آزادکشمیرکے سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق ایک معاملے پر
گفتگو کے دوران فرما رہے تھے کہ پیپلز پارٹی کا یہ کریڈٹ ہے کہ اس کی قیادت
ہر سطح پر اپنے کارکن سے رابطے میں ہوتی ہے یعنی جڑی ہوتی ہے نڈر حق گو
سردار خالد ابراہیم مرحوم نے پریس کلب میں اپنی جماعت جموں وکشمیر پیپلز
پارٹی کے ایک پروگرام میں کہا تھا کہ کارکن دو ہی جماعتوں میں موجود ہیں
ایک پاکستان پیپلز پارٹی اور دوسری جموں وکشمیر پیپلز پارٹی ہے ان سمیت اس
حقیقت کا برملا اظہار کرنے والوں کی سچائی کا اثر ملک کی حالیہ کیفیات میں
بطور مثال ملتا ہے کہ دیگر تمام جماعتوں کے برعکس مزاحمتی مزاج عادت اطوار
بھٹو بے نظیر کی پارٹی میں موجود ہے‘ باوجود اس کے کہ مفاہمت و کاروبار کے
کرشمے پی پی کو وہ نقصان دے گئے جو آمریت کے قہر وطوفان میں نہ ہو سکا اب
پھر یہ جوڑ ڈال دیا گیا ہے نہ جانے کتنے جوڑ مزید ہلائے گا تاہم یہ قابل
اطمینان بلکہ فنانس اور فلر پالیٹکس کے اپنی لپیٹ میں تمام جماعتوں کو لیے
زمانہ میں غنیمت ہے کہ بھٹو بے نظیر ادوار کے اثاثہ شخصیات‘ کارکن مزاج و
کیفیات کا رگوں میں دوڑنا پھرنا ان کی جماعت کو آج بھی دیگر سے بہتر کی
مثال میں نمایاں کرتی ہے جس کا اظہار خاص عام مواقعوں پر ملک بھر اور
آزادکشمیر میں ہوتا نظر آتا ہے لیکن رمضان المبارک میں اس سے بڑھ کر انہونی
سابق ایڈمنسٹریٹر بلدیہ سردار مبارک حیدر کے افطار ڈنر پروگرام میں قائم
ہوئی ہے مبارک حیدر نے بطور سیاسی کارکن ایڈمنسٹریٹر بلدیہ کی حیثیت میں
بلدیہ کو اپنے پیروں پر کھڑا کرتے ہوئے اس کے ڈوبے اثاثے واپس لائے تو اس
کا عوامی خدمت کا گہوارہ تاثر بحال کرایا‘ مٹن اور پرانی کچہری پلازوں سمیت
گھڑی پن میں قیمتی کمرشل اراضی کا مالک بنایا اور خلق خدا کو اصل زندگانی
معمولات کے مسکن‘ محلے گلیاں صاف رکھنے سے لیکر ان کی بہتری و سہولیات کے
حوالے سے مسلسل سرگرم خدمت عمل کا دور رقم کیا‘ گوجرہ بائی پاس سمیت مختلف
اہم منصوبہ جات کی تکمیل کے حوالے سے وزیراعظم وقت چوہدری عبدالمجید کی
سربراہی ارو وزیر تعمیر نو منصوبہ بندی ترقیات خزانہ چوہدری لطیف اکبر کی
موجودگی کا بھرپور اجتماعی استفادہ کیا‘ نلوچھی بس اسٹینڈسبزی منڈی اپر
چھتر قبرستان کیلئے اراضی کا ناممکن کام ممکن کیا جو آج کی حکومت کی توجہ
چاہتے ہیں‘ پارٹی سٹی صدر کے طور پر خاص عام مواقعوں ایام پر تقاریب
سرگرمیوں کے متحرک کردار رہے تو تنظیم سازی میں خود پیچھے ہٹ کر سینئر ز
یوتھ کو ہار پہنا کر آگے کیا یہ حوصلہ ہمت کا کام کرنے والے مبارک حیدر
رمضان المبارک کے پہلے دو عشرے خانہ کعبہ‘مسجد نبوی عبادت میں گزارنے کی
سعادتوں کے بعد واپس آ کر اپنی قیادت اور حلقہ تین کے تنظیمی عہداران
کارکنان کے اعزاز میں افطار ڈنر پروگرام رکھتے ہیں تو روایتی جوش و خروش
ہلہ گلہ نعرے گرم ماحول تو پارٹی کا حصہ ہے مگر کسی ہوٹل یا ہال وغیرہ میں
نہیں بلکہ اپنے پارٹی دفتر کے کھلے احاطے میں منظم نظم و ضبط اور پھر آخر
میں کیک پر ٹوٹنے‘ دیگوں پر جمع ہونے چمچے پلٹیس کا نہ اُچھلنا اور گڑ بڑ
کا نام و نشان کا غائب رہنا بڑی انہونی مثال قائم کر دی ہے کہ لگے لگائے
سٹیج‘قالین‘ کرسیوں‘ پینا فلیکس سمیت کھانا وغیرہ کا انتظام نوٹ کے زور پر
بڑے ہوٹل کے لگے لگائے سسٹم کا حصہ نہ تھا بلکہ یہ ان کی ٹیم کارکنان سمیت
خود کرسیاں لگا کر کھانے سجا کر ماضی کے کلچر کو تازہ کر نے کی یادگار تھی
تو افراد جوش کے لحاظ سے سب سے بڑے سیاسی اجتماع کا اچھا منظر تھا یہ
خالصتاً سیاسی کارکنوں کا اپنے ہاتھوں سے پینا فلیکس بینرز جھنڈے لگانا
کرسیاں ٹیبل سجاکر افطار اور کھانا کا ہر ایک کو باوقار انداز میں بٹھاتے
ہوئے کھلانا اور پھر برتن سمیت کرسیاں ٹیبل سمیت سب کو سمیٹنا پی پی کے
ماضی کے سچے سیاسی عمل جبکہ سیاست کے گمشدہ جذبے افکار کام کی بھرپور غمازی
سے مبارک حیدر سمیت ان کے ساتھ احباب نے ثابت کر دیا‘ سیاسی کارکن اچھا
منظم اور بہترین عوامی مسیحا ہوتا ہے جس کے آخر میں پارٹی صدر لطیف اکبر سے
چیئرمین بلاول بھٹو کی طرف سے ارسال کردہ عیدکارڈز کے ساتھ تصویر بنوانے کا
شوق بتا رہا تھا یہ سلفی کلچر نہیں قیادت کارکن کی محبت کی تڑپ ہے جس کی
بحالی کیلئے چوہدری لطیف اکبر‘ چوہدری پرویز اشرف‘ راجہ فیصل راٹھور‘
سردارجاوید ایوب‘ میاں عبدالوحید‘ چوہدری رشید‘ صاحبزادہ اشفاق ظفر‘ بازل
نقوی‘ عارف مغل‘ طارق سعید خواجہ‘ جاوید بڈھانوی‘ مطلوب انقلابی سمیت سب کو
ضیاء قمر جنید عارف مغل کو نوجوان طلبہ میں اسٹڈی سرکلز کرکے نظریاتی
تربیتی نشستوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے تاکہ دیگر جماعتوں میں بھی ریت چلے
اور حقیقی سیاسی نظام ڈھگ‘ فنکار‘ شعبدہ باز سے آزاد ہو سکے۔ یہ پیپلزپارٹی
کی قیادت کا حالیہ سیاسی زمانے میں بڑا کریڈٹ ہے کہ بالکل انہونی جیسی
روایت کو زندہ کیا اور پی ایس ایف کا باقاعدہ کنونشن منعقدہ کرتے ہوئے صاف
شفاف انتخاب میں ووٹ کی پرچی کے ذریعے پی ایس ایف کی نئی مرکزی تنظیم کے
عہدیداران کا چیئرمین جنید عارف کی سربراہی میں انتخاب عمل میں آیا جس کی
مبارکباد چیئرمین بلاول بھٹو کیلئے بھی بنتی ہے کہ انہوں نے پی ایس ایف کی
رکنیت کے لیے زیادہ سے زیادہ32سال عمر کی حد مقرر کرتے ہوئے ریگولر
اسٹوڈنٹس ہونا لازمی قرار دیا ہے اور پر امن مثالی کنونشن سے اصل جمہوری
قدروں کی بحالی کی جانب مثال قائم ہوئی ہے۔ |