جس منصف کاعدل اورآئین پر پختہ یقین نہیں وہ دوسروں کو
انصاف نہیں دے سکتا۔کالے کوٹ کی کمٹمنٹ عادل نہیں عدل کے ساتھ ہے،ہماری
جدوجہد کا محورکسی عادل کواحتساب سے بچانے کیلئے شاہراہوں پرآنا نہیں بلکہ
ہرملزم کو انصاف کی فراہمی یقینی بناناہے ،خواہ اس ملزم کاتعلق کسی بھی
طبقہ سے کیوں نہ ہو۔جوانسان جس قدر بڑے منصب پرفائزہوگاوہ دوسروں کے مقابلے
میں زیادہ جوابدہ ہوگا۔حضرت واصف علی واصف ؒ کاقول ہے ،''بادشاہ کاگناہ
،گناہوں کابادشاہ ہے''۔مہذب اورمتمدن معاشروں میں ہرایک فرض شناس عہدیدار
ہمیشہ اپنے آپ کومحتسب کے رحم وکرم پرسمجھتا ہے اوراگراس پرانگلی اٹھائے
جائے تووہ کلین چٹ کیلئے فوری چارج شیٹ کاسامناکرتا ہے۔کامیاب ملکوں میں
ملزم کے حق میں آوازیں بلندکرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ وہاں انصاف
بولتا ہے ۔پاکستان میں منتخب وزرائے اعظم بھی انصاف اوراحتساب کے کٹہرے میں
آتے اورسزا پاتے رہے ہیں،ایک وزیراعظم نے توسزاکے ڈر سے عدالت عظمیٰ کی
اینٹ سے اینٹ بجادی تھی ۔حالیہ دنوں میں افواج پاکستان کے سپہ سالار جنرل
قمرجاویدباجوہ نے قومی رازفاش اور فروخت کرنے پرایک ریٹائرڈبریگیڈئیر کی
سزائے موت سمیت تین افراد کودی جانیوالی سزاکی توثیق کردی ہے۔ایک طرف
ناجائزطورپراثاثوں کاانبارلگانااوردوسری طرف بدنیتی سے ا پنے
جائزوناجائزاثاثہ جات چھپانا قابل گرفت ہے۔پاکستان واقعی بدل رہا ہے ،اب
پاکستان میں کسی وردی اور('' شیر''وانی) والے کو احتساب سے استثنیٰ حاصل
نہیں ۔ہم بھی ''جسٹس فار جسٹس ''کے حامی اور خواہاں ہیں لیکن ریفرنس کی آڑ
میں متحدہ اپوزیشن ریاست کے ساتھ سیاست کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
وفاقی حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس قاضی فائر عیسیٰ اور
سندھ ہائیکوٹ کے جسٹس کے کے آغا کیخلاف ریفرنس دائر ہوتے ہی تما م نیب
زدگان نے حکومت کیخلاف سیاسی محاذگرم کردیا ہے،متحدہ اپوزیشن والے ریفرنس
کا نتیجہ آنے کاانتظارکرنے کی بجائے حکومت کودھمکارہے ہیں اورعیدالفطر کے
فوری بعداحتجاجی تحریک شروع کرنے کااعلان کردیاگیا ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل
نے عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائیکورٹ کے جج جسٹس
کے کے آغا کیخلاف حکومتی ریفرنسز کو سماعت کیلئے مقرر کر دیاہے جس کی سماعت
14 جون کو ہوگی۔ اس ضمن میں اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دئیے گئے ہیں۔
اٹارنی جنرل بطورپراسکیوٹر پیش ہوں گے۔ صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی نے دونوں
ججوں کیخلاف ریفرنسز چند روزقبل بھجوائے تھے۔ ریفرنسز میں ججوں کیخلاف
اثاثے چھپانے کا الزام ہے۔ ریفرنسز میں آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی
کی استدعا کی گئی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اثاثے چھپانے کا الزام عائد
کیا گیاہے ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ریفرنس دائر ہوا ہے۔ اگر
ایک ریفرنس فائل کیا جاتا ہے اور ایک جج کو کہا جاتا ہے کہ اس کا جواب دیا
جائے، تو پھر سپریم جوڈیشل کونسل کی اجازت کے بعد اس ریفرنس کی کاپی مہیا
کی جاتی ہے ۔سپریم جوڈیشل کونسل نے دونوں پارٹیوں کو سننے کے بعد فیصلہ
کرنا ہوتا ہے ،ابھی سماعت ہوئی نہ فیصلہ آیامگراپوزیشن کی نام نہادعدالت نے
اپنافیصلہ سنا بھی دیا ہے، عدالتی فیصلہ آنے تک سیاسی شعبدہ بازوں کو قانوں
اجازت نہیں دیتا کہ وہ سپریم جوڈیشل کونسل کا میڈیا ٹرائل کریں۔ قانوں کی
ابجد سے ناواقف سیاستدانوں کو کس نے یہ اختیار دیا ہے۔ دوسری طرف ججوں کے
ایجنٹ بھی کرپشن کا دفاع کرنے میں سر گرم عمل ہیں جبکہ ایک مرتبہ پھر وکلا
ء برادری کو حکومت کے استعمال کرنے کی تیاریاں اپنے عروج پر ہیں میرے خیال
میں وکلاء کو استعمال ہونے کی بجائے وکلاء برادری کے گوناگوں مسائل کے حل
کی طرف توجہ مرکوزکرنی چا ہئے۔ سیاسی طور وکلاء کو اپنے مفادات کیلئے
استعمال کر کے جج بننے والے ججوں نے ہردورمیں وکلا ء کی توہین کرنا اپنا حق
سمجھاہے۔
میں قانون دان ہوں اور اپنی وکلاء برادری کے ساتھ کھڑا ہوں نہ کہ کسی جج کے
ساتھ۔میرے فاضل دوست جو ججوں کے ساتھ کھڑے ہیں ان سے چند سوالات ہیں
اگرانہوں نے ان کے تسلی بخش جواب دے دیے تو میں بھی جج صاحبان کے ساتھ کھڑا
ہو جاؤں گا اور اگر کوئی جواب ذہن میں نہیں آتا تو برائے مہربانی اپنی
وکلاء برادری کے ساتھ کھڑے ہوں نہ کہ ان فصلی بٹیروں اور مفاد پرست ٹولے کے
ساتھ۔(ٹاؤٹ حضرات سے پیشگی معززت خواہ ہوں) کیا کوئی جج کبھی وکلاء کے کسی
انفرادی یااجتماعی کاز کیلئے کھڑا ہوا ہے؟جواب ہرگز نہیں۔بارز کی بہتری
کیلئے کون سے ٹھوس اقدامات کئے گئے ہیں۔وکلاء کی ویلفیئر کیلئے کوئی قابل
قدراورقابل داد کام کیا ہو۔کوئی ایسا موقع چھوڑا ہو جہاں وکلاء کی تذلیل نہ
کی گئی ہو۔عدالت عظمیٰ، عالیہ اور لوئر جوڈیشری میں سے کوئی ایسی مثال ملے
توپیش کریں۔
اس طرح کے اور بھی متعدد سوالات ہیں اور ہزاروں واقعات ہیں جہاں ان "معزز"
ججوں نے ہماری کمیونٹی کو ڈسا ہے۔ہمارے وکلاء ان کیلئے زندہ جلا دیئے جاتے
ہیں، زندانوں میں ڈالے جاتے ہیں۔آج حکومت پاکستان نے چند ایک جج صاحبان
کیخلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجے تو بعض افراد کے پیٹ میں مروڑ
اٹھنے لگنے ہیں۔ میں اس ضمن میں چند ایک سوالات کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
1۔ اگر معزز جج صاحبان کے دامن صاف ستھرے ہیں تو ڈر کیوں؟
2۔ کیا وہ اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں کہ وہ ایسی مقدس گائے ہیں
جن سے باز پرس نہیں ہو سکتی؟
3۔ یا پھر دال میں کچھ کالا ہونے کا خدشہ ہے؟
4۔ یا پھر اپنی ہی انصاف فراہم کرنے والی عدالتوں پر اعتماد نہیں ہے؟
5۔ یا پھر سمجھتے ہیں کہ مختار کل ہیں کہ سوال کرنے کی جسارت کیوں کی گئی؟
میرے ناقص علم کے مطابق اگر ان پر سنگین الزامات ہیں تو ان کو عدالتی
کارروائی میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہئے اور اپنے اوپر لگے الزامات کا دفاع
کرنا چاہئے۔آئین کاآرٹیکل209وفاقی حکومت کومکمل اختیاردیتاہے کہ وہ اعلیٰ
عدلیہ کے کسی بھی جج کیخلاف مس کنڈکٹ پرسپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس
دائرکرے ۔وفاقی حکومت نے1973ء کے متفقہ آئین( جس کوبنانے کاکریڈٹ
پیپلزپارٹی نے ہمیشہ لیا ہے) میں درج طریقہ کار اختیارکیا،میاں نوازشریف کی
طرح سابق چیف جسٹس سجادعلی شاہ کوہٹانے کیلئے نوٹوں سے بھرابریف کیس
دیکرکسی رفیق تارڑکوکوئٹہ نہیں بھجوایا ۔ن لیگ اورپیپلزپارٹی کے عمائدین
کہا کرتے تھے کہ صرف سیاستدانوں کا احتساب ہوتا ہے ججوں اور جرنیلوں کا
کیوں نہیں۔اب جبکہ وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت نے ججوں کے احتساب کے لیے
ریفرنس دائر کیے ہیں تو مریم نواز اسے عدلیہ پر حملے سے تعبیر کررہی
ہیں۔ساتھ ہی پیپلز پارٹی بھی تنقید کر رہی ہے ۔کیاان دنوں پارٹیوں کایہ
رویہ منافقت اوردوہرے معیار کے زمرے میں نہیں آتا۔
نیب زدگان قاضی فائز عیسیٰ کی خفیہ جائیدادیں برآمد ہونے والے کیس کو عدلیہ
پر حملہ قرار دے رہے ہیں حالانکہ ان کیخلاف ریفرنس سپریم کورٹ کے ججوں نے
ہی سننا ہے ،جہاں انہیں اپنے دفاع کی بھرپورمہلت ملے گی ۔لیکن جو عدلیہ پر
حملے کا شور کرنے والوں کی اصلیت جن کے نہال، دانیال، طلال اوراختررسول
عدالت پر حملہ آور ثابت ہوئے اور توہین عدالت میں فارغ ہوئے۔ احسن اقبال
اور شاہد خاقان عباسی معافی نامہ دے کے بچے ان کی عدلیہ پر حملوں کی تاریخ
ہے۔ سپریم کورٹ پر حملے میں سزایافتہ پارٹی دیگر رہنما آج بھی تاریخ میں
زندہ ہیں ۔متحدہ اپوزیشن والے کافی دنوں سے حکومت کیخلاف ا حتجاج اور تحریک
چاہ رہے ہیں لیکن ان کے ماضی کے کالے کرتوت کسی بھی بیانیہ کے غبارے سے
فوری ہوا نکال دیتے اب پٹواری درباری مداری سمجھ بیٹھے کے اس ایشو کو آڑ
بنا کے تحریک چلائیں گے تویہ ان کی خام خیالی ہے کہ شاید جس طرح پرویز مشرف
کیخلاف زوردار تحریک چلی تھی لیکن اب ویسا ممکن نہیں کیونکہ پرویز مشرف کے
وقت یہ پارٹیاں اس قدر ایکسپوز نہیں ہوئی تھی نہ سوشل میڈیا تھا نہ ہی
میڈیا اتنا میچور تھا اور نہ ہی جسٹس (ر) افتخار چودھری کی اتنی اصلیت کھلی
تھی ۔سوشل میڈیا کے صارف اجتماعی طورپرریفرنس کوجائزقراردے رہے ہیں
اورانہوں نے وفاقی حکومت کیخلاف نیب زدگان کی طرف سے کسی بھی احتجاجی تحریک
کومستردکردیا ہے۔سوشل میڈیا پر حکومت کی حمایت جبکہ متحدہ اپوزیشن کیخلاف
دلچسپ تبصرے کئے جارہے ہیں۔نیب زدگان یعنی متحدہ اپوزیشن ریاست اورحکومت
کوبلیک میل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
|