ریمنڈ ڈیوس اور وفاقی وزیر کے قتل کا تعلق

امریکی ایجنسیوں نے پاکستان اور افغانستان میں جاسوسوں قاتلوں اور القاعدہ سمیت تحریک طالبان و دیگر جہادی گروپوں میں شناسائی رکھنے والے تربیت یافتہ ایجنٹوں کے لشکر کو یہاں بھجوایا کہ اس مملکت خداد میں دہشت گردی فرقہ واریت اور تخریب کاری کا سیلاب آگیا۔ ریمنڈ ڈیوس بھی اسی شر پسند گروہ کا تخریب کار ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ انسانیت کی کارفرمائی اور حقوق آدمیت کے لئے غیر سروپا شائیں شائیں کرنے والی خود ساختہ مہذب ترین سپرپاور نے تین بے گناہوں کو قتل کرنے والے آدم خور بھیڑئیے کو فوری طور پر رہا کرنے کی گردان لگا رکھی ہے حالانکہ امریکی مغربی اور عالمی ذرائع ابلاغ نے ریمنڈ ڈیوس کا کچہ چھٹا کھول کر رکھ دیا ہے۔ یورپی یونین ٹائمز نے روسی ایجنسیSVR کے حوالے سے حیتر انگیز رپورٹ شائع کی ہے کہ ریمنڈ القاعدہ کو ایٹمی مواد دیکر پاکستان پر امریکی حملے کا جواز تراشنے کی مہم جوئی میں غرق تھا۔ رپورٹ کے مطابق ریمنڈ القاعدہ کو جراثیمی ہتھیار فروخت کرنے کے لئے ہلکان تھا تاکہ القاعدہ امریکہ میں انکے استعمال کو یقینی بنائے۔تاکہ اقوام مسلم کی واحد ایٹمی قوت کو نیست و نابود کرنے کا چانس مل سکے۔ رشین ایجنسی کے مطابق ریمنڈ سے برآمد ہونے والے ہتھیاروں اور دستاویزات نے سے اسکی اصلیت بے نقاب کردی ہے کہ وہ بدنام زمانہ اور دہشت و خوف کی علامت سمجھی جانیوالی امریکی ایجنسی ٹی ایس 373 کا رکن ہے ۔وہ ٹی ایس373 کے ونگ بلیک آپریشن ژیورچ سے تعلق رکھتا ہے۔ ماسکو کی انٹیلی جینس ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا کی صورتحال اتنی سنگین ہوچکی ہے کہ امریکہ و پاکستان میں جنگ چھڑ سکتی ہے۔ امریکہ ایک اور جنگ چاہتا ہے تاکہ وہ اپنی ہچکولے کھاتی معاشی کشتی کو ڈوبنے سے بچا سکے۔ ریمنڈ بیک وقت دوہری کشتی پر سوار تھا۔ وہ ایک طرفcia کا تنخواہ دار ہرکارہ ہے تو دوسری طرف وہ جنوبی پنجاب سے تحریک طالبان کو نئی بھرتی کے لئے نوجوان مہیا کرنے کاروبار کرتا رہا ہے۔ پاکستان نے امریکی دباؤ پر ریمنڈ کی رہائی سے انکار کیا تو امریکہ کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر ٹام ڈیلون نے پاکستانی سفیر کو سفارت خانہ بند کرنے اور پاکستانی سفارتی عملے کو امریکہ سے بیدخل کرنے کی دھمکی دی۔ یورپین ٹائمز نے پیشین گوئی ہے کہ امریکہ پاکستان پر حملہ کرسکتا ہے ۔ پاکستان نے اسی خدشے کے تحت حتف میزائل کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ فرنچ زبان کے شہرت یافتہ میگزین بلاشیاد نے لکھا ہے کہ ریمنڈ کی گرفتاری سے پاکستان بڑی مصیبت سے بچ گیا اور پاکستان کے اندر پاکستان کے خلاف کھیلے جانیوالے مہلک ترین کھیل میں ٹھراؤ آگیا ہے۔ cia نے پاکستان میں موجود اپنے تمام ایجنٹوں کو اگلے احکامات تک اپنے اپنے پراجیکٹس سے دستکش ہوجانے کا سندیسہ بھجوا دیا ہے۔ امریکہ کے اسٹریٹجی ماہر مارک نے جریدے کو بتایا کہ وہ حیران ہیں کہ وائٹ ہاؤس سے لیکر اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور cia قتل کے سنگین جرم سے چھڑوانے کے لئے کیوں اٹھ کھڑی ہوئی۔ جریدہ لکھتا ہے کہ اب یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ ڈیوس کون تھا اور وہ کن مقاصد کے لئے cia کا نیٹ ورک چلا رہا تھا۔ بلا شیاد کا کہنا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس آخر پاکستان میں کیا کر رکھا تھا؟ اسکا اندازہ اوبامہ ہیلری کلنٹن امریکی فورسز چیف مائیک مولن سینیٹر جان کیری اور cia کے گرو لیون پینٹا کے مضطرب اور بے قراری پر مبنی ترش بیانات سے ہوجاتا ہے۔ جریدے کے مطابق اگر پاکستانی حکام روائتی تفتیشی انداز اختیار کریں تو نیٹ ورک کے سارے اراکین پکڑے جاسکتے ہیں۔ ریمنڈ کا نیٹ ورک ایسے جری و بہادر نوجوانوں کی تلاش میں غلطاں و پیچاں تھا جو امریکہ میں چھوٹی سطح پر دہشت گردانہ کاروائی کرتا اور پھر اسی سازش کی آڑ میں پاکستان کے جوہری اثاثوں کو ہتھیانے کا دیرینہ مقصد پورا کرتا۔ امریکی تجزیہ نگاروں کے مطابق امریکہ وار آن ٹیرر میں20 ارب ڈالر جھونک چکا ہے جس نے امریکہ کی معیشت اور معاشرت کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا۔ امریکہ اپنی بقا کے لئے پاکستان سمیت کسی ملک کے خلاف کوئی گھناؤنا اقدام اٹھا سکتا ہے۔۔ انڈین جریدہ سفی آن لائنز نے رپورٹ جاری کی ہے کہ پاکستانی isiنے امریکہ کے ساتھ تعاون کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا ۔ آرمی چیف مائیک مولن اور جنرل کیانی کے مابین اس موضوع پر ہنگامی ملاقات بھی ہوچکی ہے جس میں مائیک مولن نے کیانی کو قائل کرنے کی مقدور بھر کوشش کی کہisi اورcia کے درمیان ورکینگ ریلیشن شپ کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ فارن پالیسی میگزین کا ادرایہ نویس لکھتا ہے کہ امریکی جنرل مائیک مولن نے جنرل کیا نی کو بتایا کہ امریکہ پاکستان سے تعاون ختم نہیں کرنا چاہتا۔ یورو ٹائمز نے تفصیلی تجزیہ کیا ہے کہ مولن کیانی ملاقات کے بعد گو cia اورisiکے مابین تعلقات جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا تاہم تناؤ کھینچاؤ اور دوریاں قائم ہیں۔ یورو ٹائمز کا کہنا ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ کھلی منافقت کررہا ہے۔ امریکہ نے جنگوں کا اگلا راؤنڈ جب بھی کھیلا تو اسکا نشانہ سب سے پہلے پاکستان بنے گا۔ ٹائمز آف انڈیا نے بھی اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ اگر ریمنڈ کو رہا نہیں کیا جاتا تب ان مغربی ریاستوں میں جہاںcia کا سکہ چلتا ہے وہاں cia پاکستانی سفارت کاروں اور انٹیلی جینس شعبوں سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں کو جسمانی گزند پہنچا سکتی ہے۔ پاکستان کے خلاف امریکی کاروائی کو نارتھ وڈ کا نام دیا جائے گا۔ نارتھ وڈ1960 میں امریکیcia کا مرتب کردہ پروگرام ہے جس کی رو سے امریکہ خود ہی کہیں حملے کروا سکتا ہے اور پھر ان حملوں کا الزام کسی کے سر تھوپ کر اسکے خلاف فوجی کاروائی کرتا ہے۔ نارتھ وڈ کی ابتدا کیوبا کے خلاف شروع ہوئی جہاں ciaنے خود دہشت گردانہ کاروائیاں کیں۔ امریکی میڈیا نے کیوبا کے خلاف ایسی پراثر میڈیا وار چلائی کہ قوم خود کیوبا کے خلاف واویلہ کرنے لگی۔ جریدے بلاشیاد نے بتایا کہ ریمنڈ کے فون سے جو تفاصیل موصول ہوسکیں کے مطابق ریمنڈ فاٹا میں بھارت اور القاعدہ کے ایجنٹوں سے رابطے میں تھا۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے ریمنڈ ڈیوس کے شیطانی چہرے کو بے نقاب کردیا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس ایسے کئی نامراد ایجنٹوں کا نیٹ ورک پورے پاکستان میں پھیلا ہوا ہے جو پاکستان کو زک پہنچانے والی خونی وارداتوں اور دہشت گردی کو مہمیز دیتے ہیں۔ اقلیتی امور کے وفاقی وزیر شہباز بھٹی کو اسلام آباد میں بڑی بیدردی سے قتل کردیا گیا۔ حکومتی سطح پر کہا جارہا ہے کہ مقتول کو توہین رسالت قانون میں ترمیم کی گفتگو کرنے پر سلیمان تاثیر کی طرح نشانہ بنایا گیا مگر سچ تو یہ ہے کہ موصوف بین المذاہب ہم آہنگی کے داعی تھے۔ انہوں نے اس موقف کا اظہار کیا تھا کہ توہین رسالت ایکٹ کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے کوئی ترمیم یا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ شہباز بھٹی برملا کہا کرتے تھے کہ وہ توہین رسالت ایکٹ میں کسی بڑی تبدیلی کا تصور نہیں کرسکتے۔ قاتلوں نے شہباز بھٹی کو قتل کر کے نہ تو دین کی خدمت کی ہے اور نہ ہی ملک و قوم کی۔ قاتلوں کا تعلق چاہے کسی تنظیم سے ہو یا کرائے کے غنڈوں سے وہ موساد کے ایجنٹ ہوں یا سی آئی اے کے وہ ملک دشمن عناصر ہیں کیونکہ انکی وحشت وبربریت سے دنیا بھر میں اسلام اور پاکستان کی سبکی ہوئی ہے جسکی پرزور الفاظ میں مذمت کی جانی چاہیے۔ قتل کی وجوہات کا تعین تو تفتیش کے بعد سامنے آئیگا تاہم باخبر تجزیہ نگاروں نے قتل کی بہیمانہ واردات کو ریمنڈ ڈیوس کیس کے تناظر میں دیکھا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ کیا ایسا تو نہیں کہ ریمنڈ ڈیوس کیس سے توجہ ہٹانے کے لئے وزیر موصوف کو قتل کیا گیا ہو؟ امریکی اپنے مفادات کی خاطر کسی واقعے کو منظر عام سے ہٹانے کے لئے کوئی بڑا سانحہ ایجاد کرانے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ ریمنڈ ڈیوس اور شہباز بھٹی کے دلگداز واقعات میں ایک عنصر مشابہت رکھتا ہے۔۔ دونوں حادثوں میں گولیاں چلانے والے شوٹر انتہائی تربیت یافتہ تھے۔ دونوں نے ماہرانہ انداز میں فائرنگ کی۔ دانشوروں کے ایک طبقے نے وفاقی وزیر کے قتل کو عالمی امور کے تناظر میں پرکھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے کیونکہ اس واقعے کے لئے جس وقت اور مقام کا تعین کیا گیا اسکا اہم ترین اور کرنٹ ترین ایشو یہ ہے کہ ریمنڈ کیس ہی آجکل عالمی سطح پر چھایا ہوا تھا۔ یہ کیس اتنی اہمت اختیار کرچکا ہے کہ امریکہ اور پاکستان دونوں مخمصے میں مبتلا ہیں۔ پاکستان میں ایسے واقعات منصوبہ بندی سے کروائے جاتے ہیں جوcalculated ہوتے ہیں۔ شہباز بھٹی کا قتل بھی سوچی سمجھی پلاننگ کا حصہ ہے۔ کیا ریمنڈ کیس کو دبانے کے لئے مقتول وزیر کا سانحہ رونما ہوا؟ کیا یہ غیر ملکی ایجنسیوں کا کھیل ہے؟ ارباب اختیار کا فرض بنتا ہے کہ وہ ریمنڈ ڈیوس کیس اور مقتول وزیر کے باہمی تعلق اور مشترک عناصر کی روشنی میں حقائق کی کھوج لگائیں۔ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لئے پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔ یاد رہے جو دھمکیاں دے سکتے ہیں جو قاتل کو سفارت کار کا درجہ دے سکتے ہیں جو سامراجیت کے نگہبان ہیں جو فرضی کہانیاں لکھ کر عراق و افغانستان میں بیس لاکھ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار سکتے ہیں کیا وہ اپنے ایجنٹ کی رہائی کے لئے ایک وزیر کو پھائے لگانے کا مقدس کام نہیں کرسکتے؟ ممکن بلکہ یقینی ہے۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 140733 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.