ہم سنتے تھے کہ تاریخ کو مسخ
کردیا جاتا ہے۔ ہم سنتے تھے کہ حقائق تبدیل کردیئے جاتے ہیں،ہم سنتے تھے کہ
سچ کے اوپر جھوٹ کی اتنی تہیں چڑھا دی جاتی ہیں کہ سچ کہیں گم ہوجاتا ہے۔
لیکن موجودہ دور میں ہم نے اس کی جیتی جاگتی مثال اپنے سامنے دیکھی ہے۔ اور
معاملہ یہ ہے اس وقت تو چونکہ ہمارے سامنے ساری بات ہے اور ہمیں اصل بات کا
پتہ ہے اس لئے ہم تو تھوڑا بہت بات کر بھی سکتے ہیں لیکن کچھ عرصے بعد لوگ
اصل بات کو بھول جائیں گے .۔ آپ سوچ رہے ہونگے کہ میں کس کے بارے میں یہ
باتیں کر رہا ہوں؟ کیا سچ ہے؟ کونسی حقیقت کو لوگ بھول جائیں گے؟ میں بات
کر رہا ہوں موجودہ سردار عبد الرحمان شہید عرف رحمان ڈکیت کی۔میں بات کر
رہا ہوں موجودہ پیپلز امن کمیٹی اور سابقہ رحمان ڈکیت گروپ کی .
پہلے بات ہو جائے امن کمیٹی کی۔ امن کمیٹی کے بارے میں اخبارات میں تو پڑھا
اور لوگوں سے سنا ہی تھا لیکن پہلا براہ راست تعارف اگست 2010میں ہوا ۔
ہماری عادت ہے کہ ہر سال اگست کے مہینے میں بچوں کو بیجز،جھنڈے،جھنڈیاں
وغیرہ دیتے ہیں تاکہ وہ پاکستان کا یوم آزادی شایانِ شان طریقے سے منا سکیں
اور اس کے لئے کراچی میں پیپر مارکیٹ میں ہول سیل ریٹ پر یہ تمام چیزیں
ملتی ہیں۔ گزشتہ سال اگست کی غالباً دس تاریخ تھی جب ہم پیپر مارکیٹ
گئے۔پیپر مارکیٹ کی گلی /سڑک ون وے ہے ۔اور ہم نے دیکھا کہ ایک رکشہ جس میں
تین مسافر بھی سوار تھے وہ رانگ سائیڈ سے اس گلی میں داخل ہوچکا تھا ، گلی
میں یومِ آزادی کے حوالے خریداروں کا بے تحاشہ رش تھا اس پر مستزاد گاڑیاں
بھی گلی میں موجود تھیں جس کے باعث گلی میں پیدل چلنا بھی محال تھا اور اس
حالت میں یہ رکشہ جب رانگ سائیڈ سے گلی میں داخل ہوا تو ٹریفک مکمل جام
ہوگیا۔ جب کافی دیر تک جام رہا تھا ٹریفک پولیس کا ایک سپاہی گلی میں داخل
ہوا اور اس نے ایک نظر میں دیکھ لیا کہ ٹریفک جام کی وجہ یہ رکشہ ہے۔ اس نے
رکشہ والے کو روکا اور اس کو کہا کہ وہ اپنے رکشہ کو واپس لے جائے کیوں کہ
اس کی وجہ سے پوری گلی میں ٹریفک جام ہوگیا تھا اور اس کے اثرات گلی سے
متصل ایم اے جناح روڈ پر بھی مرتب ہو رہے تھے۔
رکشہ والا بضد تھا کہ وہ رکشہ واپس لیکر نہیں جائے گا بلکہ وہ اسی گلی سے
رانگ سائیڈ سے ہی رکشہ نکالے گا،سپاہی اور رکشہ والے میں تکرار ہونے لگی،
اور رش بڑھتا گیا ہم بھی صورتحال کا جائزہ لینے وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ
رکشہ ڈرائیور اور اس کی سواریوں کا تعلق لیاری سے ہے اور وہ ٹریفک پولیس کے
سپاہی کو امن کمیٹی کے نام سے دھمکانے کی کوشش کر رہا تھا۔جب ٹریفک پولیس
کا سپاہی انکے دباؤ میں نہیں آیا تو رکشہ ڈرائیور اور اس کے ساتھیوں نے
باقاعدہ اس کو باقاعدہ مغلظات بکنا شروع کردیں۔ اور اس کو دھمکانے لگے کہ
ہم امن کمیٹی کے لوگ ہیں اور دیکھنا تیری پیٹی اتروا دیں گے۔ یہ صورتحال
دیکھ کر ہم نے اور دیگر کچھ لوگوں نے سپاہی کی حمایت کی ,اور رکشہ ڈرائیور
اور اس کے ساتھیوں سے کہا کہ وہ بلا وجہ بات نہ بڑھائیں اور اپنا رکشہ واپس
لے جائیں لوگوں کے شور کرنے کے بعد وہ لوگ گالیاں بکتے اور دھمکیاں دیتے
بالآخر وہاں سے روانہ ہوگئے۔ یہ میرا پیپلز امن کمیٹی سے پہلا تعارف تھا۔
دوسرا تعارف گزشتہ عید الاضحی پر ہوا جب ہمیں عید کے پہلے دن اطلاع ملی کہ
لیاری کے علاقے میں کچھ گڑ بڑ ہوئی ہے اور وہاں کھالیں چھیننے کے مسئلہ پر
دو گروپوں میں فائرنگ بھی ہوئی ہے۔پھر ہم نے اپنے ایک کولیگ جو کہ لیاری ہی
میں رہائش پذیر ہیں ان سے صورتحال کے بارے میں معلوم کیا تو پتہ چلا کہ
لیاری کے نیازی محلہ میں چوک پر قربانی کی جاتی ہے اور تقریباً ساری ہی
نیازی برادری اسی چوک پر اپنے جانور ذبح کرتی ہے۔ لیاری کا یہ علاقہ گینگ
وار کے اثر سے پاک ہے اور یہاں گینگ وار والوں نے کبھی مداخلت نہیں کی تھی۔
حسبِ معمول اس سال بھی لوگ یہاں قربانی کر رہے تھے کہ اچانک یہاں بھی لیاری
گینگ وار ( امن کمیٹی ) کے لوگ پہنچ گئے اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ قربانی
کے جانوروں کی کھالیں ہمیں دیدی جائیں،وہاں کے لوگوں نے انکار کردیا کہ یہ
کھالیں تو ہم پہلے ہی مختلف مدارس اور فلاحی تنظیموں کو دینے کا وعدہ کرچکے
ہیں اس لئے آپ کو کھالیں نہیں دی جاسکتی، اس بات پر دونوں جانب سے توُ توُ
میں میں ہونے لگی اور گینگ وار کے ایک فرد نے طیش میں آکر وہاں موجود لوگوں
پر براہ راست فائرنگ کردی، جس کے باعث وہاں ہلاکتیں ہوئیں ۔اور صرف اسی پر
بس نہیں کیا گیا بلکہ اس علاقے کو اپنا مفتوحہ علاقہ سمجھتے ہوئے کئی
گھنٹوں تک وہاں فائرنگ کی جاتی رہی ، جبکہ پولیس کا کہیں اتا پتہ نہ تھا ۔
اس صورتحال کے بعد نیازی برادری نے اپنی مدد آپ کے تحت ان کا مقابلہ کرنے
کی ٹھانی اور مساجد سے اعلان کئے گئے کہ پولیس اور رینجرز علاقے میں داخل
نہیں ہوسکتی اس لئے اہل محلہ ازخود اپنا اپنا اسلحہ لیکر آجائیں اور ان کا
مقابلہ کریں۔ کئی گھنٹوں تک نیازی محلہ میدان جنگ بنا رہا ۔ اس کے ساتھ
ساتھ جب ہم نے مزید معلومات حاصل کیں تو انکشا ف ہوا کہ لیاری میں امن
کمیٹی (گینگ وار) نے اپنے زیر اثر علاقوں میں اس سال ایک نیا ٹرینڈ متعارف
کرایا ہے ۔ اور وہ یہ کہ انہوں نے قربانی کے جانور کے ریٹ مقرر کردیئے کہ
گائے ،بیل کی قربانی کرنے والا پانچ ہزار روپے ،اور بکرا،دنبہ کی قربانی
کرنے والا دو ہزار روپے ادا کرے اور قربانی کی کھال کہیں بھی دیدے اس سے
ہمیں غرض نہیں ہے۔
کل کا بدنام ڈکیٹ،منشیات فروش،قاتل،اور اغواء برائے تعاون کا مجرم آج اس کو
ایک مظلوم کی صورت میں ایک سماجی رہنما کی صورت میں پیش کیا جارہا ہے۔ کل
کا رحمان ڈکیت آج ’’شہید سردار عبدالرحمان بلوچ عرف خان بھائی ‘‘ ہے۔لیاری
گینگ وار کے دو اہم کرداروں میں سے ایک رحمان ڈکیت پولیس مقابلے میں مارا
جاچکا ہے جبکہ دوسرا اہم کردار ارشد پپو اس وقت پولیس کی حراست میں ہے۔ ایم
کیو ایم نے لیاری میں قدم جمانے کے لئے ارشد پپو گروپ کو سپورٹ کیا تو
جواباً پی پی پی نے رحمان ڈکیت گروپ کو ایک قانونی اور سماجی شکل دیکر اس
کو پیپلز امن کمیٹی کا نام دیدیا ہے لیکن نام بدلنے سے چہرہ نہیں بدلا اور
نہ ہی کردار بدلا ہے صرف یہ ہوا ہے کہ طریقہ واردات بدل گیا ہے۔ پہلے بھتے
کی پرچی آتی تھی اب اس کو چندے کا نام دے دیا گیا ہے۔ پہلے لیاری میں
کھالوں کی چھینا چھپٹی نہیں ہوتی تھی اب وہاں بھی یہ سلسلہ رہے گا۔ پہلے
لوگ منشیات فروشوں اور جرائم پیشہ گروہوں سے اپنے تعلق کو چھپاتے تھے اب
ایسے لوگ باقاعدہ ’’کارکن ‘‘ کہلاتے ہیں۔
ہم سنتے تھے کہ تاریخ کو مسخ کردیا جاتا ہے۔ ہم سنتے تھے کہ حقائق تبدیل
کردیئے جاتے ہیں،ہم سنتے تھے کہ سچ کے اوپر جھوٹ کی اتنی تہیں چڑھا دی جاتی
ہیں کہ سچ کہیں گم ہوجاتا ہے۔ لیکن موجودہ دور میں ہم نے اس کی جیتی جاگتی
مثال اپنے سامنے دیکھی ہے۔ اور معاملہ یہ ہے اس وقت تو چونکہ ہمارے سامنے
ساری بات ہے اور ہمیں اصل بات کا پتہ ہے اس لئے ہم تو تھوڑا بہت بات کر بھی
سکتے ہیں لیکن کچھ عرصے بعد لوگ اصل بات کو بھول جائیں گے.چند سالوں بعد
لوگ بھول جائیں گے کہ رحمان ڈکیت کون تھا بلکہ لوگ یہی سمجھیں گے کہ سردار
عبدا لرحمان بلوچ عرف خان بھائی کو ان کے سیاسی مخالفین نے بدنام کرنے کے
لئے ڈکیت کا نام دیا ہے۔
خرد کا نام جنوں پڑ گیا، جنوں کا خرد جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے |