انشاﺀ اﷲ کہنے سے کام بنتے ہیں

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کفار مکہ نے آنحضرت ﷺ سے اصحاب کہف کے واقعہ کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ کل بتا دوں گا مگر خدا کا کرنا کیا ہوا کہ پندرہ دن تک آپ کے پاس وحی نہ آئی آپ بے حد پریشان ہوئے کفار کو کیا جواب دوں گا ؟ اسی اثنا میں جبرائیل علیہ السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی لیے حاضر ہوئے۔ (اے محمد ﷺ) آپ کسی کام کے بارہ میں ہرگز یہ نہ کہیں کہ میں اسے کل کر لوں گا مگر یہ کہ اللہ چاہے (الکہف) مفسرین کہتے ہیں کہ آیت میں آپ کو یہ تنبیہ کی گئی ہے۔ کہ آپ جب بھی کوئی کام کرنا چاہیں تو پہلے انشاءاللہ کہہ لیں۔

حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ تبارک و تعالیٰ کے بر گزیدہ پیغمبر ہیں ۔ انہوں نے ایک دفعہ یہ قسم کھائی کہ میں آج رات اپنی بیویوں کے پاس جاﺅں گا جو تعداد میں نوے یا سو تھیں اور ہر عورت ایک بچہ جنے گی تو وہ تمام اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے ہوں گے۔ فرشتہ نے یہ القاء کیا کہ انشاءاللہ کہہ لیجیے مگر (باوجود دل میں ہونے) زبان سے نہ کہا۔

خدا کا کرنا کیا ہوا کہ اس مباشرت کے نتیجے میں کسی عورت نے بھی کوئی بچہ نہ جنا صرف ایک عورت سے ادھورا بچہ ہوا تو دایہ نے وہی بچہ لا کر تخت پر ڈال دیا کہ لو ’ یہ تمہاری قسم کا نتیجہ ہے ۔ قرآن پاک میں اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (ترجمہ) ”اور ہم نے جانچا سلیمان کو اور ڈال دیا اس کے تخت پر ایک دھڑ پھر وہ رجوع ہوا بولا اے میرے رب معاف کر مجھ کو اور بخش مجھ کو وہ بادشاہی کہ مناسب نہ ہو میرے بعد کسی کو بے شک آپ ہیں سب کچھ بخشنے والے “ (ص پارہ 26)

حدیث میں ہے فرمایا نبی پاک ﷺ نے کہ اگر حضرت سلیمان ؑ انشاءاللہ کہہ لیتے تو بے شک اللہ تعالیٰ وہی کردیتا جس کی قسم کھائی تھی۔ یعنی ہر عورت بچہ جنتی ۔

قرآن پاک میں کئی مقامات پر یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ پوری کائنات اللہ تبارک و تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے ہر کام اس کے حکم و ارادہ سے ہوتا ہے اگر اللہ تعالیٰ کسی کام کو کرنا چاہیں تو دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی اور اگر کسی کام کو نہ کرنا چاہیں تو کوئی طاقت اسے کر نہیں سکتی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے” اللہ کے ہاتھ میں ہے بادشاہی زمینوں اور آسمانوں کی اور پہلے بھی اسی کا حکم ہے اور بعد میں بھی اسی کا حکم ہے“ اور فرمایا”پاک ہے وہ ذات کہ جس کے ہاتھ میں ہے بادشاہی ہر چیز کی اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاﺅ گے۔“(یٰسین پ23 )

مفسرین لکھتے ہیں کہ کائنات میں ظاہری اسباب کے علاوہ باطنی اسباب کا بھی ایک عظیم الشان سلسلہ جاری ہے جس کام نے ہونا ہوتا ہے اس کا پہلے حکم اترتا ہے وسیلے بعد میں مقرر ہوتے ہیں کہ اس کام نے کس ذریعے اور وسیلے سے پورا ہونا ہے ۔ ( تفسیر القرآن از علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ)

یہی وجہ ہے کہ آدمی گولی سے بچ جاتا ہے اور کنکر سے مر جاتا ہے کیونکہ اس کی موت کا حکم اب ہوا ہے اور کسی کو دنیا بھر کے ڈاکٹروں سے علاج کروانے کے باوجود بھی افاقہ نہیں ہوتا اور جب شفا ہونا ہوتی ہے تو ایک خاک کی پڑیا سے بھی ہو جاتی ہے ۔ کیونکہ اس کی شفا کا حکم اب نازل ہوا ہے اصل چیز اللہ کا حکم ہے۔

انشاءاللہ کہنے والا شخص براہ راست مسبب الاسباب کو پکارتا ہے اور اپنی عاجزی و بے کسی کا اظہار کرتا ہے اور اس کی قدرت کاملہ کا اعتراف کرتے ہوئے اس سے یوں عرض گزار ہوتا ہے کہ باری تعالیٰ اگر آپ چاہیں تو میرا کام ہو سکتا ہے ۔ بے شک آپ ہی کی طرف تمام کام لوٹائے جاتے ہیں۔ تو اللہ تبارک و تعالیٰ بھی اس کی دعا رد نہیں کرتے کیونکہ اس نے خود ہی قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ ”مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا“ (القرآن)

لہٰذا ہمیں بھی ہر کام کرنے سے پہلے انشاءاللہ کہنا چاہئے تاکہ ہمارا رابطہ عالم اسباب سے جڑ جائے اور کام ہوجائے۔
Muhammad Rafique Etesame
About the Author: Muhammad Rafique Etesame Read More Articles by Muhammad Rafique Etesame: 196 Articles with 320756 views
بندہ دینی اور اصلاحی موضوعات پر لکھتا ہے مقصد یہ ہے کہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے فریضہ کی ادایئگی کیلئے ایسے اسلامی مضامین کو عام کیا جائے جو
.. View More