وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اپنی کا بینہ کو توسیع دیتے ہوئے
۸ نئے وزراء کی حلف برداری کرائی ۔ ان میں ایک بھی بی جے پی کا نہیں ہے
بلکہ سارے کے سارے جے ڈی یو کے ہیں ۔ نتیش کمار کے اس اقدام کو پارلیمان
میں جے ڈی یو کی عدم شمولیت کے بعد ایک زخمی شیر کا انتقام کہا جارہا ہے
لیکن یہ ایک خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ نتیش کمار شیر
ہوں یا بلی وہ بی جے پی کے پنجرے میں محصور ہیں ۔ ان کا اقتدار بی جے پی کی
حمایت کے مرہونِ منت ہے جبکہ بی جے پی کم ازکم مرکز میں ان سے بے نیاز ہے۔
نتیش کمار اگر پھر سے بی جے پی کے ساتھ اپنا ناطہ توڑ لیں جس کا امکان کم
ہے تو آرجے ڈی اپنی بقاء کی خاطر ان کی پھر سے حمایت ضرور کرے گی لیکن
بعید نہیں کہ بی جے پی اس کا بدلہ لیتے ہوئے سرجن گھوٹالا کے الزام میں
انہیں لالو یادو کے پاس جیل میں بھیج دے ۔ اس لیے فی الحال نتیش کمار کی
راہ آسان نہیں ہے۔ مودی جی کے دوبارہ وزیراعظم بن جانے سے سب سے زیادہ دکھ
قومی جمہوری محاذ میں شامل جماعتوں مثلاً جنتا دل یو ، شیوسینا اور اپنا دل
کو ہے۔ انسان جس قدر توقعات وابستہ کرتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ مایوس ہوتا
ہے۔
بی جے پی، سنگھ پریوار اور ان کے رائے دہندگان کا خوشی سے پھولا نہ سمانا
فطری عمل ہے لیکن ان سخت گیر ہندو انتہا پسندوں کو مودی جی نے قدرے مایوس
کیا جو کرنسی نوٹ سے بھی گاندھی کی تصویر ہٹواکر ساورکر کی فوٹو لگوانا
چاہتے ہیں ۔ مودی جی نے اول تو گاندھی سمادھی کے درشن کیے پھر اٹل جی کی
سمادھی پر خراج عقیدت پیش کیا۔ ساورکر کی تصویر کو پرنام بھی کیا لیکن
پرگیہ ٹھاکر جیسے لوگوں کو اس وقت تک اطمینان نہیں ہوگا جب تک مودی جی
گوڈسے کو شردھانجلی نہ پیش کردیں ۔ بعید نہیں کہ آئندہ انتخاب میں ضرورت
پڑنے پر و ہ شبھ کام بھی ہوجائے ۔ کانگریس ، حزب اختلاف اور ان رائے
دہندگان کا غمگین ہوناجنہوں نے مودی کو ہرانے کے لیے ووٹ دیا قرین قیاس
تھا۔ ان میں مسلمانوں کی کثیر تعداد شامل تھی۔ مسلمانوں کو اس حکومت سے کسی
خیر کی امید نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اگر مختار عباس نقوی کو اس بار وزارت سے
نہیں نوازہ جاتا تب بھی انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن نتیش کمار جیسے این
ڈی اے کے حلیف بڑی امیدیں وابستہ کیے ہوئے تھے جن پر اوس پڑ گئی۔
بی جے پی حلیف جماعتوں کے اندر مایوسی کی بنیادی وجہ بی جے پی کی رعونت اور
خود غرضی ہے ۔یہ لوگ انتخاب سے قبل اپنے ساتھیوں کے آگے سجدہ ریز ہوجاتے
ہیں مگر کامیابی کے ملتے ہی انہیں ٹشو پیپر کی مانند پونچھ کر کوڑے دان میں
ڈال دیتے ہیں ۔ وزارت سازی سے قبل بی جے پی نے ایک من مانا اصول یہ بناڈالا
کہ ۵۷ لوگوں کی وزارت میں ہر حلیف جماعت کا صرف ایک وزیر ہوگا ۔ وہ جماعت
اگر شیوسینا ہے جس ۱۸ ارکان ہیں تب بھی ایک ، جنتا دل ہے جس کے ۱۶ ہیں تب
بھی ایک ۔ ۶ لوگوں کو کامیاب کرنے والی ایل جی پی کو بھی ایک اور دوراکان
پر مشتمل اکالی دل کو بھی ایک۔ اسے کہتے ہیں ’اندھی نگری چوپٹ راجا ، ٹکے
سیر بھاجی ٹکے سیر کھاجا‘۔پچھلی مرتبہ شیوسینا نے اپنے دوسرے نمائندے کو
کابینی درجہ نہیں ملنے پراحتجاج کرتے ہوئے صرف ایک پر اکتفاء کیا تھا ۔ بی
جے پی نے اسے سمجھانے منانے کی چنداں زحمت نہیں کی اس بار ادھو ٹھاکرے نے
بلا چوں چرا ’جو مل گیا اسی کو مقدر سمجھ لیا ‘ اور خاموشی اختیار کرلی ۔
نتیش کمار کے ساتھ یہ معاملہ پہلی بار ہوا ہے اس لیے انہوں نے حلف برداری
سے کنارہ کشی کی مگر امید ہے وقت کے ساتھ انہیں بھی اپنی اوقات کا احساس ہو
جائے گا۔ بی جے پی کی اندھیر نگری میں حلیف جماعتوں کی حالت زار پر یہ شعر
صادق آتا ہے؎
تم تو اڑن کھٹولے لے کر پہنچو تاروں کی نگری
ہم لوگوں کی روح کمر تک دھرتی کی دلدل میں پھنسی
بی جے پی نے وزارت سازی میں مہاراشٹر اور بہار کے صوبائی انتخابات کے قربت
کا لحاظ رکھا اور دونوں صوبوں سے اپنے پانچ پانچ ارکان کو وزارت سے نوازہ ۔
بہار کے اندر بی جے پی اور جے ڈی یو کے کامیاب ارکان کی تعداد کا فرق صرف
ایک ہے یعنی بی جے پی کے ۱۷ تو جے ڈی یو کے ۱۶ ۔ اس کے باوجود ایک کے پانچ
اور دوسرے کا ایک یہ کہاں کا انصاف ہے؟ لیکن نتیش کمار کو بی جے پی کے ساتھ
سمجھوتہ کرنے سے قبل یہ سوچنا چاہیے تھا۔ نتیش کو اپنے کیے کی سزا مل رہی
ہے۔ بی جے پی نے جب ان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ کر سرکار گرانے کی کوشش کی
تو لالو یادو نے آگے بڑھ کر اسے بچایا۔ انتخاب میں کم نشستوں پر کامیابی
حاصل کرنے کے باوجود لالو یادو نے انہیں وزیراعلیٰ کے عہدے پر بحال رکھا اس
کا بدلے میں انہوں نے کمال احسان فراموشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یو پی اے سے
نکل کر این ڈی اے میں شمولیت اختیار کرلی ۔ قومی انتخاب کے موقع پر بی جے
پی کو بلیک میل کرکے برابر نشستیں اینٹھ لیں لیکن جب بی جے پی کی باری آئی
تو اس نے نتیش کی کمر پر لات مار کر انتقام لے لیا ۔
آئندہ صوبائی انتخاب میں اگر جے ڈی یو کی بی جے پی سے ایک نشست بھی کم
آئے گی تو نتیش کمار وزیر اعلیٰ نہیں بن سکیں گے اور بہار کی صوبائی
انتخاب میں اگر بی جے پی کو اپنے بل پر کامیابی مل جائے تو نتیش کمار کو بن
باس پر دہلی بلا لیا جائے گا۔ بی جے پی کے ساتھ مل کر سیاست کرنے کی ترغیب
دینے والے مسلم رہنما وں کو نتیش اور ادھو ٹھاکرے کی ذلت آمیز رسوائی سے
عبرت پکڑنی چاہیے۔ حلف برداری سے پہلے ہی امیت شاہ نے مہاراشٹر میں ادھو
ٹھاکرے پر دباو بڑھانے کے لیے تنہا انتخاب لڑنے کا راگ الاپنا شروع کردیا
ہے۔ اس بار سب سے برا حال اپنا دل کی سابق مرکزی وزیر انوپریہ پٹیل کا ہوا
۔ اس نے اول تو بی جے پی کی خوشنودی کے لیے اپنی والدہ کی پیٹھ میں چھرا
گھونپ دیا لیکن دونوں نشستوں پر کامیابی درج کرانے کے باوجود اسے وزارت سے
محروم کردیا گیا ۔ انوپریہ کا قصور یہ تھا کہ گزشتہ سال دسمبر کے اندر بی
جے پی کی صوبائی انتخابات میں شکست کے بعد اس نے کہہ دیا تھا بی جے پی اپنی
ہار سے سبق لینا چاہیے۔ اب بی جے پی انوپریہ کو سبق سکھا رہی ہے۔ حلف
برادری کی تقریب میں انوپریہ کو دیکھ کر وہ نغمہ یاد آگیا؎
رہتے تھے کبھی جن کے دل میں ہم جان سے بھی پیاروں کی طرح
بیٹھے ہیں انہیں کے کوچے میں ہم آج گنہگاروں کی طرح
بی جے پی کی حلیف جماعتوں کو اپنا غم غلط کرنے کی خاطر خود اسی جماعت کے
معمر رہنماوں کا عبرتناک انجام دیکھ لینا چاہیے۔ پانچ سال قبل ۷۰ سال کی
قید لگا کر مودی جی نے اپنے بزرگوں پر بلڈوزر چلا کر انہیں مارگ درشک منڈل
میں ڈھکیل دیا حالانکہ موجودہ وزارت میں بھی دو ارکان کی عمر ۷۰ سے تجاوز
کرتی ہے۔ یدورپاّ کو ۷۶ سال کی عمر وزارت اعلیٰ کے عہدے کا حلف دلایا گیا
یہ اور بات ہے کہ وہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے ۔ ۲۰۱۴ میں
مودی جی سے قدرے سینئر دولوگوں کو مجبورا ًحکومت میں شامل کیا گیا تھا ۔ ان
میں سے ایک راجناتھ سنگھ تھے اور دوسرے سشما سوراج تھیں۔ اُس مرتبہ سشما
سوراج ودیشہ سے ریکارڈ ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہوئی تھیں ۔ اس بار ان کے من
میں نہ جانے کیا سودہ سمایا کہ انتخابی میدان سے کنارہ کشی ہو گئیں ۔ انہیں
امید رہی ہوگی کہ مودی جی دیگر ایوان بالا کے ارکان کے ساتھ ان کو بھی
وزارت سے نوازدیں گے ۔سشما کی یہ توقع بیجا نہیں تھی اس لیے کہ اگر ایس جئے
شنکر جیسے غیر سیاسی سفارتکار کو راجیہ سبھا کی رکنیت دلا کر وزیر بنایا
جاسکتا ہے تو ان کو کیوں نہیں؟ لیکن مودی جی نے موقع غنیمت جان کر انہیں
دودھ سے مکھی کی طرح نکال پر پھینک دیا ۔
پچھلی مرتبہ جہاں راجناتھ سنگھ کو وزیرداخلہ اور سشما سوراج کو وزارت خارجہ
کے قلمدان سے نوازہ گیا وہیں ارون جیٹلی کو وزیر خزانہ کے ساتھ ساتھ وزیر
دفاع بھی بنادیا گیا ۔ اس طرح پارٹی میں مودی کا بایاں ہاتھ امیت شاہ اور
سرکار میں داہنا ہاتھ ارون جیٹلی بن گئے ۔ قدرت کی ستم ظریفی یہ ہے مودی کی
مدافعت کرتے کرتے ارون جیٹلی متعدد امراض کا شکار ہوگئے ۔ اس بار انہوں نے
نہ صرف انتخاب لڑنے بلکہ وزیر بننے سے معذرت چاہ لی ۔ ان کی حالیہ تصویر سے
اندازہ کیا جاسکتا ہے ایک دانشمندانہ فیصلہ کرکے انہوں نے عذابِ جان سے
نجات حاصل کرلی ہے ۔ارون جیٹلی پر غالب کایہ شعرصادق آتا ہے ’تنگدستی اگر
نہ ہو جیٹلی ،تندرستی ہزار نعمت ہے‘۔ سابق وزیر خزانہ کےلیے تنگدستی کیا
معنیٰ ؟ اس لیے اب وہ تندرستی کی جانب متوجہ ہیں۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ کچھ
لوگ وزارت سے محرومی کا ماتم کررہے ہیں تو کوئی اس سے پیچھا چھڑا کر عافیت
محسوس کررہا ہے۔بقول ندافاضلی ؎
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا
|