برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی ترویج و اشاعت کا
سہرا اولیاء اﷲ کے سر ہے ، جن کی تبلیغی کاوشوں سے برصغیر کے بت کدے توحید
ایزدی کا گہوارہ بنے۔ تبلیغ و اشاعت اسلام میں عظیم محدث اور مفسر قرآن
علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمتہ اﷲ علیہ کی دینی علمی و تحقیقی خدمات
ناقابل فراموش ہیں۔آپ ترویج و تبلیغ دین کے ساتھ ساتھ عالمی اور ملکی سیاست
پر گہری نظر رکھتے تھے، اور شریعت و طریقت کے جامع ،علمی و عملی کمالات و
محاسن سے مالا مال تھے۔ صبر و قناعت کا پیکر اور فرمان رسالت ’’الفقر فخری‘‘
کا مظہر اتم اور مسلک اہلسنت کے پاسبان تھے ، جن سے ملت اسلامیہ کے دین و
ایمان کی کھیتی سرسبز و شاداب تھی۔ اپنے تو خراج عقیدت و محبت پیش کرتے ہی
ہیں، اغیار کو بھی آپ کے علوم و فنون میں دسترس تامہ کا اعتراف کرنا پڑتا ،
ہر ایک علم میں بالخصوص علم حدیث میں آپ کو انتہا درجے کا کمال حاصل تھا۔
اسکا اندازہ آپ کے درس حدیث میں شامل افراد کے خیالات و مشاہدات سے
کیاجاسکتا ہے کہ جب عشق و محبت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم سے سرشار ہوکر
درس حدیث کیلئے اپنی مسند پر رونق افروز ہوتے تو وقت کے جلیل القدر علماء و
مشائخ کسب فیض کیلئے اس بحر بے کراں کے سامنے زانوے تلمذتہ کرنے کو سعادت
اور آپ کی صحبت میں گزرے ہوئے چند لمحات کو سرمایہ افتخار سمجھتے۔ لوگ
دوردراز سے اپنی علمی پیاس بجھانے اور روحانی تشنگی دور کرنے کیلئے حاضر
ہوتے اور اس مرد حق آگاہی کی طرف سے رشد و ہدایت کے لعل و گوہر اور علم و
عرفان کے لٹائے جانیوالے انمول موتی جمع کرنے میں ہر وقت مصروف رہتے۔ عام و
خاص افراد آپ کے حلقہ درس میں شرکت کیلئے ایسے بیتاب وبے قرار نظر آتے جیسے
پیاسا کنویں کی طرف جانے کیلئے ہوتا ہے۔ درس و تدریس کی اہم زمہ داری اور
گوں نا گوں قومی و ملی خدمات سر انجام دینے کے ساتھ ساتھ آپ نے کتب و رسائل
کی صورت میں بھی کثیر تعداد میں گوہر ہائے گراں مایہ صفحہ ہائے قرطاس پر
بکھیرے جو آپ کے قرآن و حدیث فقیہ وتفسیر سیرو مناقب اور سلوک وتصوف میں
گہرے مطالعہ کا نتیجہ اور آپ کی جلالت علمی کی روشن دلیل ہے۔
آپ مراد آباد کے مضافاتی شہر امروہہ کے محلہ کٹکوئی کے ایک عالی نسب سید
گھرانے کے سربراہ حضرت علامہ سیدمحمد مختار احمد شاہ صاحب کاظمی رحمتہ اﷲ
علیہ کے ہاں 4ربیع الثانی 1331ھ پیدا ہوئے۔ ایام طفولیت میں ہی والد محترم
کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا۔یہ سید گھرانہ اپنے علاقے میں اپنی شرافت و
نجابت ،فضل و کمال، علم و عرفان اور زہد و تقویٰ کی بناہ پر غیر معمولی
شہرت، عزت و توقیر کاحامل تھا۔ اس خاندان کا سلسلہ نسب حضرت امام موسیٰ
کاظم رضی اﷲ عنہ سمیت 42 واسطوں سے ہوتا ہوا سیدنا حضرت علی المرتضی کرم اﷲ
وجہہ الکریم سے جاملتا ہے۔ والد گرامی کی وفات کے بعدآپ کے پیرو مرشد اور
برادر اکبر محدث زماں حضرت سید محمد خلیل کاظمی رحمتہ اﷲ علیہ نے آپ کو
اپنی آغوش تربیت میں لے لیا۔ چونکہ آپ کا گھرانہ علم و عمل کا گہوارہ تھا
اور بچپن سے ہی آپ کی پیشانی سے آثار سعادت و کمال نمایاں تھے اسلئے آپ نے
اپنی تعلیم کا آغاز تو اپنی والدہ محترمہ سے کیا جبکہ حضرت خلیل ملت نے آپ
کی غیر معمولی ذہنی استعداداور روحانی صلاحیت کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کی
ایسی علمی و عملی اور ظاہری و باطنی تربیت فرمائی کہ آپ علم و عمل کے آفتاب
بن کر افق عام پر نمودار ہوئے۔ جامعہ نعمانیہ میں تدریس کے دوران آپ کے ذمہ
درسِ نظامی کی مشہور کتابوں (نور الانوار، قطبی، شرح جامی وغیرہ) کی تدریس
مقرر کی گئی، جس سے طلبہ کا میلان آپ کی طرف بڑھنے لگا۔ یہاں تک کہ ایک وقت
میں اٹھائیس اسباق کی تدریس آپ کیساتھ متعلق ہو گئی۔
حضرت سید نفیر عالم ہر سال ملتان میں سلطان الہند خواجہ غریب نواز حضرت
خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اﷲ علیہ کا عرس منعقد کیا کرتے تھے،
انہوں نے اس سلسلہ میں آپ کو وہاں تقریر کی دعوت دی اور جب حضرت نفیر عالم
نے آپ کی تقریر سنی تو دل وجان سے فدا ہو گئے اور تب سے ان کا پیہم اصرار
رہا کہ آپ ملتان آ جائیں اور اہلیانِ ملتان کو مستفیض کریں۔ بالآخر 1935 ء
کے اوائل میں آپ ملتان تشریف لے آئے۔ ملتان آنے کے بعد آپ نے اپنے رہائشی
مکان میں ہی درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ متلاشیانِ حق اور تشنگانِ
علم دور دور سے آ کر آپ کے چشمہ فیض سے سیراب ہوتے رہے۔ نومبر 1935ء میں آپ
نے مسجد حافظ فتح شیر بیرون لوہاری دروازہ میں قرآن مجید کا درس شروع کیا۔
بعض بد بختوں نے اس درس کو ناکام کرنا چاہا چنانچہ علاقہ کے تمام مخالف
علماء درس میں شرکت کرتے اور دورانِ درس مختلف قسم کے اعتراض کیا کرتے تھے۔
مگراﷲ تعالیٰ کے فضل سے وہ ہمیشہ ناکام رہے۔ حضرت نے اٹھارہ سال کے طویل
عرصہ کے بعد یہاں درس قرآن مکمل کیا۔ اسی اثناء میں آپ نے عشاء کے بعد حضرت
چپ شاہ صاحب کی مسجد میں درس حدیث شروع کیا اور پہلے مشکوٰۃ اور اس کے بعد
بخاری شریف کا درس مکمل کیا۔ زندگی بھر تحریک ختم نبوت میں بھر پور حصہ لیا۔
پاکستان بن جانے کے بعد آپ رحمتہ اﷲ علیہ جمعیت کے ناظم اعلیٰ اور مسلم لیگ
کے صوبائی کونسل کے رکن کی حیثیت سے قاضی مرید احمد صاحبزادہ سید محمود شاہ
گجراتی ، خواجہ عبدالحکیم صدیقی ، محمد اسلام الدین کو ساتھ لیکر 17 جولائی
بروز جمعرات 1952 ء کو قرار داد لکھی، جسمیں دوسرے مطالبات کے علاوہ
قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ شامل تھا چنانچہ مسلم لیگ
صوبائی کونسل کے اجلاس مورخہ 27 جولائی بروز سوموار 1952 ء کو یہ قرارداد
آٹھ کے مقابلے میں دو سو چوراسی (284 ) ووٹوں کی اکثریت سے منظور ہوگئی، اس
طرح قادیانیوں کے خلاف تحریک کے بانی آپ رحمتہ اﷲ علیہ قرار پائے۔
آپ رحمتہ اﷲ علیہ صوم و صلوٰۃ کے اسقدر پابند تھے کہ ڈاکٹروں کے مشورے کے
باوجودآپ رحمتہ اﷲ علیہ نے روزے رکھے جو انکی عمر اور صحت کے اعتبار سے
قابل قضا تھا۔ لیکن تقویٰ اور طہارت اور اﷲ کے حبیب صلی اﷲ علیہ و سلم سے
وابستگی ہمیشہ ان کے سامنے رہی اور اس مرد حق نے روزے کے افطار کے بعد داعی
اجل کو لبیک کہا۔ علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمتہ اﷲ علیہ نے علم کا جو
خزانہ اپنی تصانیف اور شاگروں کی صورت میں چھوڑا ہے وہ ہمارے لئے گراں بیش
بہا اثاثہ ہے۔ علامہ کاظمی رحمتہ اﷲ علیہ نے ہمیشہ وجوہ اختلاف کو دور کرنے
کی کوشش کی ہمیں ان کے مشن کو آگے بڑھانے کیلئے امت مسلمہ کے وحدت و اتحاد
اور صحیح العقیدہ افراد کو منظم کرنے کیلئے علامہ کاظمی رحمتہ اﷲ علیہ کی
تقلید کرناچاہئے۔جمعیت علمائے پاکستان اور جماعت اہلسنت کے بانی حضرت علامہ
سید احمد سعید کاظمی کے سالانہ عرس کی تقریبات تین تا پانچ شوال المکرم
آستانہ عالیہ سعیدیہ کاظمیہ شاہی عید گاہ مین خانیوال روڈ ملتان میں جاری
ہیں۔
٭……٭……٭ |