لا اکرا فی الدین ایسی قرآنی آیت
ہے جو آزادیِ اظہار کے دروازے کھولتی، انسا نوں میں حریتِ فکر کی شمعوں کو
روشن کرتی اور تقدسِ رائے کے انمول موتی لٹا تی ہے۔ یہ انسانی فکر کے
احترام اور اسکی اہمیت کی سب سے بڑی نقیب بن کر برداشت اور تحمل کا درس
دیتی ہے اور ببا نگِ دہل اعلان کر تی ہے کہ کسی انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا
کہ وہ مذہب کے نام پر دوسروں کو اپنی فکر کا غلام بنا ئے ۔ اس آ یت میں
جہاں مذہبی روادری کا درس ملتا ہے وہیں پر دوسروں کے جذبات کے احترام کا
پہلو بھی بڑا نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے۔ یہ آیت قوت و حشمت اور جاہ و جلال
کے بے جا استعمال سے کمزوروں اور بے بسوں پر اپنی رائے کو مسلط کرنے کی
ساری راہیں مسدود کرتی ہے۔یہ آیت ہر اس انسان کے گھمنڈ اور غرور کی راہ میں
پوری طاقت سے کھڑی ہو جا تی ہے جو اپنے نشہ اقتدار سے دوسروں پر اپنی سوچ
کو مسلط کرنے کی جسارت کرتا ہے۔ یہ ہر اس خیال کی بیخ کنی کرتی ہے جس کا
واحد مقصد دوسروں کو بزورِ قوت اپنی فکر کا غلام بنانا ہے۔ آپ اس آیت کے
پرت کھولتے چلے جا ئیے یہ دانش و حکمت کے موتی لٹاتی جائیگی جن کی اجلی چمک
سے اسلام کا چہرہ مزید حسین اور منور ہو تا چلا جائے گا۔ ارشادِ خدا وندی
ہے کہ دوسرں کے جھوٹے خداﺅں کو برا بھلا مت کہو نہیں تو وہ تمھارے سچے
معبودوں کو بھی برا بھلا کہیں گے اور انکا ابطال کریں گے لہٰذا دانش کا
تقاضہ ہے کہ دوسروں کے مذہبی جذبات کا احترام کیا جا ئے تاکہ وہ بھی با ہمی
احترام کی فضا کو مکدرہ نہ ہو نے دیں اور یوں معاشرے کے اندر مختلف سوچ اور
ایمان کے حامل افراد شانہ بہ شانہ ارتقا کے عمل میں اپنی فکر اور دانش کے
پھول کھلا سکیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ یہ آیت معاشرے سے فساد اور نا ہمواری
کو روکنے کا سب سے مؤثر ہتھیار ہے تو بے جا نہیں ہو گا۔۔
قائدِ اعظم محمد علی جنا ح نے پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی سے خطاب
کرتے ہو ئے فرمایا تھا کہ پاکستان میں آج کے بعد کو ئی ہندو ہندو نہیں ہو
گا کو ئی عیسا ئی عیسائی نہیں ہو گا اور کو ئی مسلمان مسلمان نہیں ہو گا
بلکہ سب کی پہچان پا کستان ہو گا تو کیا قائد کی یہ شہرہ آفاق تقریر اسلام
کی نفی کر رہی تھی با لکل نہیں بلکہ وہ تو اسلام کی اعلیٰ و ارفع اقدار اور
زریں اصولوں کو اپنے دلکش انداز میں واضح کر رہے تھے۔ تاریخِ عالم کے عمیق
مطا لعہ سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اسلام کی ساری
تاریخ غیر مسلموں سے محبت بھرے سلوک سے مزین ہے، وہ سپین ہو، یروشلم ہو
ہندوستان ہو یا دنیا کے دوسرے خطے ہوں ہر جگہ دیگر مذا ہب کی تکریم اسلام
کی ہمیشہ سے پہلی ترجیح رہی ہے اور شائد یہی وجہ تھی کہ اسلام پو ری دنیا
میں پھیلتا چلا گیا اور لوگ مشر ف بہ اسلام ہو تے چلے گئے ۔ سرکارِ دو عالم
ﷺ نے تو نجران کے عیسا ئیوں کے وفد کو کو مسجدِ نبوی میں اپنا مہمان بنایا
تھا تا کہ آنے والی انسانیت اس بات کی گواہ رہے کہ محبوبِ خدا حضرت محمد
مصطفٰےﷺ دیگر مذاہب کے اکابرین کا کس درجہ احترام کرتے ہیں۔ میثاقِ مدینہ
غیر مسلموں کے ساتھ حسنِ سلوک کی سب سے تابناک دستا ویز ہے کیونکہ اس میثاق
میں سب کو اپنے اپنے مذہب کے مطابق زندہ رہنے کا اختیار دیا گیا تھا اور
مذہب کے نام پر کسی کا سر تن سے جدا کرنے کی اجا زت نہیں تھی۔
اسلام کے ابتدائی ایام تھے ایک دن ابو جہل نے آقا ئے دو جہاں ﷺ کے خلاف نا
زیبا کلمات ا ستعمال کئے اور اس بات کی خبر جب حضرت امیر حمزہ کو ہو ئی تو
وہ سیدھے ابو جہل کے ٹھکا نے پر پہنچے اور اسے زخمی کرنے کے بعد آقا ﷺ کے
درِ اقدس پر حاضر ہو ئے تا کہ حضور ﷺ کو یہ بتا سکیں کہ انھوں نے ابو جہل
سے زیا دتی کا بدلہ لے لیا ہے ۔ لیکن آقا ئے دو جہاں ﷺ نے فرمایا اے میرے
چچا تیرے اس فعل سے مجھے کو ئی خوشی نہیں ہو ئی مجھے تو خو شی تب ہو گی جب
آپ اسلام قبول کریں گے۔ یہ تھی عفو در گزر کی عظمت کی وہ تابناک روایت جس
سے متا ثر ہو کر دشمن حلقہ بگوشِ اسلام ہو تے چلے گئے۔ عفو و درگزر کی ایسی
تابناک داستانیں صرف اسلام کے ابتدا ئی ایام میں ہی نہیں تھیں بلکہ یہ
آقائے دوجہاں ﷺ کی ساری حیاتِ طیبہ میں ستاروں کی طرح جھلمل جھلمل کرتی نظر
آتی ہیں ۔ یہ فتح مکہ کے ان لمحات میں بھی تھیں جب سر دارا نِ قریش پا بہ
زنجیر آپ ﷺ کے سامنے تھے اور ان سب کی زندگی آپ ﷺ کے ایک اشارے کی منتظر
تھی۔ نحو و تکبر کے بت جو خود کو پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبو ط اور قوی تصور
کرتے تھے جو مجبوروں ، مہقوروں،بے بسوں، کمزوروں اور غلاموں پر ظلم و ستم
کے پہاڑ توڑتے تھے میرے آقاﷺ کے سامنے مجبو رو بے بس کھڑے تھے اور رحمت کے
طلبگار تھے۔یہ وہ وقت جب سرکار ﷺ کے پاس بدلے کی قوت بھی تھی طاقت بھی تھی
حکومت بھی تھی لیکن اس کے باوجود آقا ئے دو جہاں ﷺ نے عفو و در گزر کا عظیم
الشان مظاہرہ کرتے ہو ئے فرما یا تھا کہ جا ﺅ آج تم سے کو ئی باز پرس نہیں
ہو گی آج سے تم سب آزاد ہو ۔۔
جس طرف چشمِ ِ محمد ﷺ کے اشارے ہو گئے۔جتنے ذرے سامنے آئے ستارے ہو گئے
ڈوبنے والو جب نامِ محمد ﷺ لے لیا۔۔ حلقہِ طوفان کو حا صل کنارے ہو گئے
(ساغر صدیقی )
کوئی ہے جو مجھے یہ بتا سکے کہ جنھیں سرکار ﷺ نے معاف کیا تھا ۔کون تھے وہ
لوگ ۔ ان کی سوچ اور فکر کیا تھی انکا کردار کیا تھا انکا نقطہ نظر کیا تھا
اور انکا ماضی کس بات کا گواہ تھا۔ وہ لوگ جنھیں معافی دی گئی تھی کیا وہ
آقا ئے دو جہاں ﷺ پر درورو سلام بھیجا کرتے تھے ؟کیا وہ آپ کی محبت کے گیت
گایا کرتے تھے ؟ َ کیا وہ آپ کی اطاعت کی آرزو کیا کرتے تھے؟ کیا وہ حق و
صداقت کی شمعیں روشن کیا کرتے تھے ؟کیا وہ آپ کو نبی بر حق مان کر ایمان کی
دولت سے سرفراز ہو نا چا ہتے تھے ؟ بالکل نہیں وہ تو (نعوذ باللہ) سر کار ﷺ
کی زندگی کا چراغ گل کرنے والے بے رحم سفاک اور منقسم المزاج ضدی لوگ تھے
۔انہی لوگوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنھوں نے جنگِ احد میں حضور ﷺ کے
دندان مبارک شہید کئے تھے ، جنھوں نے آپ ﷺ کو تین سال تک شعبِ ابی طالب میں
قیدو بند کی اذیتیں دی تھیں۔ جنھوں نے طا ئف کے سفر میں پتھروں کی بارش سے
آپ ﷺ کو لہو لہان کیا تھا۔ جنھوں نے جنگِ احزاب میں اسلام کو ہمیشہ ہمیشہ
کے لئے ختم کرنے کے لئے مدینہ منورہ پر چڑھا ئی کی تھی۔ میرے سرکار ﷺ کو سب
علم تھا کہ انکے قلوب اور اذہان میں کیا ہے اور انکا ماضی کس بات کا گواہ
ہے لیکن اسکے با وجود بھی میرے آقا ﷺ نے ان تمام، گستاخ، سفاک اور بے رحم
لوگوں کو معاف کرنے کی ایسی نظیر قائم کر دی جسکی مثال تاریخِ انسانی پیش
کرنے سے قاصر ہے۔ باعثِ حیرت ہے کہ اسی رسول ﷺ کی امت کے چند اکابرین ایک
آمر کے بنا ئے ہو ئے قانون پر اظہارِ خیال پر قتل کو جائز تصور کر تے ہیں
یہ کیسی عاشقی ہے کہ رحمت ا للعا لمین تو عفو و درگزر کا مظاہرہ کر کے لوگو
ں کو معاف فرماتے تھے لطف و کرم کی دولت سے نوازتے تھے لیکن انکی عاشقی کے
دعویدار لوگوں میں موت بانٹتے ہیں، سرِ عام قتل کرتے ہیں اور اسے سرکا رِ
دو عالم ﷺ سے محبت کا نام بھی دیتے ہیں ۔
سرکارِ دو عالم ﷺ کے اسوہ حسنہ اور کردار کی عظمت نے آپ ﷺ کو معراجِ
انسانیت کی مسند عطا کی تھی اگر کچھ لوگ تئیس سالوں کی ساری عظمتوں قربا
نیوں، مشقتوں ،رحمتوں نوازشوں اور عفو و درگزر کو نظر انداز کر کے فتح مکہ
کو نقطہ آغاز بنا لیں گے تو وہ مقامِ رسا لت کی نفی کے مجرم ہوں گے۔سرکار ﷺ
کی ساری عظمتیں تو انہی تئیس سالوں میں پنہاں ہیں جنھیں کچھ لوگ فراموش کر
کے صرف ایک مخصوص واقعہ سے استدلال کر کے مخالفین کو قتل کرنے کی سند لانا
چاہتے ہیں ایک ایسا واقعہ جسے اپنے سیاق و سباق اور پورے تنا ظر میں دیکھا
نہیں جا تا۔ کچھ لوگ اسی ایک واقعے کی بنیاد پر قتل و غارت گری کو اسلام کی
عظمت اور حضور ﷺ سے محبت کی علامت کہتے ہیں حالا نکہ وہ خود بھی جا نتے ہیں
کہ سرکار ﷺ کی ساری زندگی مخالفین کو معاف کرتے کرتے گزری تھی انکی حیاتِ
طیبہ میں ذاتی انتقام کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا۔جب عکرمہ بن ابو
جہل، کعب بن زہیر، جبار بن اسود اور ہندہ زوجہ ابو سفیان جیسے مجرمین اور
گستا خوں کو بارگاہِ رسالت سے معافی مل سکتی ہے تو پھر تحفظِ ناموسِ رسالت
کے نام پر کسی کے قتل کا کو ئی جواز باتی نہیں رہتا۔۔۔۔
اگر ہم معاشروں کے ارتقا اور انکی ترقی کا جائزہ لیں تو ایک بات روزِ روشن
کی طرح عیاں ہے کہ جن معاشروں نے تحمل اور برداشت کو اپنی زندگیوں پر لاگو
کیا وہی معاشرے ترقی کی منازل طے کرتے رہے سرکارِ دو عالم حضرت محمد
مصطفٰےﷺ کا خطبہ حجتہ الوداع اس سوچ کا سب سے بڑا شاہکار ہے۔ ایسا خطبہ جس
نے ایک طرف نسلی تفا خر کی ساری دیواروں کو ملیا میٹ کیا تو دوسری طرف عفو
و درگزر کی ایسی عظیم روایت کا آغاز کیا کہ جس پر اہلِ دانش آج بھی انگشت
بد ندان ہیں۔ ایک قبا ئلی معاشرہ جس میں جنگ و جدل اور انتقام اس قبائلی
معاشرے کی سب سے مضبوط بنیاد بھی تھی اور اسکی پہچان بھی تھی اسکا بیک
جنبشِ قلم خاتمہ کر دیا گیا۔ اتنی قدیم روایات کے خاتمے کے اعلان کے لئے
فصاحت و بلا غت کا ایسا دلکش انداز اپنا یا کہ عقل دنگ رہ جا تی ہے ۔ کسی
عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے
کو گورے پر کو ئی فوقیت نہیں ہے ۔ بڑائی کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ تمھارا خون
اور تمھارا مال ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہے جس طرح تمھارے لئے آج کے دن
کی اس مہینے کی اور موجودہ شہر کی حرمت ہےلیکن مذہبی شدت پسند پھر بھی مذہب
کی من پسند تعبیروں سے لوگوں کے قتل کے فتوے دیتے ہیں معاشرے میں
ناہمواریوں پھیلا تے ہیں ، فساد کو ہوا دیتے ہیں اور تکریمِ انسانی کی عظمت
کے فلسفے سے رو گردانی کرتے ہیں۔۔
سفرِ طائف کے دوران نورِ مجسم کے مقدس خون میں لت پت ہاتھ جب دستِ دعا کے
لئے بلند ہو ئے ہونگے تو عرشِ عظیم پر جلوہ افر وز خدا کی کیفیت بھی دیدنی
ہو گی۔ کیفیت کی یہی طلا طم ا نگیزیاں تھیں جنھوں نے سفرِ معراج کو حقیقت
کا جامہ پہنا یا اور لا مکان کی تنہا ئیوں میں کعبہ و قوسین کا منفرد منظر
انسانیت کو آخری بار دکھا یا گیا ۔فخرو ناز کی نور فشاں چاندنی میں ربِ
کائنات کو محسوس ہو رہا ہو گا کہ جسے اس نے اپنا محبوب بنا رکھا ہے اسکی
عظمتیں رنگ و بو کی اس کائنات میں سما نہیں سکتیں یہ کائنات اسکی عظمتوں کا
احاطہ کرنے سے قا صر ہے۔ معراجِ انسانیت کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو گی
کہ جس بستی کو الٹ دینے کا قصد ربِ کائنات خود کرتا ہے محبوبِ خدا اسی بستی
کی معافی کے لئے ربِ ذوالجلال کے سامنے دستِ سوال دراز کر دیتے ہیں اور پھر
ربِ کائنات سرکا ر کی التجا کو شرفِ قبو لیت بھی بخشتے ہیں اور بستی پر لطف
و کرم کی بارش بھی کرتے ہیں۔ فخرو ناز کے دامن میں لپٹے ہوئے یہی لمحے تھے
جن کے بارے میں اقبال نے بڑے کرو فر سے کہا تھا کہ خودی کو کر اتنا بلند کے
ہر تقدیر سے پہلے۔ خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے ۔ سرکارِ دو
عالم حضرت محمد مصطفٰے ﷺ کو رحمت للعالمین کا خطاب خدا کی طرف سے انسانیت
سے ایسی ہی بے پناہ محبت کی وجہ سے ملا تھا کیونکہ آپ ﷺ کے در سے ہر شخص نے
زندگی کی نوید پا ئی تھی۔ انتہا تو یہ ہے کہ سرکار کے اسوہ حسنہ کی عظمتوں
کی مدح سرائی خود خالق ارض و سما کرتا ہے اور برملا اس بات کا اقرار کرتا
ہے کہ خدا اور اسکے فرشتے نبی ﷺ پر درودو سلام بھیجتے ہیں اے جماعتِ مومنین
تم بھی حضرت محمد ﷺ پر درودو سلام بھیجو کیو نکہ نبی کا سینہ انسانیت کے
درد سے معمور ہے ۔ یا یھا المد ثر کی قر آنی آیت انسانیت کے لئے سرکار ﷺ کے
اسی درد کی غماز ی کرتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ حضور ﷺ کی ساری زندگی انسانیت
کو ضلالت اور تباہ کن گڑھوں سے بچانے کی حسین آرزو ہے جن میں وہ صدیوں سے
گری پڑی تھی، کراہ رہی تھی اور اسکی بازآفرینی کے امکانات بہت محدود تھے۔یہ
آپ کی ذاتِ اقدس ہی تو تھی جس نے انسانیت کو مقامِ انسانیت سے روشناس کرایا
ورنہ وہ تو اوہام، انتقام،جہا لت، قتل و غا رت گری اور شرک و بت پرستی میں
الجھی ہو ئی تھی اور خظوظِ نفس کی لذتوں میں ایسی مستغرق تھی کہ اسے خود
اپنی خبر بھی نہیں تھی۔۔۔
عالمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ۔۔ذرہِ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آ فتاب
شوکتِ سنجرو سلیم تیرے جلال کی نمود۔۔۔فقرِ جنید و با یزید تیرا جمال بے
نقاب (ڈاکٹر علامہ محمد اقبال)
پاکستان میں تعلیم کا تناسب بہت کم ہے لہٰذا مذہب پسند طبقے کو لوگوں کے
جذبات سے کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔وہ مذہب کے نام پر شدت پسندی کے جذبات
ابھار کر ا نھیں اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں جس سے ملکی
استحکام اور ترقی پر بڑے منفی اثرات مرتب ہو تے ہیں ۔ بے علمی میں لوگ جس
فکر کو حق سجھ کر سینے سے لگا رہے ہوتے ہیں انھیں خبر ہی نہیں ہو تی کہ وہ
حق نہیں ہے۔ سلیمان تاثیر کا لہو، علامہ سرفراز نعیمی کا لہو ،شہباز بھٹی
کا لہو اور ان جیسے ہزاروں بے گنا ہوں کا لہو بھی اسی لا علمی کا تسلسل ہے
لیکن یاد رکھو ہر منفی سوچ کو ایک دن ختم ہو نا ہوتا ہے اور روشنی کے سامنے
ہارنا ہو تا ہے۔ علم کی روشنی برداشت کی روشنی، تحمل کی رو شنی ، محبت کی
رو شنی ،حکمت کی روشنی، بردباری کی روشنی، دا نائی کی روشنی ،صبر کی روشنی،
عفوو درگزر کی روشنی ، تکریمِ انسان کی روشنی ، عظمتِ ِ انسان کی روشنی اور
جو گروہ بھی اس روشنی کے لئے اپنا لہو دیتا رہے گا اس گروہ کی محبت عوام کے
دلوں سے کو ئی نہیں نکال سکتا۔شدت پسند کل بھی ہارے تھے اور آئندہ بھی
ہارتے رہیں گے کیونکہ امن کے جذبوں اور امن کی آر ز ﺅ ں کا خون کرنا کسی طا
قت کے بس میں نہیں ہو تا۔ شدت پسند قتلِ انسان کے جرم کو کو ئی بھی نام دے
کر خود کو طفل تسلیاں دیتے رہیں اور مذہبی تقدس کے غلاف میں لپیٹے کی کوشش
کر تے رہیں لیکن عوام الناس اسے قتل سے تعبیر کر کے اس کی مذمت کر تے ر ہیں
گے کیونکہ یہی سچ ہے اور سچ اپنے اظہار میں بے باک بھی ہو تا ہے کڑوا بھی
ہو تا ہے اور ایک مخصوص طبقے کے لئے ناقابلِ برداشت بھی ہو تا ہے۔۔۔۔
کیا مذ ہب و مسلک پو چھو ہو ہم اہلِ جنوں کا چارہ گرو۔۔انساں سے محبت کرنا
ہی ہم اہلِ جنوں کا مذہب ہے
الہام کی شمعیں جلتی ہیں تب شعر فروزاں ہو ئے ہیں۔۔ہم اہلِ محبت کا مذہب
احساسِ دروں کا مذ ہب ہے
(ڈاکٹر مقصود جعفری) |