شمالی وزیرستان سمیت پورے پاکستان میں سوچے سمجھے منصوبے
کے تحت پختون قوم کو ریاستی اداروں کے خلاف بھڑکایا جارہا ہے۔ شمالی
وزیرستان میں صرف ایک ماہ کے دوران پاک فوج کے 5 جوان شہید اور قریباً 31
زخمی ہوچکے ہیں۔ گذشتہ دنوں پھر شمالی وزیرستان کے علاقے ’بویہ‘ میں پاک
فوج کی گشت پر مامور گاڑی پر بم حملہ کیا گیا، جس میں ایک فوجی اہلکار شہید
ہوگیا۔ اس سے قبل 25مئی کو خار کمر چیک پوسٹ پر پی ٹی ایم نے حملہ کیا تھا،
جس میں پاک فوج کا ایک جوان شہید جب کہ 5اہلکار زخمی ہوئے تھے۔ حملہ آوروں
پر جوابی کارروائی میں 10افراد زخمی و تین افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ پشتون
تحفظ موومنٹ کا قیام نقیب اﷲ محسود کے ماورائے عدالت قتل کے بعد عمل میں
آیا تھا۔ نقیب کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر اٹھنے والی تنظیم محسود تحفظ
موومنٹ کے نام سے شہرت حاصل کرنے کی کوششیں کرچکی تھی، لیکن اسے ناکامی کا
سامنا ہوا تھا۔ عالمی ذرائع ابلاغ پی ٹی ایم اور ان کے حواریوں کو اہمیت
نہیں دیتے تھے، لیکن جب سے پی ٹی ایم نے پاکستانی افواج کے خلاف دشنا م
طرازی شروع کی تو عالمی میڈیا کے ہاتھوں کٹھ پتلی کی ڈوریں آگئیں۔ نوجوانوں
کے دلوں میں ریاست کے خلاف نفرت و بغاوت کی چنگاری ڈالنے کا کام کارِ ثواب
سمجھ کر کیا جانے لگا۔ پی ٹی ایم کو کبھی مقبولیت حاصل نہ ہوتی، اگر عوامی
نیشنل پارٹی کے رہنما اور کارکنان ان کا ساتھ نہ دیتے۔ بدقسمتی سے عوامی
نیشنل پارٹی کے سربراہ اور رہنماؤں نے پختون کارڈ کے تحت پی ٹی ایم کے
عزائم کو سمجھنے میں کافی تاخیر کردی۔ پی ٹی ایم نے اے این پی کے کندھے پر
بندوق رکھ کر اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی۔
عوامی نیشنل پارٹی نے کبھی پاکستان کی سالمیت کے خلاف کوئی ریلی یا جلسے
جلوس نہیں کیے۔ اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی کی سیاست بھی اپنے
اکابرین کے نقش قدم پر ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں
دیں۔ امن کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا، تاہم یہاں اے این پی کے
سربراہ اسفندیار ولی اور صوبائی عہدے داران اپنے کارکنان اور رہنماؤں کو پی
ٹی ایم کی سپورٹ کرنے سے روکنے میں مکمل ناکام ہوئے اور پی ٹی ایم نے اس کا
بھرپور فائدہ اٹھایا۔ پی ٹی ایم کے حواری جانتے تھے کہ اے این پی میں’’کچن
کیبنٹ‘‘ کی وجہ سے ایک بڑا خلا پایا جاتا ہے، اس کے کارکنان اپنے رہنماؤں
کے رویوں سے دل برداشتہ ہیں، پارٹی انتخابات میں الیکشن نہیں سلیکشن ہوتا
ہے جس سے کارکنان میں شدید بددلی پائی جاتی تھی، نیز اے این پی کی سندھ
قیادت اور خیبر پختونخوا کی قیادت کارکنان کی توقعات پر پورا نہ اترسکی۔ اے
این پی کے خاندانی اختلافات نے بھی پارٹی کو دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔
گو ولی گروپ نے اسفندیار گروپ سے راضی نامہ کرلیا لیکن اے این پی ولی گروپ
کے عہدے داران اور بیگم نسیم ولی کے ہمراہ کارکنان اسفندیار ولی کی اے این
پی میں ضم نہیں ہوئے۔ پی ٹی ایم نے ان اختلافات کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور
اے این پی کے معروف رہنماؤں نے کھل کر ریاست مخالف بیانات دینے شروع کردیے۔
ریلی، دھرنے اور جلسے جلوسوں میں پی ٹی ایم نے مقبولیت حاصل کرلی اور اُسی
طرح ابھر کر سامنے آئی جس طرح کراچی میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس
آرگنائزشن کے بعد مہاجر قومی موومنٹ نے سندھ کی شہری سیاست کو پلٹ دیا تھا۔
مہاجر قومی موومنٹ نے متحدہ قومی موومنٹ بننے کے بعد پاکستان بھر میں 98
فیصد طبقے کے لیے آواز بلند کی۔
پی ٹی ایم کی موجودہ سیاست سے اے این پی کے زیادہ تر کارکنان نے کنارہ کشی
اختیار کی کیونکہ قوم پرست جماعت کا ایجنڈا، پنجاب کے خلاف ضرور تھا لیکن
پاکستان کے خلاف کبھی نہیں رہا، اے این پی کے کارکنان نے خاموشی سے واپسی
کی راہ اختیار کی لیکن پی ٹی ایم اب ایک خطرناک اژدھا بن چکی تھی، اسے اپنے
مذموم مقاصد کے لیے صرف چند سو افراد کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ عالمی ذرائع
ابلاغ اور ملک دشمن عناصر پی ٹی ایم کو مکمل سپورٹ کررہے ہیں۔ سیاسی مقاصد
کے عزائم نہ رکھنے کے جھوٹے دعوے داروں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پی ٹی
ایم کے ٹکٹ پر دو ملکی غدار اُس قومی اسمبلی کے اراکین بنادیے گئے جس کے
خلاف وہ جلسوں میں تقاریر کیا کرتے تھے۔ پی ٹی ایم نے اے این پی سے فائدہ
اٹھایا تو دوسری جانب بلوچستان میں نام نہاد قوم پرستوں نے بھی پی ٹی ایم
کے مذموم مقاصد کے ساتھ الحاق کرلیا اور افغانستان کے بدنام زمانہ ہلاک
ہونے والے کمانڈر عبدالرزاق اچکزئی کے رشتے داروں نے بھی قوم پرستی کی آڑ
میں پی ٹی ایم کو آشیرواد دینا شروع کردیا۔ جب چیک پوسٹ پر پی ٹی ایم کے
حواریوں نے حملہ کیا تو افغانستان سے بے بنیاد پروپیگنڈا پاکستانی افواج کے
خلاف شروع ہوگیا۔ پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو لاڑکانہ میں
پریس کانفرنس کے دوران اطلاع دی گئی، جس پر انہوں نے بھی حقائق کو جانے
بغیر جذباتی ہوکر پی ٹی ایم کے حق میں بیان دے دیا۔ واضح رہے کہ پی پی پی
میں بھی بے نظیر بھٹو کے قتل کے وقت پاکستان مخالف نعرے پاکستان نہ کھپے کی
صورت لگائے جاچکے تھے۔
اب صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ پہلے پی ٹی ایم سیاسی جماعتوں کے کندھے استعمال
کرتی تھی، اب ان جماعتوں نے پی ٹی ایم کے کندھے استعمال کرتے ہوئے ریاست کو
دباؤ میں لانے کی اسٹرٹیجی بنائی ہوئی ہے۔ ایسے میں بعض عناصر پی ٹی ایم کے
پاکستان مخالف بیانات و تقاریر اور اشتعال انگیزیو ں پر کبوتر کی طرح
آنکھیں بند کرکے حکومت مخالف تحریک میں اپنا حصہ ڈال کر ملک کی سالمیت کو
خطرات سے دوچار کرسکتے ہیں۔ رمضان کے بعد آل پارٹی کانفرنس اور حکومت مخالف
تحریک کا کیا بنے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، لیکن جس طرح بعض
اپوزیشن جماعتیں کھل کر پی ٹی ایم کے اراکین قومی اسمبلی پر اپنی سیاست کو
چمکا رہے ہیں، اس کو مثبت سیاست نہیں کہا جاسکتا۔ حکومت کے خلاف مہنگائی،
معیشت، بے روزگاری سمیت کسی بھی مفاد عامہ کے لیے احتجاج تمام اپوزیشن
جماعتوں کا حق ہے، لیکن وطن کی سالمیت کے خلاف سرگرم عناصر کے کندھے کو
استعمال کرنے سے ملکی وحدت مزید پارہ پارہ ہوسکتی ہے۔ اے این پی اور دیگر
قوم پرست جماعتوں کے نوجوان جذبات کی رو میں بہہ کر پی ٹی ایم کو تقویت
پہنچاچکے، لیکن پی پی پی سمیت ایسی جماعتیں جو سابق فاٹا کے صوبائی اسمبلی
کے انتخابات میں خود کو قبائلیوں کا ہمدرد ثابت کرنے کی خاطر اپنی حد سے
متجاوز ہورہی ہیں انہیں تحمل، بردباری اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت
ہے۔ |