23مئی 2019 کے الیکشن کے نتائج نے بےایمانی کے سارے
ریکارڈ توڑ دئیے اور ہندوستان کا ساڑھے تین فیصد آبادی کا برہمن جیت گیا
اور ساڑھے 96 فیصد ابادی کی عوام ہار گئی یہ چمتکار ۔ ای وی ایم۔(الیکٹرونک
ووٹنگ مشین) کا ہے جہاں سائنٹیفک گمراہی نے ساڑھے ۹۶ فیصد آبادی کی تمنائون
کا خون کر دیا۔ ہندوستان کی آزادی کے آج 70 برس گذرگئے۔ ۸۵ فیصد ایس سی
۔ایس ٹی ۔او بیسی (شڈیول کاسٹ ۔شڈیول ٹرائب ۔ادر بیک ورڈ کلاسز۔ عادی
واسی۔مول نواسی ۔)شدیدذلت ،غربت اور غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کیونکہ
برا ہمن نے ان پر ذات پات کا گہرا نشان لگایا ہے اور اس کو اس طرح مشتہر
کیا ہے کہ ایک دَلت ذات کا ایک فرد اول تو اپنے بچوں کو پڑھا لکھا نہیں
سکتا اور اگر کوشش بھی کرے تو تمام وہ لوگ جو اپنے آپ کو اونچا سمجھتے ہیں
یا براہمن( جاتی ) ذات سے تعلق رکھتے ہیں ہر منزل پر اس کا جینا محال کر
دیتے ہیں بھارت کے مشہور ایکٹرعامر خان کا ایک پروگرام ہے
( Satyamev Jayate S1.Epidode 10 /Untouchability/a life of Humiliation. )
میں نے یہ حوالہ ثبوت کے طور پر دیا ہے آپ چاہیں تواسےیوٹیوب میں دیکھ سکتے
ہیں ڈاکٹر کَو شَل پَوار سنسکرت میں پی ایچ ڈی اسکا لر ہیں۔ دلیّ یونیورسٹی
میں پڑھاتی ہیں۔انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم سے لے کر پی ایچ ڈی تک کی
کہانی سنائی کہ بالمیکی سمودائے سے تعلق رکھنے والی دَلِت ذات کی بچی کو ہر
منزل اور ہر مرحلے پر شدیدذلت ،غربت ، نفرت اور مار پیٹ کا سامنا کرنا پڑا
اور اس کو پانی پینے کا بھی حق نہیں تھا اس کے برتن الگ تھے اس کی سیٹ پر
یا اسکے برابرکوئی بیٹھتا نہیں تھا اور نہ کوئی پاس بیٹھنے دیتا تھا ۔حقوق
انسانی کے چیمپئن دنیا بھر میں دوڑتے پھرتے ہیں ۔مسلمانوں پر ظلم و بربریت
کا الزام لگاتے ہیں اسلاموفوبیا جیسی ا صطلاحات گڑھتے ہیں، ان کو شرم نہیں
آتی کہ بھارت میں ساڑھے پچیاسی فیصد آبادی ذلت ،نفرت ، اور غربت کے ساتھ
ٹھکرائی جاتی ہے مگر بولنے والا کوئی نہیں ہے بھارت کوانگریزوں کے تسلط سے
آزاد ہوئے ۔ ستر برس ہو چکے ہیں ۔یہ غریب بھی سمجھتے تھے کہ شاید آزادی کے
بعد انہیں بھی انسانی طور پر پہچان لیا جائے گا اور ان کو بھی بطور انسان
۔برابری کے حقوق ملیں گے مگر یہ سب نہ ہوا کیونکہ پراہمنوں نے گزشتہ ڈھائی
ہزار سال سے اپنی گرفت مضبوط رکھی تھی اور باہر سے آنے والے لوگوں کو یہی
تاثر دیا کہ یہاں کی ساری آبادی ہندو ہے اور ان سادہ لوگوں کو 6000 ذاتوں
میں تقسیم کرکے ان کے کے کام اور رہن سہن کا خود ہی تعین کر دیا بھلاسوچئے
کہ جن سے انسان ہونے کا حق چھین لیا گیا ہو ۔جو مندر کے قریب نہیں جاسکتے
بھلا وہ ہندو کیسے ہیں مگر انہوں نے زبردستی ان پر اپنا تسلط قائم کیا ہے
جیسے یہ ان کے زر خرید غلام ہیں آج اکیسویں صدی میں بھی یہی رویہ ہے پھر
کمبخت ہندوتوا پر عمل کرتے ہوئے بھارت کوہندو مملکت بنانا چاہتے ہیں مطلب
یہ ہے کہ اتنی بڑی آبادی کو غلام بناکر موج کریں گے ۔ان کے ہاں گائے کا بڑا
احترام ہے مگر انسان کی اولاد کو عزت نہیں دی جاتی ۔انسانیت کا کوئی احترام
نہیں ہے۔آئے دن قتل و غارت گری کا بازار گرم رہتا ہے۔ تہذیب ان کو چھو کر
نہیں گئی ہیں اور ساری دنیا میں انہوں نے انسانیت کا خون کیا ہوا ہے ۔یہ
ساری ٓائیڈیالوجی، یہودیوں کی ہے۔وہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے علاوہ کوئی
انسان نہیں ہے اگرچہ کہ دیکھنے میں انسان لگتے ہیں ۔ اور یہ سب ان کے غلام
ہیں۔یہ براہمن یہودی النسل ہیں۔اسی وجہ سے گائے کو انہوں نے مقّدس بنایا
ہوا ہے۔ اور انکا زرد لباس بھی اسی گائے کے رنگ والا ہے۔ بھارت میں انہوں
نے بتایا ہے کہ یہ براہمہ کے منہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ چھتری سینے سے ویش پیٹ
سے اور شودر پائوں سے۔ ذرا ان کی حماقت کا اندازہ کیجیئے۔ انہوں نے غریب
سادہ لوگوں کی تفریح کیلئےجھوٹی دیو مالائی کہانیاں گڑھ لیں ہزاروں دیوی
دیوتا بنا ڈالے۔ اگرچہ کہ ان کی ہر کتاب میں لکھا ہے کہ ایشور(اللہ) کی نہ
کوئی تصویر ہے نہ کوئی بت اور ہندو لفظ کا بھی کوئی وجود نہیں۔
ان کے طور طریقوں سے تنگ آ کر ہمّت والوں نے اسلام قبول کر لیا۔ کچھ نے
گوردوارے(سکھ عبادت گاہ) میں پناہ پائی۔ کچھ نے عیِسایت میں عافیت پائی۔
اسطرح براہمنوں کے پاس ساڑھے پچاسی فیصد آبادی رہ گئی، اس براہمن نے تقسیم
بھارت کے وقت سکھوں کو ہندو نام سے شناخت کیا۔ اور مسلمانوں کے قتل عام پر
اکسایا۔ اور کہا کہ ان کو الگ خطہ دے دیں گے۔اگرچہ کہ براہمن کیلئے تمام
ذاتیں نیچ اور ذلیل ہیں، تو یہ ان کے پاس اسی وقت جاتا ہے جب کسی کو قتل
کرانا ہوتا ہے۔اس پچاسی فیصد آبادی کیلئے (بہوجن مکتی مورچہ) صدر وامن
میشرام اکتالیس سال سےاس جہاد پر لگ گئے ہیں کہ اپنی جنتا کو آگاہ کریں کہ
یہ براہمن ہی فساد کی جڑ ہے۔ ان کا بھارت کے مذاھب پر اچھا مطالعہ
ہے۔مسلمانوں کے ایک عالم جناب خلیل سجّاد نعمانی صاحب بھی ڈاکٹر وامن
میشرام کے ساتھ مل کربراہمن کے خلاف متحد ہیں اور دونوں نے تمام ذات
برادریوں کو متحد کیا ہے کہ سب الگ الگ براہمن کو شکست نہیں دے سکتے۔ اتحاد
ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔۲۰۱۹ کے الیکشن میں نریندر مودی کی شکست یقینی تھی
مگر الکٹرانک ووٹنگ مشین سے بے ایمانی کی گئی۔ اس کے خلاف پورا بھارت سراپا
احتجاج ہو گیا ہے۔مگر انڈین میڈیا ساتھ نہیں دے رہا ہے۔ بھلا ہو سوشل میڈیا
کا۔ اس سے بہت مدد ملی ہے۔ مگر اقوام متحدہ اور ہیومن رایٹس والےمجبور
انسانیت کے بڑے دشمن ہیں ۔ اسی لیے انہوں نے کشمیر،فلسطین،میانمار ،لیبیا،
عراق، شام، کہیں بھی کچھ نہیں کیا تو بھا رت کی مظلوم عوام کیلئے کیا کریں
گے ۔یہ براہمن ساڑھے تین فیصد ہونے کے باوجود ساڑھے بارہ فیصد مسلمانوں کو
اقلیت کہتا ہے۔ اور پچاسی فیصد مجبور افراد کو( ہندو نام سے)شامل کرکے خود
کو اکثریت بتاتا ہے اور انکے ہندو ہونے کے کسی حق کو تسلیم نہیں کرتا۔ غریب
آبادی کو پڑھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ محنت کرکے اگر خود پڑھ لیں تو انکو
نوکری کا حق اسلیئے نہیں ہے کہ اس براہمن نے ان غریبوں کو جس کام پر لگایا
ہے ۔ یہ صرف وہی کام کریں گے۔ ان میں اکثر ایسے ہیں جو براہمن کی غلامی کو
انجوائے کر رہے ہیں۔ اوربراہمن کی شر پسندی میں اس کا سا تھ دیتے ہیں۔ ابھی
جرائم پر ایک رپورٹ آئی تھی۔ جس پر حکومت چاہتی تھی کہ بلاتکار کی شرح اس
قدر کیوں بڑھ رہی ہے ؟ جواب ملا ۔ کونسا بھگوان بلات کاری نہیں تھا۔؟ تو اس
جرم میں تو اضافہ ہی ہونا ہے۔ بھارت کی عورتوں نے اپنے طور پر اسکا سد باب
یہ کیا ہے کہ ہندو ہو یا مسلمان سب برقع پہنتی ہیں، میرا مہاراشٹرا جانا
ہوا تو اس برقع کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ وہاں عمومی طور پر لڑکیاں اسکوٹی
چلاتی ہیں تو سب برقع میں ہوتی ہیں کیونکہ بلاتکار کا جرم کھلے عام سرِ
بازار ہوتا ہے۔ ایک وجہ اور بھی نظر آتی ہے کہ عورتوں کی کمی ہے پچھلے بیس
سال سے حاملہ کےالٹرا سائونڈ کا بڑا رواج ہے۔ اگر لڑکی کا امکان ہو تو اس
سے نجات پالی جاتی ہے۔
بھارت میں زمانہ قبل از اسلام کے تمام جرائم اور گناہوں کاچلن عام ہے۔اسی
وجہ سے جاہل لیڈر بہت عام ہیں۔ ہمارے ہاں بھی جنسی جرائم میں اضافہ کا سبب
،سماجی اور اقتصادی ضروریات ہیں۔اگر ہم شادی کو آسان کردیں گے تو بڑا فرق
پڑ جائے گا۔ مگر اسکیلئے حکومت کو سختی کرنی پڑے گی۔ ورنہ ہمارے ہاں سے بھی
رحمت اٹھ جائے گی۔
|