موجودہ برسر اقتدار حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تعلقات
ایک ایسے وقت میں انتہائی کشیدہ ہو گئے ہیں جب رواں ہفتے اپوزشین جماعتوں
نے حکومت کے پیش کردہ بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اس
کی بھرپور مخالفت کرنے کا علان کیا جبکہ دوسری طرف حکومت کے بعض اتحادیوں
نے بھی اپنے مطالبات منوانے کے لیے دباؤ بڑھا دیا۔ اس حوالے سے کئی تجزیہ
کاروں کا کہنا ہے کہ اس صورت حال میں حکومت کے لیے قومی اسمبلی سے بجٹ
منظور کروانا ایک چیلنج ہو گا کیونکہ اسے ایوان میں بہت ہی معمولی اکثریت
حاصل ہے۔ پاکستان کی اپوزیشن نے آئندہ مالی سال کے بجٹ پر سخت تحفظات کا
اظہار کرتے ہوئے اسے غریب دشمن قرار دیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین
بلاول بھٹو نے بجٹ کو آئی ایم ایف کا بجٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ
عوام کے مفاد میں نہیں ہے اور ان کی جماعت اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے ساتھ
مل کر اس کے خلاف احتجاج کرے گی۔ دوسری جانب مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ یہ
کہہ چکے ہیں کہ ملک کو درپیش اقتصادی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ٹیکسوں میں
اضافے کے ساتھ ساتھ دیگر اصلاحات ضروری ہیں۔ حکومتی بعض اتحادی جماعتیں
بشمول بی این پی مینگل نے بھی اپنے مطالبات منوانے کے لیے ایک ایسے وقت میں
دباؤ بڑھا دیا ہے جب حکومت کو بجٹ کی منظوری کے لیے حلیف جماعتوں کی حمایت
درکار ہے۔
کاروباری حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ محصولات میں اضافے کے لیے بجٹ میں لگائے
گئے ٹیکسوں کی وجہ سے ملک میں بڑے پیمانے پر مہنگائی کا خدشہ ہے ان کا یہ
بھی کہنا ہے کہ اگر حکومت آئندہ چھ ماہ میں ملک کو درپیش اقتصادی بحران سے
نمٹنے میں کامیاب نہیں ہوتی تو اسے ایک بہت بڑے سیاسی بحران کا سامنا کرنا
پڑ سکتا ہے۔
پاکستانی اکانومی ماھرین کیمطابق موجودہ درپیش اقتصادی بحران سے نمٹنے کے
لیے حکومت کے پاس اقتصادی اصلاحات لانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ اپوزیشن جماعتیں عوام کو حکومت کے خلاف سڑکوں پر
لانے کی کوشش کریں گے تاہم ان کے بقول فی الحال ان کوششوں کی کامیابی کے
امکانات کم ہیں۔ اگرچہ بجٹ سخت ہے، لیکن اس کے سوا ملک کو درپیش معاشی
بحران سے نمٹنے کا کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں ہے۔ اس کا بوجھ عوام کو
برداشت کرنا پڑے گا اور اپوزیشن اس معاملے کو اجاگر کر کے عوام میں حکومت
کی ساکھ کو کمزور کرنے کی کوشش ضرور کرے گی تاہم ان کا کہنا ہے کہ ماننا
پڑیگا کہ "سیاسی محاذ پر حکومت پر دباو بڑھ رہا ہے، حالانکہ پیپلز پارٹی
اور پی ایم ایل این کے اپنے اختلافات بھی موجود ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ
وہ ایک نکتے پر اکھٹے ہو گئے ہیں اور یقینی طور وہ بجٹ کی مخالفت کریں گے
اگرچہ اتحادی جماعتوں میں متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان مسلم لیگ (کیو) اور
بی این پی نے اپنے بعض مطالبات کے لیے حکومت پر دباؤ بڑھا دیا ہے تاہم انکا
کہنا ہے کہ حکومت کی کوئی بھی حلیف جماعت حکومت کو گرانے کے حق میں نہیں ہو
گی کیونکہ ایسا کرنا ان کے بھی مفاد میں نہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور
پاکستان مسلم لیگ (نون) مخالفت کے باوجود بجٹ کی منظوری کا امکان ہے۔
سردار اختر مینگل کی جماعت بی این پی کے حکومت کے ساتھ اختلافات بڑھے ہیں۔
وہ بعض معاملات پر اپوزیشن کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ
اس کی وجہ سے حکومت کو پارلیمان کے اندر کسی مشکل صورت حال کا سامنا کرنا
پڑے گا اور ویسے بھی وہ حکومت کیساتھ بارگیننگ کیلئے ٹیبل پر بیٹھنے کیلئے
تیار نظر آتی ھے۔
قومی تجزیہ کاروں کی رائے ھے کہ حکومت کو سیاسی سے زیادہ اقتصادی چیلنج کا
سامنا ہے۔ حکومت کو پارلیمنٹ کے اندر تھوڑا بہت چیلنج درپیش ہے لیکن
پارلیمان کے باہر آئندہ چند ماہ کے دوران ایسا ہوتا نظر نہیں آتا ہے۔ حکومت
کے لیے سب سے بڑا چیلنج حکومت کے اندر ہے کہ اگر آج سے چھ ماہ کے بعد
اقتصادی صورت حال بہتر نہیں ہوتی، مہنگائی میں مزید اضافہ ہوتا ہے، اس صورت
میں عوام اپوزیشن کی طرف رجوع کر سکتے ہیں لیکن فی الفور حکومت کے سامنے
کوئی بڑا چیلنج نظر نہیں آ رھا مگر اندرون ملک اقتصادی استحکام کے لیے
سیاسی استحکام ضرورت ہے۔ اس کے لیے حکومت اور اپوزیشن کو اقتصادی معاملات
سمیت بعض اہم قومی ایشوز پر مفاہمت کرنا ہو گی انکا کہنا ھے کہ اگرچہ حکومت
اور اپوزیشن کے درمیان فوری طور کسی مفاہمت کا کوئی امکان نہیں مگر یہ وقت
کی ایک اہم ضرورت ہے۔
|