تمام تعریفیں اس پاک پروردگار
عزوجل کے لئے جس نے انسان کو تخلیق فرماکر اشرف المخلوقات کی خصوصیات سے
نوازا۔ اور تمام تر درود و سلام اس آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کہ
جن کی مدحت و آداب کے اصول خود رب کریم نے اس اُمت پر آشکار فرمائے۔
لہٰذا ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے ۔
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا۔
لِّتُؤْمِنُوۡا بِاللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُعَزِّرُوۡہُ وَ تُوَقِّرُوۡہُ۔
وَ تُسَبِّحُوۡہُ بُکْرَۃً وَّ اَصِیۡلًا۔
بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا ۔ تاکہ اے لوگوں
تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور
صبح و شام اللہ کی پاکی بولو ۔
(سورت الفتح آیت 09 – 10)
اللہ کریم نے اپنے حبیب لبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت سرائی فرماتے
ہوئے آداب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ملحوظ خاطر رکھنے اور توقیر
جاری رکھنے کا حکم دیا ۔ دراصل محب و محبوب کا بھی یہ عجیب معاملہ رہتا ہے
کہ محب کبھی بھی اپنے محبوب کی توقیر میں کمی و کجی برداشت نہیں کرسکتا مگر
توقیر کے ساتھ ساتھ تعظیم کا پہلو بھی نظرانداز نہیں ہونے دیتا۔
تعلیمات اسلام کی رُو سے اسلامی معاشرے میں ہر چھوٹا بڑے کی تعظیم کرتا ہے۔
اپنے بڑوں ، بزرگوں کا زیادہ سے زیادہ ادب و تعظیم کرنا ایک معاشرتی تقاضا
سمجھا جاتا ہے لیکن جب بات ہو تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تو
لازمی ہے کہ معمول کی تعظیم کے عام طریقے ختم ہوجائیں اور تعظیم کا بلند
ترین درجہ اختیار کیا جائے۔ یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم از روئے قرآن واجب ہے۔ ادب و تعظیمِ رسول صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نہ کرنا کفر ہے۔ سورت الاعراف میں اللہ تعالٰی نے اہل ایمان
کی باقاعدہ طور پر چار خصوصیات بیان فرمائی ہیں۔ جو تعظیم و توقیرِ رسالت
مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مشتمل ہیں اور دنیا و آخرت میں کامیابی کی
شرط ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِہٖ وَعَزَّرُوۡہُ وَنَصَرُوۡہُ وَاتَّبَعُوا
النُّوۡرَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ مَعَہٗۤ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوۡنَ۔
تو وہ جو اس (برگزیدہ رسول صلہ اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں اور اس
کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ
اُترا وہی بامراد ہوئے۔
(سورت الاعراف ، آیت 157)
اوپر مذکورہ دونوں آیات مبارکہ میں مجموعی طور پر ایمان بالرسالت صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے درج ذیل چار تقاضے بیان ہوئے ہیں۔
1-تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
2-توقیر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
3-نصرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور
4-اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اس واضح ترتیب میں ایمان کے بعد اولیت تعظیم و توقیر کو دی گئی ہے۔ یہ بڑا
اہم اور ایمان افروز نکتہ ہے کہ نصرت و اطاعت رسول اللہ علیہ وآلہ وسلم ان
دو تقاضوں کے بعد مذکور ہیں۔ اس اُلوہی ترتیب سے یہ حقیقت بھی سمجھ لینی
چاہئے کہ دعوت و تبلیغِ دین کا فریضہ جو فی الحقیقت نصرت رسول صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم ہے ، قرآنی منشاء کے مطابق اس وقت تک موثر ، نتیجہ خیز اور
موجب ثمرات نہیں بنتا جب تک پہلے دین لے کر آنے والے رسول صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے ساتھ تعظیم و توقیر کے دو تعلق استوار نہ ہوجائیں۔ نصرت و
اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دونوں کا تعلق عقائد ،
نظریات اور جذبات سے زیادہ اعمال و افعال کے ساتھ ہے۔ جبکہ اول الذکر دونوں
تقاضے ایمانی کیفیت ، تعلق کی نوعیت اور عقیدے کی طہارت کے معیار کو ظاہر
کرتے ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر تعظیم و توقیر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شجر
ایمان کی جڑیں اور تنا ہیں جبکہ موخر الذکر دو تقاضے اس شجر کی شاخیں اور
پھل ہیں۔ ایمان کی توثیق و تصدیق تبھی ہوتی ہے جب تعظیم رسول صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم سے ایمان کو پرکھا جاتا ہے کیونکہ تعیم ، ایمان پر گواہی کا درجہ
رکھتی ہے۔ جب تک کوئی شخص نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب اور
تعظیم کو بدرجہ اتم اپنے دل میں جاگزیں نہ کرے اس کا ایمان کامل نہیں ہوتا۔
ایمان کی تکمیل کے بعد ہی اطاعت و نصرت کی کاوشیں مقبول اور باثمر ہوں گی۔
یاد رکھا جائے کہ توقیر بھی تعظیم سے ہے لیکن باعتبار مخلوق یہ ادب و
احترام کا وہ بلند درجہ ہے جو شرعاً حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق ہے۔
مفسرین نے بھی توقیر کا معنی بلند درجہ تعظیم و تکریم ہی بیان کیا ہے۔
لہٰذا امام ابن کثیر نے لکھا ہے
وتوقروہ ۔۔۔۔۔ یہ لفظ توقیر سے ماخوذ ہے اور اس سے مراد ادب و احترام ،
بلند مرتبہ اور عظمت ہے۔
(تفسیر ابن کثیر ، 04:186)
امام بغوی نے لکھا ہے
وتوقروہ ۔۔۔۔۔ کا معنی ہے ان کی تعظیم کرو اور خوب شان و شوکت بیان کرو۔
(بغوی ، معالم التنزیل ، 190 : 04)
اسی طرح امام قرطبی لکھتے ہیں
وتوقروہ ۔۔۔۔۔ یعنی ان کی خوب شان و شوکت بیان کرو۔
(قرطبی ، الجامع لاحکام القرآن ، 16 : 267)
مذکورہ بالا آیات قرآنی سے ثابت ہوا کہ تعظیم حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
توحید باری تعالیٰ عزوجل سے متعارض و متصادم نہیں۔ کیونکہ اس عمل کا حکم تو
خود رب کریم نے اپنے پاک کلام میں دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نصوص قرآنیہ سے
یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جو کوئی نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے
ادبی کرتا ہے تو وہ دراصل اللہ تعالیٰ کی بے ادبی کرتا ہے۔ اور جو نبی پاک
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت سے منہ موڑتا ہے تو وہ دراصل اللہ عزوجل
کی اطاعت سے منہ موڑتا ہے۔ اسی طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
اذیت دینا دراصل اللہ کریم کو اذیت دینا ہے اور اللہ کریم کو اذیت دینے کا
مطلب اس کے غضب اور ناراضی کو دعوت دینا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے ؛
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُؤْذُوۡنَ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَعَنَہُمُ اللہُ فِی
الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا مُّہِیۡنًا۔
بیشک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا
اور آخرت میں اور اللہ نے ان کے لئے ذلّت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
(سورت الاحزاب ، آیت 57)
علامہ ابن تیمیہ کے نزدیک اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق
ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ لہٰذا اس آیت کے ذیل میں انھوں نے
لکھا ۔
"اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت و اذیت اور معصیت
و نافرمانی کو (قرآن حکیم میں) ایک ہی چیز قرار دیا گیا ہے۔
(ابن تیمیہ ، الصارم المسلول علی شاتم الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
40-41)
بعض افراد عبادت و تعظیم کا فرق ملحوظ خاطر نہ رکھنے کے سبب دونوں کو ایک
ہی پیرائے میں استعمال کرتے ہوئے تعظیم حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
چشم پوشی اختیار کرتے ہیں۔ جبکہ علمائے کرام نے عبادت کی درج ذیل تعریف کی
ہے ۔
" یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا خصوصی استحقاق ہے کہ اسی کی عبادت کی جائے ،
اس کا کوئی شریک نہیں۔ "
(ابن ابی العز دمشقی ، شرح العقیدہ الطحاویۃ ، 125 : 01)
امام خازن لکھتے ہیں
" عبادت بندے کی طرف سے عجزو انکساری کی بلند ترین کیفیت اور رب تعالیٰ کے
لئے تعظیم کے بلند ترین درجے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ سب سے بلند ہے اور وہی
عبادت کا مستحق ہے ۔ اور عبادت کا لفظ فقط اللہ تعالیٰ سے عاجزی کےلئے
استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ وہ عظیم ترین نعمتوں کا مالک ہے۔ "
(خازن ، لباب التاویل فی معانی التنزیل 17 : 01)
جبکہ امام فخرالدین رازی لکھتے ہیں؛
" عبادت ، تعظیم کی بلند ترین کیفیت سے عبارت ہے "
(رازی ، التفسیر الکبیر 01 :242)
ان کے علاوہ بھی دیگر آئمہِ تفسیر نے عجز و انکساری کی بلند ترین کیفیت اور
تعظیم کی آخری حد کو عبادت قرار دیا ہے۔ پس عبادت کے لئے لازمی ہے کہ اس
میں عجزوانکساری کی بلند ترین کیفیت کے ساتھ تعظیم کا انتہائی درجہ شامل ہو
اس کے علاوہ ایسےعمل کو جو اس سے کم تر درجے میں ہو اسے عبادت تصور نہیں
کیا جاسکتا۔
عبادت و تعظیم کی درج بالا بحث سے ثابت ہوا کہ ادب و احترام اور تعظیم کا
اعلیٰ ترین درجہ ہی عبادت کہلائے گا جس کا حق دار و سزاوار صرف اور صرف
اللہ تعالیٰ کی ذاتِ بابرکت ہے اس میں حقیقت و مجاز کی تقسیم بھی نہیں
ہوسکتی۔ لہٰذا عبادت کا کسی کے لےا مجازا اثبات بھی شرک ہے ۔ لیکن ہر تعظیم
عبادت نہیں کیونکہ کسی بھی عمل کو عبادت قرار دینےکے لئے تین شرائط کا پایا
جانا نہایت ضروری ہے ۔
1-بندہ عاجزی و تذلل اور عجز و انکساری کی آخری حد پر ہو۔
2-رب تعالیٰ کے لئے تعظیم کا آخری درجہ ہو۔
3-اُس عمل کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے خاص قرار دیا ہو۔
شرعاً تعظیم کے جائز و واجب طریقے ؛
جائز طریقے :
1- تعظیم بالقیام 2- تعظیم بالاستقبال 3- تعظیم بخلع النعال 4-تعظیم
بالتقبیل 5- تعظیم بالزیارت 6- تعظیم بالمحبت 7- تعظیم بالتوجہ 8- تعظیم
بالتبرک
واجب طریقے :
1- تعظیم الوہیت 2- تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 3- تعظیم انبیاء
علیھم السلام 4- تعظیم قرآن 5- تعظیم حدیث 6- تعظیم اہلبیت 7- تعظیم صحابہ
علیھم الرضوان 8- تعظیم اولیاء و صالحین 9- تعظیم اکابر و مشائخ 10- تعظیم
والدین 11- تعظیم شعائر 12- تعظیم شہورِ مقدسہ 13- تعظیم ایام مقدسہ 14-
تعظیم اماکن مقدسہ
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |