بھارت میں کانگریس اور بی جے پی ہندوتوا کی پرچارک ہیں۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر پاکستان اسلام کی بنیاد پر بنایا گیا تو
بھارت کو ہندو مذہب کی بنیاد پر کیوں نہیں ہونا چاہیے ۔ پہلی بات یہ کہ
کوئی ڈاکومنٹری ثبوت ہے۔ کیونکہ ان کی کتابوں میں ہندو لفظ کا کوئی وجود ہی
نہیں ہے۔ براہمن دھرم، یا سناتن دھرم کی بنیاد پر ہندو دھرم بنانا چاہتے
ہیں ، اور ان کی کتابوں میں مورتی پوجا کا کوئی تصور نہیں اور ایشور کے
ساتھ کسی کی شرکت کا بھی کوئی تصور نہیں۔ساور کر نے ہندوتوا پر کتاب لکھی
اور ہندو مذہب کا تصور اسلیئے دیا کہ براہمن دھرم میں ان غریب لوگوں شامل
نہیں کر سکتے تھے۔ کیونکہ انکو غلام بنانے کی حکمتِ عملی کے سبب ۶۰۰۰
ذاتوں(جاتی) میں تقسیم کیا ہوا تھا۔ اور ان بیچاروں کو براہمن دھرم سے دور
رکھنے کیلئے الگ سے بھگوان بناکر دینے کی عجیب وغریب کوشش کی ۔ ان غریبوں
کی زندگی میں رنگ بھرنے کیلئے رنگ برنگے بھگوان اور انکی رومانوی کہانیاں
اور بلاتکاری بونس میں۔ چلو خیر ہے کوئی بھی نام ہو۔ اگر اس میں انسانوں کا
احترام نہیں ہے اور اپنے علاوہ کسی اور مذہب کے افراد کو قتل کردینا پاپ کے
بجائے پن ہے تو یہ تو دہشت گردی ہے اس پر کسی نے دہشتگردی کا لیبل کیوں
نہیں لگایا۔ آئے دن ہم دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں کہ گائے کا گوشت کھانے کے
نام پر لوگوں کو اذیت دے کر مار دیتے ہیں حالانکہ ان میں بہت سی ایسی
اسٹیٹس بھی ہیں جہاں گائے کا کاٹنا منع نہیں ہے جیسے کیرالا اورگوا(Goa )۔بھارت
دنیا میں بیف کا سب سے بڑا اکسپورٹر ہے دوسری طرف جہاں گائے پر پابندی ہے
وہاں بوڑھی گائے بھوک سے پریشان سڑکوں پر گھوم رہی ہوتی ہیں اور پولتھین سے
اپنا پیٹ بھر رہی ہوتی ہیں کہاں ہیں؟ وہ جوان گایوں کے لئے انسانوں کو قتل
کر دیتے ہیں۔ کیا سرکار نے ہر ایک گائے کے لیے کوئی گئوشالا بنایا ہے کہ
گائے کو اس کی آخری عمر تک چارہ دیکر دیکھ بھال اور خدمت کی جائے اول تو یہ
سرکار کے بس کی بات نہیں ہے۔ اگر کہیں کسی نے کوئی انتظام کیا بھی ہو تو
گوشالہ کی رقم انتظام کرنے والے خود کھا پی جاتے ہیں اور گائے بے بسی اور
لا وارثی کی زندگی گزار نے کے بعد بڑی تکلیف کے ساتھ مر جاتی ہیں ان کے
مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے؟ اور کتنی جگہ پر ان کے مرگھٹ کا انتظام ہے کیا یہ
سب قابل عمل ہے۔ کیا گئورکھشک اپنی پوری ذمہ داری سے اس کام کو کرتے ہیں ؟
بھارت میں غربت کی لائن سے نیچے انسانوں کی کتنی بڑی آبادی ہے سرکار انکی
دیکھ بھال نہیں کر سکتی ان کے بچوں کی تعلیم دواءعلاج دیکھ بھال سرکار کے
بس کی بات نہیں ہے ۔ ان سیاستدانوںکو اپنی پیٹ پوجا سے فرصت نہیں ہے ۔ یہ
غریبوں کے لئے کیا کریں گے ان کے جھوٹے وعدوں پر ان کو ووٹ دیجیئے اور ہر
مرتبہ دھوکا کھایئے۔ یہ کیسے لوگ ہیں جو انسانوں کی دیکھ بھال نہیں کرتے
ہیں تو گئورکھشا کیا کریں گے۔ا کوئی ادارہ ہےجو نظر رکھے اور حساب کتاب پر
پوری پابندی کرے۔
ساڑھے تین فیصد براہمنوں کی چار چار سیاسی پارٹیاں ہیں
اور وہ ہندوتوا کے نام پر ووٹ لیتی ہیں۔ مگر اپنے پچاسی فیصد ووٹر کیلئے
کچھ نہیں کرتیں ۔ اپنے ان غلاموں کو صرف ووٹ کیلئے ہندو کا نام دیا ہے، ہاں
انمیں سے کچھ لڑائی بھڑائی والوں کے لیے پیسوں کا منہ کھول دیتی ہیں اور یہ
سیاستدان ہندوتوا کے نام پر قتل و غارت گری کراتے ہیں ۔ کیونکہ براہمن خود
تو لڑائی بھڑائی سے دور رہتا ہے۔اور اس حکمت عملی کی وجہ سے بڑی آبادی
خوفزدہ رہتی ہے
جب سے پاکستان بھارت سے الگ ہوا مسلمانوں کا قتل عام ان براہمنوں کے لیے
بڑی نیکی کا کام ہے آج بھارت میں ناتھو رام گوڈسے کو دیش بھگت کہا جا رہا
ہے اور گاندھی کو گالی دی جا رہی ہے ۔ آج تک دھوکہ اور بہانے سے مسلمانوں
کو قتل کرنا ان کے نزدیک بڑاشبھ کام ہے۔ بابا صاحب امبیڈکر نے جو ہندوستان
کا آئین بنایا تھا اسمیں انسانیت کے احترام کا پورا خیال کیا تھا اور چھوت
چھات ذات پات کا مسئلہ حل کرنےکی کوشش کی تھی ۔آئین میں سیکولر کا لفظ
بڑھانے سے یہ بتایا گیا تھا کہ ہر کسی کو اس کے اپنے مذہب پر قائم رہنا
آسان تھا۔ مگر بھارت کا آئین ایس سی۔ ایس ٹی۔ او بی سی۔مول نواسی ۔
آدیواسی۔کو براہمنوں کی غلامی سے نہیں نکال سکا اور اب ہندوتوا کے پرچار کے
بعداس پچاسی فیصد آبادی کی غلامی مستحکم ہو جائے گی کیوں کہ ذات پات اور
اونچ نیچ ان لوگوں کو کبھی اٹھنے نہیں دے گی۔یہ کونسی انسانیت ہے یہ تو
کھلم کھلا دہشت گردی ہے۔۔سو کروڑ سے زیادہ کی آبادی پر ظلم ہو رہا ہے کسی
ہیومن رائٹس کی علمبردار نے کبھی یہ سوچا؟
2019 کے الیکشن کے موقع پر غریب دبے ہوئے لوگ سمجھ رہے تھے کہ آزاد ہو
جائیں گے۔ مگر EVM (الیکٹرانک ووٹنگ مشین) کےذریعہ گھٹالا کر کے ان کی
امّیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اس صورتحال میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ
بھارت کے ارباب اقتدار مہذب نہیں بلکہ الیکشن میں زیادہ ٹکٹ جرائم پیشہ
افراد کو دیئے گئے ہیں انہیں قتل و غارتگری ، خود غرضی اور بے رحمی کے
علاوہ کچھ نہیں آتا بھارت نا انصافی جرم و استبداد کا جنگل ہے جہاںانسانوں
کا شکار کیا جاتا ہے غریب آدمی کو ہندو اس لیئے کہا جاتا ہے کہ انکی تعداد
بڑھے۔اور جمہوریت کے جھوٹے نام پر حکومت کریں ملک کا مال بٹورتے رہیں ورنہ
جمہورتو غربت کی سطح سےبہت نیچے ہے بڑی مشکل میں زندگی گزار رہی ہے 2019 کے
الیکشن میں تمام پچاسی فیصد آبادی جس کو براہمن ہندو کہتے ہیں غلام بنا
رکھا ہے اور 15 فیصد مسلمانوں کی آبادی اور دوسرے سکھ عیسائی بدھ مذہب کے
لوگ بھی موجود ہیں ان سب نے اتّحاد کیا تھا کہ اپنے اتحاد کے ذریعے
ہندوستان سے بے انصافی اور بد نظمی کا خاتمہ کر دیں گے مگر بے معنی ہو گئے
اور اب ان کو ہٹانے کے لئے بڑی طاقت کی ضرورت ہے جس کی وہ کوشش کر رہے ہیں
۔ اللہ تعالی ان پر رحم کرے اور کامیاب کرے۔ اور ایمان کی روشنی عطا کرے
آمین |