کہا جا سکتا ہے بلاول بھٹو نے نعرہ لگایا تھا مودی کا جو یار ہے غدار ہے۔ امید ہے کہ خان صاحب میاں نوازشریف والی غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔اس وقت ہندوستان میں انتہا پسند ہندو مسلمانوں کو نچلے درجے کی مخلوق سمجھنے لگے ہیں۔ جس روز مودی کی جیت ہوئی‘ انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں کے ساتھ تحقیر آمیز رویے کی انتہا کر ڈالی‘ جس طر ف سے مودی کا جلوس جا رہا تھا‘ اس کے ساتھ والے علاقوں کے مسلمان دہشت کے عالم میں اپنی جانیں بچا رہے تھے۔ مودی کے غنڈے‘ مسلمان نوجوانوں کو گھیر کے لاٹھیوں اور پتھروں سے نشانے لگا رہے تھے۔ ایک مقام پر ایک بے بس مسلمان کو بوری میں بند کر کے بے تحاشہ لاٹھیوں سے یوں مار رہے تھے جیسے وہ انسان نہیں کسی درندے کو پکڑ کے کچلنے میں لگے ہیں۔وزیراعظم پاکستان جسے کبھی بلاول اسے سلیکٹڈ وزیر اعظم کا خطاب دے یا کبھی مریم اسے نالائقِ اعظم کے نام سے پکاریں عوام اس فضا سے تنگ آچکے ہیں، ملک کی ترقی کی رفتار اس معاندانہ ماحول میں تھم جاتی ہے۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ ایک دوسرے پر حملے نہ ہوں۔ساری دنیا یہ لڑائیاں دیکھ رہی ہے۔ ہم کب درست اقدامات اٹھائیں گے اس کے لیے کسی نے نہیں سوچا؟ یعنی اجتماعی کاوشیں کہیں نظرنہیں آئیں۔ ابھی بھی الزام تراشی کا سلسلہ جاری ہے۔ ذمہ داری اٹھانے اور کچھ کر دکھانے کوکوئی تیار نہیں ہے۔ پوری دنیا میں اصل حکومت بیوروکریسی چلاتی ہے اور یہ لوگ اس ملک کے بہترین، ذمہ دار اور باصلاحیت افرادہوتے ہیں۔ ان کی صلاحتیوں سے بھرپورفائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کو سیاسی معاملات، سیاسی دباؤ سے دور رکھتے ہوئے انہیں بااختیار کیا جائے اور کارکردگی دکھانے پر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ آگے چل کہ یہ ادارے کی بہتری کے لیے کام کرسکیں۔اس وقت قوم کو ایک ہوکر سوچنا ہے جو قرضے لیے گئے اور جو لیے جائینگے وہ اس ملک کو بدحالی سے بچانے کے لیے ہیں عوام کو عمران خان کا ساتھ دینا ہوگا ورنہ اپوزیشن کی الجھی ہوئی باتوں میں آکر ملک کو ایک بار پھر دھرنوں کی نظر کرنے کی جو پلاننگ زیرِ عمل ہے اس سے ملک کو اور جتنا نقصان ہوگا وہ ناقابلِ بیان اور ناقابلِ برداشت ہوگا۔اس کے لیے ہمت، ملک سے محبت اور ملک کے لیے صبر اور برداشت کا جذبہ موجودہونا بہت ضروری ہے۔عمران خان کرپٹ نہیں ہیں عمران خان نے سیاست کی آڑ میں خاندان کی ایمپائر نہیں کھڑی کرنی، عمران خان نے اقتدار کی آڑ میں اپنے کاروبار کو بھی آگے نہیں بڑھانا۔ لیکن ان تمام خوبیوں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ وہ اکیلے کچھ نہیں کر سکتے۔

Talha Khan
About the Author: Talha Khan Read More Articles by Talha Khan: 60 Articles with 41384 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.