پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتیں ایک دفعہ پھر
بڑھا کر حکمرانوں نے قوم کو ’’عیدی‘‘ دے دی۔ ’’چوروں کے دَورِ حکومت میں جو
پٹرول 65 روپے لٹر ملتا تھا، ریاستِ مدینہ کی تشکیل کے دعویداروں نے 113
روپے لٹر کر دیا۔’’ ڈاکوؤں‘‘ کے دَورِ حکومت میں جو ڈالر 96 روپے تک آگیا
تھا، اب 150 روپے تک جا پہنچا۔ ’’بَددیانت‘‘ حکمران سٹاک مارکیٹ 55 ہزار
پوائنٹس تک لے گئے، وہ اب 34 ہزار پوائنٹس پر ڈانواں ڈول۔ دریائے فرات کے
کنارے بھوک سے مر جانے والے کتّے کی پُرسش سے کوئی لرزا بَراندام کیا ہوگا
کہ یہاں تو حالت یہ کہ
فرشتوں نے جسے سجدہ کیا تھا
وہ کل فُٹ پاتھ پر مُردہ پڑا تھا
حکمران کہتے ہیں کہ وہ سب کچھ مصنوعی تھا، چوروں نے ملک کو اندر سے کھوکھلا
کر دیاہے۔ بجا! مگر چوروں اور ڈاکوؤں کے دَورِ حکومت میں مجبورومقہور آتشِ
شکم کے ہاتھوں خودکُشیاں تو نہیں کر رہے تھے۔ اگر چوروں، ڈاکوؤں، خائنوں،
بددیانتوں اور کرپشن کے مگر مچھوں کے ہاتھوں قوم کو ’’لقمہ‘‘ نصیب ہو رہا
تھا تو کیا بُرا تھا؟۔ قوم تو اُن سپنوں کی تعبیر کی متلاشی جو کپتان گزشتہ
8 برسوں سے متواتر دکھاتے چلے آرہے تھے لیکن اب اُسی تواتر سے صبر کی تلقین
کر رے ہیں۔ 11جون کو نئے مالی سال کا بجٹ آرہا ہے اور اونچے ایوانوں سے بار
بار یہ منادی کہ بجٹ سخت ہوگا، برداشت کرنا پڑے گا۔ عوام سوال کرتے ہیں کہ
کیا کوئی کسر باقی رہ گئی ہے؟۔
قوم کی خواہش اب بھی یہی کہ کپتان کامیاب ہوکہ اِسی میں سب کا بھلا لیکن
اونچے ایوانوں کا عالم یہ کہ اونٹ کی تو ڈھونڈے سے شاید کوئی کَل سیدھی مِل
جائے، حکمرانوں کی مگر ایک کَل بھی سیدھی نہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے
حکمران یہ طے کرکے عازمِ سفر ہوئے ہوں کہ
مجھے اے ناخُدا روکے گا تُو کیا غرق ہونے سے
کہ جن کو ڈوبنا ہو ، ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں
ہر روز الجھاؤ، نِت نئے جھگڑے، طعنے مہنے، بَدزبانی، بَدکلامی اور الزام
تراشی۔ پارلیمنٹ کا کوئی سیشن دشنام طرازی کے بغیر نہیں گزرتا۔ قانون سازی
کا نام ونشان نہیں۔ ارکانِ پارلیمنٹ جعلی حاضریاں لگا کر ٹی اے، ڈی اے وصول
کرتے ہوئے اور وزیرِاعظم کو غیرملکی دَوروں سے فرصت نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ
اُنہیں اُس پارلیمنٹ میں جاتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہو جس پر وہ لعنت بھیج
چکے ہیں۔ اب اونچے ایوانوں کی طرف سے ایک ایسا ’’کھڑاک‘‘ کیا گیا جس نے آمر
پرویز مشرف کے دَور کی یاد تازہ کر دی۔ حکمران شاید بھول چکے لیکن قوم کو
خوب یاد ہے کہ پرویزمشرف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو گھر
بھیجتے بھیجتے خود گھر پہنچ گیا۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق
حاصل نہیں کرتا۔ اگر حکمرانوں نے سبق حاصل کیا ہوتا تو مستقبل میں سپریم
کورٹ کے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف
سپریم جوڈیشل کونسل میں ’’خفیہ‘‘ ریفرنس نہ بھیجتے۔ قاضی فائز عیسیٰ کا
قصور شاید یہ کہ اُنہوں نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ لکھا جو حکمرانوں
کو پسند نہیں آیا۔ اونچے ایوانوں کے باسیو! ایسا آمریت میں ہوتا ہے،
جمہوریت میں نہیں۔سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ
ہائیکورٹ کے جسٹس کے کے آغا کے خلاف ریفرنسز کی سماعت کے لیے 14 جون کی
تاریخ مقرر کی ہے ۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدرِ مملکت کو خط لکھ کر اپنے
خلاف دائر ہونے والے ریفرنس کے بارے میں استفسار کیا۔ اُنہوں نے لکھا کہ
اُنہیں ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اُن کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت
ریفرنس دائر ہوا ہے۔ اگر یہ درست ہے تو اُنہیں ریفرنس کی کاپی فراہم کی
جائے۔
شنید ہے کہ اچھی شہرت کے حامل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس
دائر کرنے کے فیصلے کو تحریکِ انصاف کے کئی وزراء اور ارکانِ پارلیمنٹ نے
پسند نہیں کیا۔ حتیٰ کہ خود صدرِ مملکت عارف علوی بھی ناخوش تھے لیکن
اُنہیں وزیرِاعظم عمران خاں کی ایڈوائس پر یہ فیصلہ کرنا پڑا۔ جسٹس قاضی
فائز عیسیٰ کو وکلاء برادری کے وسیع حلقے میں انتہائی قابلِ احترام سمجھا
جاتا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ ریفرنس وزیرِقانون فروغ نسیم کی ہدایت پر
تیار کیا گیا۔ اُدھر وکلاء اور میڈیا بھی اِس ریفرنس پر حیران اور سیاسی
جماعتیں باہر نکلنے کو تیار۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ وکلاء برادری نے ردِعمل
دینا شروع کر دیا ہے اور سیاسی جماعتیں بھی اپنا ’’میمنہ میسرہ‘‘ درست کر
رہی ہیں۔ فخرالدین جی ابراہیم کے صاحبزادے زاہد فخرالدین نے بحیثیت ڈپٹی
اٹارنی جنرل اپنا استعفیٰ صدرِمملکت کو بھجوا دیا ہے۔ اپنے استعفے میں
اُنہوں نے لکھا کہ یہ ریفرنس ایک ایسے جج کے خلاف ہے جس کی ساکھ بے حد
شاندار ہے اور جس کے خلاف حکومت پہلے ہی فیض آباد دھرنا کیس سے اپنی رائے
قائم کر چکی ہے۔ اُنہوں نے اپنے استعفے میں لکھا ’’میری رائے میں یہ اقدام
ججوں کے احتساب کے متعلق نہیں بلکہ آزاد افراد کی ساکھ مجروح کرنے اور
عدلیہ کو زیر کرنے کی ایک غیرمحتاط کوشش ہے‘‘۔ اِن حالات کو مدِنظر رکھتے
ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ جیسے ایک نئی عدلیہ آزادی تحریک جنم لینے کو ہے۔
پچھلے دنوں بلاول زرداری کی نَیب میں پیشی کے موقعے پر اسلام آباد میں
پیپلزپارٹی کے کارکنان پر تشدد کیا گیا۔ آنسوگیس اور واٹر کینن کا بے تحاشہ
استعمال ہوا اور پیپلزپارٹی کی قومی اسمبلی کی 2 خواتین ارکان کو حراست میں
لیا گیا جس کی ہر طرف سے مذمت کی گئی۔ یہ کارروائی پرویزمشرف کے قریبی
ساتھی بریگیڈئیر (ر) اعجازشاہ کے حکم پر پر عمل میں آئی، موصوف آجکل
وزیرِداخلہ ہیں۔ گزشتہ دنوں وہ یہ دھمکی بھی دے چکے تھے کہ اگر کسی نے
احتجاج کی خاطر باہر نکلنے کی کوشش کی تو اُسے ’’پھینٹی‘‘ لگائی جائے گی۔
اب اُنہوں نے اپنا کہا سچ کر دکھایا۔ پرویزمشرف کے دَور میں پکڑ دھکڑ بھی
ہوتی تھی، تشدد بھی اور ’’بوقتِ ضرورت‘‘ قتلِ عام سے بھی گریز نہیں کیا
جاتا تھا۔ کراچی کا سانحہ 12 مئی اِس کی زندہ مثال ہے جس کے بعد پرویزمشرف
اپنے دونوں مُکّے لہرا کر اپنی اندھی طاقت کا اظہار کر رہا تھا۔ بریگیڈئیر
اعجازشاہ اب وہی حربے استعمال کر رہے ہیں جو دَورِ آمریت میں جاری وساری
تھے۔ پیپلزپارٹی اور نوازلیگ کے 10 سالہ جمہوری دَور میں نہ تو سیاسی
کارکنوں کی پکڑ دھکڑ ہوئی اور نہ ہی تشدد۔ پیپلزپارٹی کے دَور میں مولانا
طاہرالقادری اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ اسلام آباد پہنچے، راستے میں کوئی رکاوٹ
سامنے آئی نہ احتجاجی ریلی کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ مولانا نے شاہراہِ
دستور پر دھرنا دیا اور مذاکرات کے بعد اپنے لاؤ لشکر سمیت لوٹ گئے۔ ’’کزنز‘‘
کے دھرنے کی یادیں تو آج بھی تازہ ہیں۔ عمران خاں اور مولانا طاہرالقادری
14 اگست 2014ء کو ڈی چوک اسلام آباد میں دھرنا دیا ۔ پاکستان کی تاریخ کے
اِس طویل ترین دھرنے کے دَوران جو کچھ ہوا، وہ اب تاریخ کا حصّہ ہے۔ مولانا
طاہرالقادری تو لگ بھگ ایک ماہ بعد اپنے سیاسی کزن (عمران خاں) کو داغِ
مفارقت دے کر اپنے وطن کینیڈا سدھارے لیکن کپتان نے 126 روز تک ڈی چوک
اسلام آباد کو اپنا مسکن بنائے رکھا۔ جب اِس دھرنے میں کچھ باقی نہ بچا تو
سانحہ اے پی ایس پشاور کا بہانہ بنا کر اسے ختم کردیا گیا۔ اِس تمام عرصے
کے دَوران نہ تو کارکنان پر تشدد ہوا اور نہ ہی حکومت کی جانب سے غیرجمہوری
ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔ موجودہ دَورِ حکومت میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ
جیسے ’’دَورِ آمریت‘‘ لوٹ آیا ہو۔ اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ
وزیرِاعظم کے حواریوں میں لگ بھگ 70 فیصد وہی لوگ شامل ہیں جو پرویزمشرف کے
بھی ساتھی تھے اور جن کی تربیت آمریت کی نرسریوں میں ہوئی۔ یہ رویہ بہرحال
جمہوریت کے لیے سُمِ قاتل ہے جو کسی بھی سانحے کو جنم دے سکتا ہے۔
موجودہ حکومت نے اگر پچھلے 9,10 ماہ میں کچھ کرکے دکھایا ہوتا، مہنگائی کا
عفریت مفلسوں کو نگل نہ رہا ہوتا، ڈالر آسمان کی رفعتوں اور روپیہ پاتال کی
گہرائیوں کو نہ چھو رہا ہوتا، پٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھنے کی
بجائے کم ہو رہی ہوتیں، سٹاک مارکیٹ کے تَنِ مُردہ میں جان پڑ جاتی اور
ترقی کی شرح 5.8 فیصد سے گر کر 2.9 فیصد نہ ہوئی ہوتی تو شاید افراتفری کا
یہ عالم نہ ہوتا لیکن یہاں تو عالم یہ کہ ’’نے ہاتھ باگ پر ہے ، نے پا ہے
رکاب میں‘‘ اورنوبت یہاں تک آن پہنچی کہ تحریکِ انصاف کو اونچے ایوانوں تک
لانے والے ’’ہاتھ‘‘ بھی حیران وپریشان، اپنے بیگانے، سبھی ناخوش، مایوس،
دِل گرفتہ،یہ کہتے ہوئے
نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں
تُو بھی دل سے اُتر نہ جائے کہیں
|